افغانستان کی جانب سے امنڈتا خطرہ!
کسی قوم کو بحیثیت مجموعی احسان فراموش قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم افغان حکومت نے بارہا اپنی احسان فراموشی ثابت کی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دہائیوں میں افغانوں کے لیے بہت کچھ کیا لیکن اپنے مغربی پڑوسی سے اس کے تعلقات ابتدا ہی سے مشکلات کا شکار رہے۔
اس میں ڈیورنڈ لائن کے تنازعے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور دیگر کئی تنازعات کی طرح یہ بھی ہمیں برطانوی استعمار سے ورثے میں ملا ہے۔ اگرچہ اس لائن کے منطقی یا غیر منطقی ہونے کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ افغان حکومتوں کی جانب سے اس لائن پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں اور بات اس لیے بھی مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ یہ لکیر کئی قبائل اور خاندانوں کو تقسیم کرتی ہے اس لیے جب بھی افغانستان کا معاملہ زیر بحث آتا ہے تو پاکستان کے پختون اس تناظر میں بھی اسے دیکھتے ہیں۔
ایک قومی ریاست کے طور پر اپنے قیام ہی سے ہماری سرحدوں کا تعین ہوا تھا۔ افغانستان سے ملحق ہماری سرحدیں بغیر کسی رسمی کارروائی کے آمد و رفت کے لیے کھلی رہی ہیں۔ ایک جانب جہاں اس سے پاکستان کی قومی شناخت کو زد پہنچی وہیں اس سرحد پر ہونے والی اسمگلنگ کے باعث پاکستان کے قومی خزانے کو ہر سال کروڑہا کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور یہ دھندہ کرنے والے امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ تین مختلف ادوار میں افغانستان سے پناہ گزینوں کی تین لہریں افغانستان سے پاکستان آئیں۔
پہلی لہر سوویت جارحیت کے بعد 1979 میں، دوسری بڑی نقل مکانی 1996 میں طالبان دورِ حکومت میں ہوئی اور تیسری بار نو گیارہ کے واقعات کے بعد افغان پناہ گزینوں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ پہلی لہر میں 40 لاکھ سے زائد افغان صوبۂ سرحد میں داخل ہوئے۔ انھیں پناہ گزین کیمپوں تک محدود نہیں رکھا جا سکااور یہ بہ آسانی پورے پاکستان میں پھیل گئے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی آج افغانوں کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ انھوں نے پاکستان کا پاسپورٹ حاصل کر لیا اور (بالخصوص ٹرانسپورٹ سمیت) ہماری معیشت کے کئی شعبوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔
افغان پناہ گزینوں نے انتہائی کم اجرتوں پر کام کر کے ملازمتوں کے کئی مواقعے کم کر دیے اور پاکستان میں روزگار کے حوالے سے کئی پیچیدگیاں پیدا کیں جن کے باعث غربت میں بھی اضافہ ہوا۔ 1996 میں جب طالبان برسر اقتدار آئے تو اس دور میں بھی قدرے سست رفتاری سے سہی لیکن نقل مکانی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ 2001 میں پناہ گزینوں کی ایک اور بڑی لہر پاکستان میں داخل ہوئی جس پر پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد 50 لاکھ ہوگئی۔
2005 میں کہیں جا کر پاکستان نے ان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن شروع کی اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی مدد سے 30لاکھ افراد کو واپس ان کے وطن بھیجا گیا۔ ایک بڑی تعداد اب بھی یہیں موجود ہے۔ جنوری 2017 میں پاکستان اور افغانستان نے ملک میں داخلے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازم کر دیا اور افغان شہریوں کے لیے ویزا کی مختلف اقسام بھی متعارف کروائی گئیں۔ فروری میں امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والا "امن" معاہدہ ڈانواں ڈول ہو رہا ہے۔ زلمے خلیل زاد اس معاہدے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے افغانستان میں بے قابو ہوتی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان سے مدد کی درخواست بھی کی ہے۔ وہ بھارت بھی گئے ہیں اور کوئی بھی اس کی وجہ بتا سکتا ہے۔ شاید وہ مودی سرکار سے درخواست کرنے گئے ہوں کہ وہ افغان حکومت میں شامل اپنے کارندوں کو قابو کرے۔ کورونا وائرس کی وبا سرحدوں، امن معاہدوں اور جنگوں کی پابند نہیں۔ یہ افغانستان میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہے اور افغان وزارت صحت کے اندازے تشویش ناک ہیں 1 لاکھ 10 ہزار اموات کاخدشہ ہے۔ اگر وبا اسی رفتار سے پھیلی تو اس سے اتنے افغان شہریوں کی ہلاکتیں ہوں گی جتنی جنگ میں بھی نہیں ہوئیں۔
