Allah Taala Se Daren
اللہ تعالیٰ سے ڈریں
پاکستانی بلکہ شاید بہت سے معاشروں میں شادی کے بعد بچیوں کی زندگیاں یکسر تبدیل ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں یہ بات بہت نارمل انداز میں لی جاتی ہے۔ کیوں کہ ہر طبقے بالخصوص متوسط طبقے میں بچیوں کے بلوغت کے عمل تک پہنچتے ہی دن رات ان کو جتانا شروع کر دیا جاتا ہے کہ آپ کے والدین کا گھر آپ کا مستقل ٹھکانہ نہیں۔ بلکہ سسرال یا شوہر کا گھر اصل گھر ہوگا۔
میں نے بھی خود سمیت اپنی سب بڑی بہنوں کے لیے یہ بات سنی۔ لیکن یقین مانیئے تجربہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ کیوں کہ سسرال بھی ایک مطلق العنان ملکہ کی ریاست ہوتی ہے اور اس ملکہ کا دوسرا نام ساس ہے۔
بڑی ذہین، پوزیشن ہولڈرز، پر اعتماد، ذہین بچیاں اس ملکہ کے ہاتھوں مسترد ہو کر ناکام ثابت ہوتی ہیں۔
جوائنٹ فیملی سسٹم دین اسلام میں جائز نہیں۔ میرے انتہائی ناقص اور محدود علم کے مطابق اس خاندانی نظام کی کہیں بھی حمایت نہیں کی گئی۔ اگر ناگزیر حالات میں اس خاندانی نظام کا حصہ بننا پڑ بھی جائے۔ تو والدین کی خدمت بہو پر نہیں بلکہ سگے بیٹے یا بیٹی پر فرض ہے۔ شوہر کے بھائیوں کا کوئی بھی کام کرنا یا ان سے بغیر مقصد اور ضرورت کے تحت گفتگو کرنا بھی منع ہے۔ حدیث نبوی ﷺ میں دیور کے رشتے کو بھابھی کے لیے موت قرار دیا گیا۔ کنواری یا شادی شدہ نند کی خدمت گزاری کرنا بھابھی پر فرض نہیں۔ ہاں محبت میں وہ جو چاہے، اپنی خواہش سے کرے۔ مگر بوجھ نا سمجھے۔
لیکن اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ہمارے معاشرے میں ہو کیا رہا ہے۔ ہماری بہو ابھی گھر نہیں آتی، تو ساس منصوبہ بندی شروع کر دیتی ہے کہ میں نے اس پر کیا کیا ذمہ داریاں ڈالنی ہے؟
اگر بہو زرا سی مدافعت کرے تو سارا سسرال مل کر اس کا سوشل بائیکاٹ کر دیتا ہے اور ایک بری بہو کا ٹیگ مل جاتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں شادی یعنی خوشی سے بھرپور زندگی نکاح کی صورت میں زیادہ تر مردوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔ بچیاں بیچاری تو بیگار کیمپ کی ممبر بنتی ہیں۔ جہاں اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے جب آواز بلند کی جاتی ہے۔ تو بد زبان، غیر تربیت یافتہ لڑکی کا خطاب ملتا ہے۔ جسے والدین نے کچھ سکھائے سمجھانے بغیر بیاہ دیا۔
یہ سب ہمارے دین میں نہیں، بلکہ ہندو معاشرے سے ہمارے معاشرے میں ڈراموں کے زریعے بڑی خاموشی سے سرائیت کر گیا ہے۔ ان ڈراموں میں جن بہوؤں اور سسرال کو دکھایا جاتا ہے۔ وہ اس روئے زمین پر آپ کو کہیں نظر نہیں آئیں گیں۔
میں خاندانی نظام میں صرف محبت اور عزت کی قائل ہوں۔ میں خدانخواستہ والدین اور بہن بھائیوں کی اہمیت ختم کرنے کا درس نہیں دے رہی۔ اس صورت میں جب میں خود بھی ایک والدہ ہوں۔
مگر میں یہ چاہتی ہوں کہ آنے والی بچی کو جینے کا حق دیا جائے۔ جوڑے کو اپنی زندگی خود گزارنے کا موقع دیا جائے اور ہنسی خوشی دیا جائے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں دخل اندازی نا کی جائے۔ آپ کا بیٹا یا بیٹی آخری سانس تک آپ کے ہی رہیں گے۔ کوئی اس رشتے کو نہیں چھین سکتا۔ بس اپنے دل بڑے کر لیں۔
اور اگر یہ ممکن نہیں تو بیٹے کی شادی سے گریز کریں۔ آپ کو کوئی حق نہیں کہ کسی کے دل کے ٹکڑے کو اپنی انا کے قدموں تلے روندیں۔ اس سے جینے کا حق چھینیں۔
یاد رکھیں زندگی اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جو ایک مرتبہ ہی ملتی ہے۔ اپنے نااہل نافرمان بیٹے کو سدھارنے اور اس کی تربیت کے لیے اس سے بھی کم عمر بچی لا کر اسے کھلونا نا پکڑائیں۔ کیوں کہ روز محشر آپ کے سامنے کھڑے ہوکر انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو یہ شکایت لگانے کاحق ہر مسلمان کو ملے گا کہ یا اللہ اس بندے نے دنیا میں میرے ساتھ فلاں زیادتی کی تھی۔ اپنے روز مرہ کے معاملات میں صرف اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔ کیوں کہ حساب بھی صرف اسے ہی دینا ہے۔