Muthi Bhar Yaadein
مٹھی بھر یادیں
گاؤں کے کچے راستے پر اڑتی دھول نے میرا ہاتھ تھاما تھا۔ جانوروں کا ایک ریوڑ میرے آگے چلتا تھا اور چوکنا چرواہا مجھے حیرت سے تکتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اجنبیت تھی۔ روزی روٹی کی تلاش میں شہر جانے والوں کے لیے گاؤں اجنبی ہو جایا کرتے ہیں۔ پیچھے بس یہ دھول ہی رہ جاتی ہے، جو گاہے گاہے آنکھوں میں رڑک کر گالوں پر بہہ نکلتی ہے۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے، شہری بابو کی نظر دھندلا جاتی ہے اور وہ جیب میں پڑا رومال ٹٹولنے لگتا ہے۔
میرا گاؤں جانا عموماً گرمیوں کی چھٹیوں یا کسی عید تہوار پر ہی ہوتا تھا۔ کیوں کہ والد صاحب کی ملازمت شہر میں تھی۔ پھر میں خود نوکریوں کے بندھن میں جکڑا گیا، لیکن گاؤں کے کچے راستے پر اڑتی گرد میں میری یادیں بھی آج بھی بکھری ہیں۔
جہاں تنے پر پیر جما کر درختوں پر چڑھنا سیکھا تھا۔ جہاں خالہ زاد بھائی سے بنٹے کھیلنے کی تعلیم لی تھی۔ جہاں کچی مٹی پر جھاڑو کے تنکوں سے اپنا نام لکھا تھا اور شرارتی ہوا نے ہنستے ہنستے اسے مٹا دیا تھا۔ جہاں پانی میں صابن گھول کر بلبلے بنائے تھے۔ بلبلے کے خوش نما رنگوں کو ہوا میں تحلیل ہوتے دیکھا تھا اور زندگی کے ناپائیدار ہونے کا پہلا سبق لیا تھا۔
جہاں دادا جان سے ایک روپیہ لے کر چار ٹافیاں خریدی تھیں۔ ماموں جان کی سائیکل چلائی تھی۔ دور سڑک سے گزرتی گاڑیوں کی آواز سنی تھی اور مسافروں کے لیے خیر کی دعا کی تھی۔ منڈیر پر بیٹھا کوا دیکھ کر مہمانوں کی راہ تکی تھی۔ عزیزوں کے کھیت سے نکالی مولیاں وہیں کنویں کے پانی سے دھوئی تھیں۔ چھت کے کنڈے سے جھولا باندھا تھا۔ عید کا چاند دیکھنے کے لیے آسمان پر نظریں جمائی تھیں۔ رات کو صحن میں لیٹنے کے بعد نیند آنے تک ٹمٹماتے تاروں سے باتیں کی تھیں۔
میری یاد میں گاؤں کی وہ مہربان دھوپ بھی ہے جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر دیر تک آنکھیں موندی تھیں۔ لڈو کا میچ جیت کر سمجھا تھا گویا دنیا فتح کر لی ہو۔ جہاں گرمیوں میں چھٹیوں کا کام بھول کر اشتیاق احمد کے ناول پڑھے تھے۔ علی عمران اور ایکسٹو کی گیم سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ آس پاس کے جن گھروں میں ٹیلے وژن تھے انہیں رشک سے دیکھا تھا۔ گھر والوں کی منتیں کی تھیں کہ پڑوس میں جا کر ٹی وی پر عینک والا جن دیکھنے کی اجازت دے دیں۔
خواہش کی تھی کہ اپنے قبضے میں بھی ایسا جن آ جائے جو ٹی وی دلا دے۔ ہاں، وہ جن میرا چھٹیوں کا کام بھی کر دیا کرے۔ وہ سوال بھی بتا دیا کرے جو امتحان میں آنے والے ہیں۔ بلکہ بتا کیا دیا کرے، میری جگہ جا کر پرچہ بھی دے آیا کرے۔ پھر یہ یقین بھی کیا تھا کہ ایسی ناممکن خواہش پوری بھی ہو سکتی ہے۔
اس روز گاؤں کے کچے راستے پر اڑتی دھول کو غور سے دیکھا تو ذرے ذرے میں اپنی یادوں کا عکس نظر آیا، میں نے ہاتھ بڑھا کر انہیں مٹھی میں قید کر لیا۔ شہر آ کر بند مٹھی کھولی تو وہ خالی پڑی تھی۔