نہ ہیرو نہ ولن، صرف وکٹری
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ قوم کے کمزور اعصاب کا امتحان ختم ہوا اور ایوان بالا کے بارے میں تقریباً سارے اندازےتہہ و بالا ہوگئے۔ چودہ اگست 1947کو معرض وجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اپوزیشن کو ان چودہ سینیٹرز کی تلاش ہے جو اپنوں کو سجیاں دکھا کر کھبیاں مار گئے۔ اپوزیشن کیا ہے؟ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا اور اس کنبے میں وہ قبیلہ بھی شامل ہے جس نے چھانگا مانگا کو نئے سرے سے متعارف کرایا اور انہیں میں سے ایک کو 14ضمیر فروشوں کی تلاش ہے۔ سبحان اللہ یہ دن بھی آنا تھا کہ ضمیر فروشوں کے ہول سیل ڈیلرز اور سب سے بڑے خریداروں کو ضمیر فروشوں کی تلاش ہے اور ضمیر فروش انہیں خریداری کے قابل سمجھنے سے بھی انکاری ہیں، حالانکہ ان کے پاس ٹی ٹیوں کے ڈھیر ہیں لیکن وقت وقت کی بات ہے۔ کبھی مٹی کو ہاتھ لگاتے تو بیچاری سہم کر سونا ہوجاتی، آج سونے کو چھوتے ہیں تو وہ سرسراتے سانپوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ مت اس بری طرح ماری گئی کہ ضمیر فروش ڈھونڈرہے ہیں حالانکہ یہ خود وہ لوگ ہیں جنہوں نے ضمیروں کے قتل عام کے بعد ز رخریدوں کی نشوونما پر دن رات محنت کی اور یہ بھول گئے کہ اب یہاں کوئی ضمیر فروش نہیں ہوتا کیونکہ ضمیر فروشی کے لئے ضمیر کا ہونا بنیادی شرط ہے لیکن برادران بلکہ سیاسی تاجران کو ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ منڈی الٹ چکی ہے۔ رہ گئے ضمیر کے علمبردار، نصابی کتابی معصوم مفکرین تو انہیں کو ن سمجھائے کہ یہاں ویلیوز کب کی نیلام ہوچکیں۔ پاکستانی سیاست میں صرف ایک ہی ویلیو تھی اور زندہ ہے جسے"نیو سینس ویلیو" کہتے ہیں اور سلیس زبان میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ"نوٹ دکھا میرا موڈ بنے"۔ واہ سیاست سے لے کر صحافت تک میں تجارت متعارف اور مستحکم کرنے والے آج طہارت کی بات کررہے ہیں۔ محاورہ تھا "سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا" میں نے تقریباً 20، 22برس پہلے اس میں ا ضافہ کیا کہ اس کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی۔ دو دن پہلے دیکھا کہ جسے سٹرکوں پر گھسیٹنا تھا، جس کے"اندر" سے لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنی تھی اس کے اکلوتے بیٹے کی بغل میں منہ لٹکائے منمنارہے تھے۔ ان کو تو چھوڑیں کہ سیاسی دین دھرم ہی کوئی نہیں لیکن ہمارے جو دوست پی ٹی آئی کی پینترا تبدیلی پر جز بز ہورہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ سیاسیات اور اخلاقیات دو متضاد اور متصادم حقیقتیں ہیں۔ اقتدار کی جنگ میں اقدار؟ اس پر تو خود بڑے بڑے سیاستدان متفق ہیں۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے تو بھائی! اقتدار تو بیک وقت محبت بھی ہے اور جنگ بھی۔ یہاں بھائی بھائی کیا، باپ بیٹا کیا ماں بیٹے کا رشتہ بھی بیچ میں آجائے تو بے رحمی سے روند دیا جاتا ہے۔ باقی رہ گئی مثالیت پسندی تو وہ ہم جیسے نکموں، نکھٹوئوں کا کام ہے اور پاکستان تو عملیت پسندی میں چشم بدور ساتویں آسمان پر ہے۔ محاوروں میں ملینیمز پر محیط تجربوں میں ڈوبا مغز ہوتا ہے۔ سیاستدان بالخصوص ہمارے ٹائپ کے، سادھو، سنت، جوگی، تیاگی، پیر فقیر اور ایدھی نہیں ہوتے اور اجتماعی دانش کا خلاصہ تو ہے ہی اتنا کہ"When in Rome، Do as the Romans do" "Set a thive to catch a thief" اور یہاں تو چور نہیں، گینگسٹرز اور مافیاز ہیں۔ کئی بار یہ کہہ بھی چکا، لکھ بھی چکا کہ پاکستانی سیاست بیچاری آئیڈیل تو کبھی نہیں تھی لیکن کوئی تحقیق کرے کہ نواز شریف اینڈ کمپنی کی سیاست میں نقب سے پہلے سیاست کتنی بدکردار تھی اور بعد میں بدکرداری نے کیسی ضربیں کھائیں۔ کہیں کیسی جہتیں متعارف کرائیں، پاکستانی سیاست کی لغت میں بیشمار نئی اصطلاحیں متعارف کرانے کا "کریڈٹ" صرف اور صرف نواز شریف کو جاتا ہے اور شاید وہ بیچارہ بھی "مجبور" اور "سچا" ہی تھا کہ سیاست کو مونچھوں اور توندوں والے فیوڈلز سے چھیننے کے لئے اسے دولت، طاقت، منت ترلا غرصیکہ ہر مکروہ حربہ آزمانا پڑا۔ دوسری طرف سے پولو پلیئر قبائلی جنگجو زرداری صاحب کی اینٹری ہوئی تو ساری سیاست ہی جمہوری چکی کے ان دو پاٹوں کے درمیان پس کر رہ گئی اور نتیجہ یہ کہ چودہ اگست 1947 کو معرض وجود میں آنے والا یہ ملک آج2019 میں چودہ ضمیر فروش ڈھونڈرہا ہے۔ چودہ VS چودہ یعنی14VS14۔ چار جمع ایک=پانچ اور پانچ+پانچ10=نمبری سیاست جس میں سوائے ضمیر کے سب کچھ ہوتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ساری مین سٹریم سیاسی جماعتیں دیکھ لیں کہ کون کون کب کب کہاں تھا اور پھر ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کہاں لینڈ کرگیا۔ وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہےمرَے بت خانے تو کعبے میں گاڑو برہمن کوغالب کے مندرجہ بالا اصول پر کتنے پورا اترتے ہیں؟یہ چپڑ قناتیئے صرف چودہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں لیکن تصویر کا ایک رخ یقیناً یہ بھی ہے کہ لوگوں یا کچھ لوگوں نے ضمیر کی آواز پر ہی لبیک کہا ہو کہ وہ روبوٹس یا کٹھ پتلیاں نہیں جیتے جاگتے انسان ہیں جو مولانا فضل الرحمن کے ایجنڈے کا ایندھن نہیں بن سکتے اور نہ ہی قید کاٹتے "ڈان" انہیں ڈ کٹیٹ کراسکتے ہیں، جو بھی ہو پٹے ہوئوں کی عدم اعتماد پٹ چکی جو اور بہت کچھ بھی یاد دلاتی ہے مثلاًچوروں کو پڑے گئے مورجیسے کو تیسالوہے کو لوہا کاٹتا ہےسپ نوں سپ لڑے، زہر کنوں چڑھےلو آپ اپنے جال میں صیاد آگئےجو بھی ہو قوم کے کمزور اعصاب کا امتحان ختم ہوا اورخاتمہ سے پہلے یہ ری مائنڈر دے گیا کہ ہماری سیاست میں ہیرو اور ولن نہیں صرف وکٹری ہوتی ہے۔