نقار خانے میں (2)
پھر ایک سناٹا، ملال اور گداز سے بھرا سناٹا۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کبھی کسی نے سنی ہے کہ اب سنے گا۔ بوریت کے تین گھنٹے گزر چکے تو اللہ کا شکر ادا کیا۔ ہزار بار سنی تلخ باتیں ایک بار پھر سن لیں۔ بیچ میں ایک چھوٹا سا وقفہ اس وقت آیا جب ایک سردار جی سامنے والی نشست پر آن بیٹھے۔ اکتاہٹ ایسی شدید تھی کہ طبیعت اب فرار پر تلی تھی۔
اس جوان رعنا کو متوجہ کیا اور پوچھا:کیا آپ کا تعلق فلاں مذہبی جماعت سے ہے؟ بچوں کی سی معصومیت سے اس نے جواب دیا "میرا نام جوگندر پال سنگھ ہے"۔
پھرادراک نمودارہوا اور اس کی آنکھوں میں چمکا۔ آنکھوں ہی میں نہیں، پورے چہرے پر، پورے کے پورے پیکر میں۔ سکھ اگر بھوک اور بادہ نوشی کا مارا نہ ہو تو اکثر خوش مزاج ہوتا ہے۔
مجھے اپنے دو پرانے سکھ دوست یاد آئے۔ ان میں سے ایک 1997ء میں وزیر اعلیٰ پختون خوا سردار مہتاب عباسی کا مشیر تھا۔ ایک مجلس میں جب اس نے دیکھا کہ وزیر اعلیٰ اس ناچیز کی طرف متوجہ ہیں تو اس نے فرمائش کی! "بھائی جی، میرا ایک چھوٹا سا کام کر دیجیے"۔
سردار صاحب کے توجہ دلانے سے ارکان اسمبلی کے ہوسٹل میں مسجد کی تعمیر ممکن ہوئی تھی۔ سرگوشی میں اس نے کہا:چیف منسٹر صاحب سے کہئے کہ اس عبادت گاہ کا نام سردار دوست سنگھ مسجد رکھ دیں۔ "ایک سکھ کے نام پر مسجد کا نام؟"۔ کمال معصومیت سے اس کا جواب یہ تھا "لاہور میں وزیر خان کے نام کی عبادت گاہ صدیوں سے چلی آتی ہے، دوست سنگھ کے نام پر کیوں نہیں؟"۔
دوسرے سردار سورن جیت سنگھ تھے۔ 2010ء کے ہولناک سیلاب میں ان سے ملاقات ہوئی۔ آئی ایس پی آر کے دفتر میں بریگیڈیئر ترمذی سے ملنے گیا۔ ایک آدھ نہیں، ایک درجن سکھ ان کے کمرے میں تشریف فرما تھے۔ چند منٹ میں اندازہ ہو گیا کہ سورن جیت سنگھ ان کے لیڈر ہیں۔ پختون خوا میں طوفان کے مارے سکھ خاندانوں نے حسن ابدال کے گردوارے میں پناہ لے رکھی تھی۔ ان کی وہ دیکھ بھال کر رہے تھے۔ پاک فوج کے صدر دفتر میں، وہ امداد کی درخواست کرنے آئے تھے۔ آئی ایس پی آر سے انہیں رابطہ کرنے کی ہدایت ملی تھی۔
وہ ایک دلچسپ آدمی ثابت ہوئے۔ عمران خان کو توجہ دلائی، پی ٹی آئی میں شامل کر لئے گئے اور آخر کار صوبائی اسمبلی کے ممبر بھی ہو گئے۔ ایک جذباتی پشتون سکھ۔ جب کبھی عمران خان پر کوئی تنقید کرتا، آپے سے باہر ہو جاتے۔ نہایت ہی دلچسپ آدمی، ایک طویل خاکہ جن کا لکھا جانا چاہیے۔ ایک پیشہ ور حکیم، پیدائشی طور پر، جس میں ایک رہنما کے اوصاف پائے جاتے تھے۔ اس کہانی کا اختتام اگرچہ اندو ہناک تھا۔ ایک دن وہ قتل کرا دیے گئے۔ اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والا ایک "جواں مرد" اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ خیال اس کا یہ تھا کہ سورن جیت سنگھ کی موت سے خالی ہونے والی سیٹ پر آسانی سے وہ منتخب ہو جائے گا۔
معلوم نہیں کہ اب تک وہ جیل میں سڑ رہا ہے یا پھانسی کے تختے پر جھول گیا۔ عمران خان کا خطاب جاری تھا۔ معمول سے کہیں طویل۔ دھیمی آواز میں طارق چوہدری نے کہا:لگتا ہے کہ احتجاجی مارچ کی تاریخ کا خان صاحب اعلان نہیں کریں گے، بات کو شاید اسی لئے طول دے رہے ہیں۔ تسلی بخش طور پر مخالفین کی مذمت کا مقدس فریضہ انجام دینے کے بعد اپنے فدائین کو وہ زندگی کے اسرار و رموز بتا رہے تھے۔ اس مفہوم کا جملہ:
بزدل آدمی کی زندگی بنجر اور بے معنی ہوتی ہے۔
