مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
پروفیسر صاحب کم ہی کسی کی ستائش کرتے ہیں۔ صوفی صاحب کے بارے میں بتایا گیا تو کہا: "واقعی وہ فقیر ہیں۔ "
پانچویں، ساتویں صف میں ہم بیٹھے تھے، حرم پاک میں صوفی صاحب نے کہا "پہلی صف میں ہم پڑھیں گے" عرض کیا: بھوک لگ رہی ہے۔
صوفی عائش محمد اٹھے مگرتعجیل سے نہیں۔ یہ ان کا انداز نہ تھا۔ ہر کام وہ دھیرج سے کرتے۔ سلیقہ مندی سے۔ "آئیے بھائی جی۔ " "بھائی جی" ان کا تکیہ کلام تھا۔
جدّہ والی شاہراہ پر ہم جا کھڑے ہوئے۔ عنان صوفی صاحب نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ ٹیکسی کی ضرورت کیا تھی۔ کسی قریبی ریستوران پر بھوک مٹالی جاتی۔ صوفی صاحب لیکن برق رفتاری کے قائل نہ تھے۔ آخری درجے کی سادگی مگر اہتمام ان کا شعار تھا۔
ایک ٹیکسی آئی اور گزر گئی۔ دوسری کو انہوں نے روکا۔ حجاز ان کا دوسرا گھر تھا۔ سال کا کچھ حصہ یہاں گزارتے۔ زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ میں، ہم ایک گلی میں داخل ہوئے اور ایک بوسیدہ سی عمارت میں داخل ہو گئے۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ ان کا اپنا ریستوران تھا۔
"آپ کا ایک ریستوران حرم پاک سے متصل ہوا کرتا تھا کیا وہ توسیع کی نذر ہوا؟""توسیع نہیں لاپرواہی، انہوں نے کہا: میں نے ان سے کہا تھا کہ آمدنی کا ایک حصہ ضرورت مند طلبہ کو دے دیا کرو۔ انہوں نے پرواہ نہ کی"۔ صوفی صاحب کی آواز میں رنج تھا۔ یہ ایک مقبول ریستوران تھا۔ اپنی مخصوص شائستہ حسِ مزاح کے ساتھ ایک بار انہوں نے کہا تھا "اتنا ہجوم حجرِاسود پہ ہوتا ہے یا اس جگہ۔ "
رنج رفقا کی بے نیازی پر تھا۔ روپے کا فائدہ ہی کیا اگر وہ ضرورت مندوں کے کام نہ آ سکے۔
"الم" یہ ہے وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں، رہنما ہے ان اہل تقویٰ کی جو غیب پر ایمان رکھتے، نماز قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے دیا ہے، (دوسروں پہ) خرچ کرتے ہیں "روپیہ آدمی کماتا نہیں، اسے عطا کیا جاتاہے۔ میاں منشا کی آمدنی آئن سٹائن سے کہیں زیادہ ہے۔
الفاظ کے نہیں، صوفی صاحب عمل کے آدمی تھے۔ ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے۔ نرم گفتاری، تصنع اور تکلف کا، جس میں شائبہ تک نہ تھا۔ تہجد گزار، عبادت میں انہماک، سادہ ترین لباس۔ اللہ سے محبت، اس کے بندوں سے الفت، قرآن کریم سے اٹوٹ وابستگی، احادیث ازبر اور ہمہ وقت ذکر و فکر۔ قدرے بھاری جثہ، خوش چہرہ، ہاتھوں کی انگلیاں اس قدر خوبصورت کہ آدمی دیکھتا رہ جاتا۔ لہجے کی حلاوت حیران کئے دیتی۔ مال و دولتِ دنیا سے بے نیاز۔