فوری لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں وبا کے متاثرین اور اموات کی تعداد بتاتی ہے کہ ملک میں وبا کے اثرات زیادہ شدید نہیں ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہماری معیشت اور بالخصوص زرعی پیداوار کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ہمیں غذائی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس بار پہلے ہی گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا ہے اور دیگر اجناس کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے۔ لاک ڈاؤن اور رسد کے نظام میں آنے والے خلل کے باعث پیدا ہونے والے حالات میں پاکستان کو گندم، چاول اور دیگر غذائی اشیا کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہییں۔
اس کے علاوہ ایسے لالچی کاروبار پیشہ افراد سے بھی خبردار رہنا ہو گا جو حکومت میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے "اضافی" پیداوار کی برآمد سے اپنی جیبیں بھرنے کا حربہ استعمال کرتے آئے ہیں۔ اس بار غذائی اشیا کی برآمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پہلے ہی اس پر پابندی عائد کی جا چکی ہے، مزید پابندیاں لائی جا رہی ہیں۔
خوراک کا ایک شدید بحران ابتدائی مراحل میں ہے اس لیے افغانستان کو خوراک کی فراہمی اس بار ممکن نظر نہیں آتی۔ سرحد پر باڑ لگ چکی ہے اور بہت محدود سطح پر اسمگلنگ یا باقاعدہ تجارت ممکن ہے اس لیے افغانستان کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جنگ کے تیس برسوں نے افغان معیشت کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ افیون ہی ان کی قابل ذکر پیداوار ہے۔
کورونا وائرس نے صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ غذائی قلت کی وجہ سے بڑھتی بھوک کے باعث افغان پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر پاکستان کی جانب بڑھنے کا خدشہ ہے۔ یو این ایچ سی آر نے بھی غذائی قلت کے باعث دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی پیش گوئی کی ہے۔ باڑ لگنے کے بعد بڑی تعداد میں پاکستان کی سرحد پار کرنا پہلے کی طرح آسان نہیں رہا۔ لیکن کئی افغانوں کے خاندان پاکستان میں بستے ہیں اور ایسے حالات میں بھوک کے مارے لوگوں کو اپنے خاندان تک رسائی نہ دینے جیسا منظر کوئی نہیں دیکھنا چاہے گا۔
کچھ دن پہلے افغانستان میں خوراک کی تقسیم کے دوران امتیازی سلوک اور من چاہے لوگوں کو نوازنے کی بنا پر ہنگامہ ہوگیا جس کے نتیجے میں دو پولیس اہل کاروں سمیت 6 افراد کی موت ہوئی۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق صوبہ غور میں مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم ہوا جس میں پولیس نے گولی چلا دی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی افغانستان میں بیروزگاری میں اضافے اور رسد کی قلت کے باعث غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کر چکی ہے۔
افغانستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن نے بھی خوراک کی تقسیم پر سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خوراک انھیں نہیں مل رہی جو اس کے مستحق ہیں بلکہ یہ ان لوگوں تک پہنچ رہی ہے جو مقامی حکام سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ کورونا وائرس نے اس تباہ حال ملک کو ابھی تک بہت زیادہ متاثر نہیں کیا۔ وہاں اب تک 400 سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور 100 اموات ہو چکی ہیں۔ خوراک کی عدم دستیابی پر ردعمل کو قابو کرنے کے لیے ایک صوبے میں گولی چل گئی، جب پورے ملک کو قلت کا سامنا ہو گا تو حالات کیا ہوں گے؟
عالمی برادری برسوں تک افغانستان میں فوج، ہتھیار اور گولہ بارود کی فراہمی کے لیے سرمایہ فراہم کرتی رہی ہے اب اسے یہاں گندم، گوشت اور دیگر غذائی اشیا بھیجنے کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے۔ مالی وسائل کی دستیابی کے باوجود خوراک کا انتظام اتنا آسان نہیں ہو گاکیوں کہ پڑوسی ممالک اپنی آبادی کی ضروریات کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے بہت بڑی مقدار فروخت کرنے کے قابل نہیں ہوں گے، اپنے لوگوں کو خوراک کی فراہمی ان کی اولین ترجیح ہو گی۔ غذائی قلت کے باعث فسادات کا خطرہ پہلے ہی سر پر منڈلا رہا ہے ایسے میں پناہ گزینوں کی ایک اور بڑھتی ہوئی لہر کو ہر قیمت پر روکنا ضروری ہے یا پھر ہمیں قومی سلامتی کے بڑے خطرات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں۔ )