ملے جو حشر میں لے لوں زبان ناصح کی
عجب چیز ہے یہ طولِ مدعاکے لئے
واعظ بہت ہیں، انجینئر محمد علی، حضرت مولانا تقی عثمانی، جناب جاوید غامدی، ڈاکٹر علامہ طاہر القادری، بابا عرفان الحق اور سب سے بڑھ کر مولانا طارق جمیل مدظلہ العالی۔ اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہیں کہ امت پہ یہ روز سیاہ مسلط کیسے ہوا، صدیوں پر جو پھیل گیا ہے۔ دور دور تک جس کی سویر دکھائی نہیں دیتی۔ آنے والا کل تابناک کیسے ہو سکتا ہے۔ دلدل سے نکل کر ہموار راستے پر یہ قوم کب اور کیسے روانہ ہو گی۔
کب کوئی ایسا اٹھے گا، دلوں کو جس پہ یقین آ جائے جب وہ یہ کہے:
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
منطق ہے اور داستانیں ہیں اور استدلال ہے۔ علم کے پہاڑ اور خطابت کے شاہکار، مگر قندیل کہیں کوئی نہیں:
تصویرِ لیلیٰ ہودج نشیں تھی لیلیٰ نہیں تھی
کیا ڈھونڈتا تھا شوقِ نظاّرہ محمل بہ محمل
وہ کہاں ہیں، جن کے ہاتھ میں چراغ ہوتے ہیں، کہیں سے ان کو بلائو بڑا اندھیرا ہے۔
لیڈر ہیں اور مہمات ہیں۔ گل رنگ فردا کے وعدے ہیں اور کرہ خاک پہ بہشت بریں سجا دینے کے وعدے۔ ہاں! مگر لہجہ بازاری اور زباں اس سے زیادہ بازاری۔ شیخ صاحب نے صرف دو تین منٹ خطاب کیا۔ معمول کے وہی چار نکات۔ مخالفین کو دشنام، ایک حلیف پر پھبتی، خان کی خوشامد اور پھر یہ تاثر کہ وہ ان کے سب سے زیادہ قریب اور سب سے دانا مشیر ہیں۔ خطاب ختم کرتے ہی، طبیعت ان کی بگڑ گئی۔ ایمبولینس لائی گئی مگر وہ ہسپتال نہیں، قیام گاہ پر پہنچے۔ پولیس افسر نے بعدازاں بتایا:چند آدمیوں کو خبر تھی، شیخ صاحب ان میں سے ایک تھے کہ تخریب کاری کا واقعی بہت شدیدخطرہ ہے۔ بارود کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔
کتنے بے شمار بزدل ہیں جو بہادروں کی سی زندگی جیتے ہیں۔ بوریت اب کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ جوگندر پال سنگھ سے پوچھا:سردار جی!بہادری اور سخت کوشی، حریفانہ کشمکش کی پیہم آرزو، سکھوں اور ہمارے پشتون بھائیوں میں کیا یہ خصوصیات مشترک نہیں؟ سردار نے قہقہہ لگایا"بھائی جی میں اس سوال کا جواب کیسے دے سکتا ہوں، میں تو پشتون ہوں اور سکھ بھی"۔ ایک لمحے کا وقفہ " اب سرائیکی بھی سیکھ گیا"۔
دھیان بار بار کپتان کے اس جملے کی طرف جاتا رہا، محترمہ مریم نواز کے بارے میں ابھی ابھی جو انہوں نے ارشاد کیا۔ گالم گلوچ کا ایک مسلسل مقابلہ۔ وہ جنگ، جس کا کبھی کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ یہ خیال تب نہ آیا کہ سوشل میڈیا پر کچھ دیر میں کہرام برپا ہو گا۔ اخلاقی معیارات پر اصرار کرنے والوں میں، میرے محترم اور مرحوم دوست ادریس صاحب کی صاحبزادی فریحہ ادریس نمایاں ہیں۔ الفاظ کو وہ سونے کے بھائو تولتی ہیں۔ خطاب ختم ہوا، الحمد للہ، مئی کے ملتان کی آتش ریز شام۔
مکرّم فخر امام نظر آئے۔ اسیّ برس کی عمر میں نوجوانوں کی سی بے ساختگی۔ دولت کدے پر پہنچنے کا وہی اصرار، ہمیشہ کی طرح وہی سجا سنورا مگر بے تکلف دسترخوان۔ ملائم لہجے میں ہمیشہ کی طرح، ایک سنجیدہ سوال:خطابت کی بجائے کیا ان ترجیحات کو اجاگر نہ کرنا چاہیے تھا جو کھو دی گئی ہیں۔ ایف بی آر، پولیس، عدلیہ اور سول سروس کی اصلاح۔
پھر ایک سناٹا، ملال اور گداز سے بھرا سناٹا۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کبھی کسی نے سنی ہے کہ اب سنے گا۔