میرے خالہ زاد بھائی، میاں محمد خالد حسین اور چھوٹے بھائی محمد امین نے کہا: لاہور میں صوفی صاحب کے لئے دو کمروں کا ایک مکان بنوا دوکہ شہر کے مکین فیض پا سکیں۔ اٹھارہ برس ہوتے ہیں، ٹھوکر نیاز بیگ سے ادھر، نہر کنارے ایک کالونی میں تب ایک کنال کا پلاٹ چار لاکھ روپے میں میسر تھا۔ سادہ سے دو کمروں کی تعمیر پر زیادہ سے زیادہ دس لاکھ روپے صرف ہوتے۔ نہایت خوشی سے یہ فرض انجام دیا جاتا۔ یا للعجب، انہوں نے انکار کر دیا ان کے خیال میں یہ اسراف تھا۔ لاہور میں ان کے بہت سے جاننے والے تھے۔ خوش دلی سے جو ان کا خیرمقدم کرتے۔ میزبان سے درخواست کرتے کہ ممکن ہو تو چند دوستوں کو مدعو کیا جائے۔ درس قرآن دیتے، کھانا کھلاتے، قرآن کریم خشوع و خضوع سے پڑھتے۔ ایسے ہی ایک درس میں منو بھائی بھی شریک ہوئے۔
ریستوران میں پلیٹ کی بجائے پیالہ تھا۔ وہ سادہ سا پیالہ جو ایک صدی پہلے دیہات میں رائج تھا۔ شوربے سے لبا لب بھرا ہوا اور دو تین بوٹیاں بھی، نہایت عمدہ۔ ایسا لذیذ کھانا جو اشتہااورپرخوری کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ چپاتی وہ خود اٹھا کر لائے، پانی بھی۔ پھر دوسری چپاتی۔ شرمسار، ان سے عرض کیا "آپ کیوں مجھے گنہگار کرتے ہیں؟" فرمایا:اللہ کے آخری رسولؐ نے اکرام الضیوف کا حکم دیا ہے۔ مہمان کے اکرام کا۔ پھر بتایا کہ پہلی ٹیکسی کو انہوں نے روکا کیوں نہیں۔ "رسول اکرمؐ ہمیشہ اچھی سواری پسند کرتے"۔
مُلا نہیں، وہ صوفی تھے، ریاکاری کا شائبہ تک نہ تھا۔ اپنے بارے میں بات نہ کرتے، مگر چند قریبی دوستوں سے۔ میاں محمد خالد حسین ان میں سے ایک تھے اور دوسرے محمد امین۔ حرم پاک کے سامنے کھڑے یا شاید سڑک پار کرتے ہوئے، ایک گاڑی ان سے ٹکرائی۔ محمد امین نے نیو یارک سے فون کیا۔ ارشاد کیا:اللہ کا شکر ہے۔ ہاتھ پائوں ہی ٹوٹے ہیں، سر سلامت ہے۔ عمر تب 65برس کے لگ بھگ رہی ہو گی۔ چند دن میں بھلے چنگے ہو گئے۔ بتایا گیا کہ چالیس ہزار ریال انہیں مل سکتے ہیں۔ فرمایا: میں نے اسے معاف کردیا تھا۔ ٹکر لگتے ہی۔
لاہور میں تھے کہ ملاقات ہوئی۔ فرمایا: اسلام آباد کا قصد ہے۔ عرض کیا: میری گاڑی میں تشریف لے جائیے۔ نیا مکان ابھی ابھی بنا تھا۔ اس گھر کے وہ پہلے مہمان تھے، سی ڈی اے کی عنایت سے اردگرد پھیلے وسیع میدان کو سبزہ زار میں ڈھال دیا تھا۔ حاشیے پر بوگن ویلیاکی باڑ لگا دی تھی۔ جو دیکھتا دنگ رہ جاتا۔ برادرم سجاد میر، میرے بڑے بھائی یاسین صاحب اور پروفیسر احمد رفیق اسی گھر میں تشریف لائے۔ یٰسین صاحب مرحوم نے کہا: یہ مکان کبھی نہ بیچنا۔ پروفیسر صاحب نے کہا Its a beauty۔ صوفی صاحب نے کہا:اس کا نام "دارالسلام" رکھ دو۔
