ہوک سے چرخے دی کوک تک
مجھے تین "نیازی" بہت پیارے اور عزیز ہیں۔ پہلا منیر نیازی، دوسرا منیر نیازی اور تیسرا ڈاکٹر اجمل نیازی جو عالی ذہن ہونے کے ساتھ ساتھ عالی ظرف بھی ہے ورنہ آج کل دوسروں کی تعریف خال خال ہے یا خواب و خیال۔ حسد، بغض، عناد اور خدا واسطہ کے بیر کا زمانہ ہے لیکن اجمل نیازی کی اپنی ہی دنیا ہے۔ دو تین دن پہلے اپنے کالم میں لکھتے ہیں___"نوحہ پڑھا ہے برادرم حسن نثار نے قبروں اور خبروں کا۔ قبریں اور خبریں اس زمانہ میں ایک سی ہو گئی ہیں۔ نہ اچھی خبریں ملتی ہیں اور نہ زندہ قبریں ملتی ہیں۔ کالم کی شکل میں دانشور کالم نگار حسن نثار نے یہ نوحہ لکھا ہے۔ اس نے بڑی بڑی قبروں اور آج کل کی خبروں کو ایک کر دیا ہے لیکن کالموں کو اس کے ساتھ شامل کرنا مناسب نہ تھا۔ حسن بھائی بادشاہ آدمی ہے۔ بہت زبردست کالم نگار ہے مگر ہم سب کے کالم کس کھاتے میں آتے ہیں؟"گزارش برادرم اجمل نیازی سے صرف اتنی سی ہے کہ جن کالموں کو میں نے خبروں اور قبروں کے ساتھ ملایا، اگر ملایا تو وہ میرے اپنے ہی کالم تھے، میرے شاندار و طرحدار ہم عصروں کے نہیں کہ آپ اور آپ جیسوں کے کالموں کی تو کلاس ہی اور ہے جن سے میں خود رہنمائی اور انسپائریشن حاصل کرتا ہوں ورنہ مجھے تو اس اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ میں تو گزشتہ بائیس چوبیس سال سے دو چار کالم ہی گھمائے اور دہرائے جا رہا ہوں۔ انصاف، احتساب، کرپشن، جہالت، بدصورت نقاب پوش جمہوریت وغیرہ کے علاوہ مجھے تو اور کچھ سوجھتا ہی نہیں سو ان اور چند ایسے ہی کچھ اور موضوعات پر فوکس رہا اور دکھ اس بات کا ہے کہ گرینڈ ٹوٹل میں "کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنہ" کے علاوہ نتیجہ صفر ہے یعنی ڈھاک کے تین پات۔ پہلے دو بڑی سیاسی جماعتیں تھیں، پھر ایک تیسری قوت ابھرنے کے بعد تعداد تین ہو گئی لیکن تبدیل کچھ نہیں ہوا۔ کبھی لکھا تھاکچھ اور نہیں وعدئہ تعبیر کے بدلےہم خواب فروشوں سے کوئی خواب خریدےجیسے کالم "ری پیٹ" ہوتے رہے، تعبیر بھی "ری پیٹ" ہوتی رہی اس لئے گلہ، شکوہ، شکایت، غصہ صرف اپنے کالموں پر ہے، ساتھیوں کے کالموں پر نہیں۔ قارئین کا قیمتی وقت صرف میں نے ضائع کیا جس کے اعتراف کا واحد مقصد صرف اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا تھا۔ لکھنے والے نے ہر خواب کی ایک سی تعبیر ہی تقدیر کر دی تو تحریر پر تعزیر کیسی؟اور اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ سائنس اور ٹیکنالوجی تو یادوں کے سوا سب کچھ ہی کھا گئی۔ مشکیزے، پینجے اور چرخے مع چرخے کاتنے والیاں، سب ماضی ہو گئے۔ اس پر تو ماتم کر کے سو رہتے لیکن مجھے تو اس بات سے خوف آتا ہے کہ آنے والی دو تین نسلوں بعد تو شاید پنجابی زبان کی بھی صرف یاد ہی باقی رہ جائے گی۔ پنجابی کیا، ان بچوں سے تو اردو بھی ڈھنگ سے پڑھی بولی نہیں جاتی اور انتہا یہ کہ والدین بھی اس سچوئشن سے محظوظ ہوتے ہیں۔ "جوگی اتر پہاڑوں آیا تےچرخے دی کوک سن کےکن وچ مندراں گل وچ گانی بھورے نین تاں مست جوانی"اب "او لیول" اور "اے لیول" کو کون سمجھائے اور کیسے سمجھائے کہ "جوگی" کون ہوتا ہے؟ کانوں میں جھولتی "مندراں" کیسی ہوتی ہیں اور گلے میں "گانی" کا کیا مطلب ہے۔ بڑی مشکل سے سمجھایا کہ چرخہ کیا ہوتا تھا اور یہ لفظ چرخہ فارسی لفظ چرخ سے نکلا جس کا ایک مطلب پہیہ بھی ہے۔ کبھی ہمارے دیہات میں چرخہ ہر گھر کی ضرورت تھا کہ یہ لج پال تن ڈھانپنے میں مدد کرتا، چرخہ کاتنے کی مہارت عورت کی پہچان، سگھڑاپے کا نشان تھی اور جہیز کا کلیدی سامان۔ لوک گیتوں کے چرخے سے لے کر چاند پر چرخہ کاتنے والی بڑھیا تک سب، سریندر کور اور پرکاش کور کے گائے اس خوبصورت گیت سمیت خواب اور خاک ہوگیا۔ "نی میں کتاں پریتاں نال چرخہ چنن دا"چنن کا چرخہ چلتا تو خوشبو پھیلتی تھی۔ سوت کاتنے کے لئے چرخے کی ایجاد کا سراغ بغداد میں ملتا ہے۔ 11ویں صدی عیسوی کے عباسی دور کی ایک تصویر میں کسی کو چرخہ کاتتے دکھایا گیا ہے جبکہ چین میں 1270اور یورپ میں اس کا سراغ 1280میں ملتا ہے۔ چرخے سے بھی پہلے ہاتھوں سے دھاگہ تیار کرنے کی کہانی چار ہزار سال پرانی ہے اور چرخے کو ری پلیس ہوئے تو جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہ ہوئے۔ وہ جگہ جہاں عورتیں اکٹھی بیٹھ کر چرخہ کاتا کرتیں، "آتن" کہلاتی تھی۔ اٹیرے ہوئے سوت کی گچھی کو "اٹی" کہتے تھے۔ لکڑی کا وہ آلہ جس پر سوت لپیٹ کر گچھیاں بناتے تھے، اٹیرن یا اٹیرنی کہلاتا تھا۔ چرخے کے دونوں گول تختوں کو ملانے والی رسی یا دھاگہ جس کے اوپر چرخے کی ماہل چلتی، بیٹر کہلاتی۔ پونیاں وغیرہ رکھنے کی ٹوکری کو پٹاری کہتے۔ اسی طرح پون سلائی، پونی، تند، چیرو، چھکو، چھلی، چھوپ، چمرکھ، دمکڑا، گڈا، گڈی، لڑی، لوگڑ، ماہل، مڈھا وغیرہ سب ہی چرخے کے متعلقات و لوازمات تھے جو چرخے کے ساتھ ہی رخصت ہو گئے۔ رہے نام اللہ کاباقی سب کچھ فانی ہے۔