وزیرستان کے بابا جی نے، جو خود ایک کتاب کا موضوع ہیں کہ ایک صبح اپنی 2500ایکڑ زمین مزارعین میں بانٹ دی تھی۔ حضرت گیسو دراز کے مزار سے لائی گئی ایک بہت خوبصورت چھڑی عنایت کی تھی۔ صوفی صاحب کا عصا بوسیدہ سا تھا۔ وہ چھڑی ان کی خدمت میں پیش کی تو مسکرائے، "کمال ہے بھائی جی، صبح سویرے ہی اللہ میاں سے التجا کی تھی کہ نئی چھڑی عطا کردے"۔
پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ نو بجے کی پرواز سے انہیں کراچی جانا تھا۔ غیر حاضر دماغ میزبان بھول گیا کہ یہ جہاز ہے ٹرین نہیں۔ کم از کم 35، 40منٹ پہلے ہوائی اڈے پر پہنچنا ہوتا ہے۔ ایک گھنٹہ پہلے یاد آیا۔ پانچ سات منٹ تیاری میں لگ گئے۔ پریشانی اور شرمندگی ایسی کہ خدا کی پناہ۔ صوفی صاحب یکسر شانت۔ کہا تو بس یہ کہا:پہنچ گئے تو الحمد للہ اور اگر نہ پہنچ سکے تو بھی الحمد للہ۔
ایک دوست کو فون کیا۔ ہوائی اڈے پر پہنچے تو بورڈنگ کارڈ لیے پی آئی اے کے دو افسر انتظار میں تھے۔ تین چار گھنٹے کے بعد فون کیا تو لہجے میں ایسی تسکین جو بارش میں نہائے کھلیان کے کاشتکار میں ہوتی ہے۔ "راستے بھر وہ میری خدمت کرتے رہے" انہوں نے کہا۔ خدمت کیا؟ چائے کا ایک سے زیادہ بار پوچھ لیا ہو گا، وہ مگر اللہ کے شکر گزار بندے تھے۔
دو طرح کے آدمی ہوتے ہیں ایک شاکی، دوسرے شکر گزار۔ ایک زمیندار خاندان سے تعلق تھا۔ آسودہ حال۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے طالب علم۔ خالد صاحب کو بتایا: آدھی رات کو چھت پر امتحان کی تیاری میں مصروف تھا کہ سینما کا آخری شو ختم ہوا۔ ایک خیال برق کی طرح چمکا۔ کیا میں اپنے رب کے لئے آدھی رات تک جاگ نہیں سکتا۔ خود سے انہوں نے کہا۔ صوفی عبداللہ، ماموں کانجن کے اساطیری درویش، سے مل چکے تھے۔ اب ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ ایسے مستجاب الدعوات تھے کہ نگر نگر ان کی کہانی کہی جاتی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہمہ وقت پروردگار سے دعا کیا کرتے۔ "یارب روس کو کٹے خربوزے کی طرح کر دے"۔ صوفی عائش محمد حیات تھے کہ حرم پاک میں اس کی بشارت ملی۔
ایک بار ان سے پوچھا "خود آپ کیا دعا مانگتے ہیں " فرمایا اللہ تعالیٰ سے دو نیاں چونیاں مت مانگا کرو۔ بادشاہت مانگو۔ ہر وقت میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دشمن امریکہ کو برباد کر دے۔
کیسی شاندار زندگی تھی جو گزشتہ ہفتے ماموں کانجن میں ڈوب گئی۔ ٹی وی پروگرام کا برا ہو، ان کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ اپنے مرشد کی طرح مستجاب الدعوات تھے۔ ہاتھ اٹھاتے تو نور برسنے لگتا۔
پروفیسرصاحب کم ہی کسی کی ستائش کرتے ہیں۔ "واقعی وہ فقیر ہیں "