کیا عمران خان خطرے میں ہے؟
یہ تو آشکار ہے کہ ڈاکٹر مصدق کی طرح عمران خان بھی واشنگٹن کی آنکھوں میں کانٹا بن کے کھٹک رہا ہے۔ اس لیے کہ آلہ کار بننے اور فوجی اڈے دینے سے اس نے انکار کر دیا تھا۔
کیا اسے منظر سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ماڈل ٹاؤن سانحے میں ملوث رانا ثناء اللہ کہہ سکتے ہیں کہ خان نے کہانی گھڑی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ پاکستانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا معاملہ الگ ہے۔ تاریخ کے سنجیدہ طلباء کو لیاقت علی خان کے بارے میں پورا یقین ہے کہ انہیں امریکیوں نے قتل کرایا۔ جرم واضح تھا کہ رضا شاہ کبیر کو دھکیل کر تیل کی صنعت کو قومیانے والے ایرانی وزیرِ اعظم مصدق کے خلاف سی آئی اے کے منصوبے میں شرکت سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ ایرانی عوام خم ٹھونک کر مصدق کے ساتھ کھڑے تھے۔ ایران کے طول و عرض میں خودداری کی ایسی ہی ایک تحریک برپا تھی، جیسی کہ ان دنوں پاکستان میں۔ سچ پوچھیے تو مصدق کی مقبولیت عمران خان سے بھی زیادہ تھی۔ رضا شاہ کبیر ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔ امریکہ نے تہیہ کر لیا کہ مصدق کو راستے سے ہٹایا جائے۔
غلطی لیاقت علی خاں سے یہ ہوئی کہ معاملے کو الم نشرح کرنے کی بجائے خاموش رہے۔ افغانستان سے لائے گئے کرائے کے قاتل سَید اکبر نے ان پر گولی چلائی۔ تعجب خیز یہ ہے کہ قاتل بھی فوراً ہی قتل کر دیا گیا۔ اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ ہے کہ لیاقت علی خاں کی شہادت کے ساٹھ پینسٹھ برس بعد تک قاتل سَید اکبر کی بیوہ ایبٹ آباد میں مقیم رہیں اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے انہیں پینشن دی جاتی رہی۔ کس لیے؟
لیاقت علی خاں کے قتل کی تفتیش کیوں نہ ہو سکی؟ سامنے کی بات یہ ہے کہ امریکی دباؤ پر۔ جیسا کہ جنرل محمد ضیاء الحق اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے باب میں۔ سترہ اگست 1988ء کا حادثہ رونما ہونے کے چند ماہ بعد یہ ناچیز ان کے وزیرِ داخلہ اسلم خٹک سے ملا۔ اسلم خٹک پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری رحمت علی کے ہم جماعت ہیں۔ اس خاندان میں عمریں بہت لمبی ہوتی ہیں۔
اسلم خٹک کی عمر لگ بھگ 90برس تھی۔ بھنویں آنکھوں پہ جھک آئی تھیں مگر ذہن بیدار۔ میں نے ان سے پوچھا: کیا قتل کا سراغ مل سکتاہے؟ جی ہاں، انہوں نے کہا: کوئی بھی اچھا تھانیدار دو ہفتوں میں قاتلوں تک پہنچ سکتا ہے۔ لہجے میں مایوسی تھی۔ زبانِ حال نے یہ کہا: سراغ لگانا جس قدر آسان ہے، عملاً اسی قدر ناممکن۔
اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے پاکستانی فضائیہ نے ایک تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی۔ نتیجہ یہ تھا کہ حادثہ نہیں، یہ منصوبہ تھا۔ اسی زمانے میں آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والے اساطیری کردار میجر عامر نے پاک فضائیہ کے ایک برطرف افسر کو گرفتار کیا۔ ٹھیک اس وقت، جب وہ بھارتی سفارت خانے میں پناہ لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اکرم اعوان نے انکشاف کیا کہ وہ ضیاء الحق کا قاتل ہے۔ اسرائیل سے زہریلی گیس کی ایک ڈبیہ لے کر آیا تھا، جو جنرل کے طیارے میں نصب کی گئی۔
اس سے پہلے یہی ڈبیہ جنرل کی کار میں لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس آدمی پر مقدمہ چلا اور برسوں وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پڑا رہا۔ پھر وہ رہا کر دیا گیااور معلوم نہیں کہ اب کہاں ہے۔ جب یہ کہانی میں نے اخبار کے لیے لکھی تو اڈیالہ جیل سے اس کا ایک خط موصول ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ میجر نے کہانی گھڑی اور فوجی عدالت نے مان لی۔ تفصیلات میجر صاحب خود بتا سکتے ہیں، جو ماشاء اللہ زندہ سلامت ہیں اور جن کی غیر معمولی یاداشت اسی شان و شوکت سے برقرار ہے۔
اقتدار سے دستبردار ہونے کے بعد غلام اسحٰق خاں پشاور چلے گئے۔ اپنے خالہ زاد بھائی سینیٹر طارق چوہدری کے ساتھ میں کئی بار ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب بھی اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی، وہ ٹال گئے۔ ایک بار، جب میں نے بہت اصرار کیا تو انہوں نے کہا: ایوانِ صدر کی نہیں، یہ آئی ایس آئی اور افواجِ پاکستا ن کی ذمہ داری تھی۔
آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل سے 1990ء سے ربع صدی تک ملاقات رہی۔ بن بتائے میں ان کے گھر چلا جاتا اور گھنٹوں ان سے گفتگو کیا کرتا لیکن وہ بھی کھل کر اس موضوع پر اظہارِ خیال کے لیے کبھی آمادہ نہ ہوئے۔ پاکستانی حکومت اور مقتول خاندانوں کو امریکہ نے بتا دیا تھا:You have too much on the ball۔ قیمت بہت زیادہ ہوگی۔
لگ بھگ بارہ برس کے بعد خوشاب کے ایک بورڈنگ سکول میں، جہاں میرے دو فرزند زیرِ تعلیم تھے، کالج کے پرنسپل سبکدوش کرنل ابراہیم سے ملاقات ہوئی۔ آئی ایس آئی سے جو وابستہ رہے تھے۔ ضیاء الحق کے قتل کا ذکر چھڑا تو انہوں نے بتایا کہ چار پاکستانی کارندوں کا انہوں نے سراغ لگایا تھا۔ ان میں سے دو بہاولپور اور دوراولپنڈی کے چکلالہ ائیر بیس پر تعینات تھے۔ یہ سب کے سب بہاری تھے۔ میرے لیے ہرگز یہ کوئی انکشاف نہ تھا۔ اس لیے کہ جنرل اختر عبد الرحمٰن کے ذہین و فطین فرزند ہارون اختر بہت پہلے مجھے اس بارے میں بتا چکے تھے۔
سترہ اگست کے حادثے میں ممتاز فوجی افسروں کے علاوہ امریکی سفیر رافیل بھی ہلاک ہوئے تھے۔ امریکی قوا نین کے مطابق تفتیش لازم تھی۔ ایک امریکی عدالت میں اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر رابرٹ بی اوکلے سے عدمِ تفتیش کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس قانون پر عمل درآمد کیوں نہ ہوا تو ان کا جواب یہ تھا:It didn't occured to meمجھے خیال ہی نہ آیا۔
جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبد الرحمٰن کے خاندانوں نے امریکہ پہنچ کر چیخ و پکار کی تو ایک خاتون افسر کی سربراہی میں ایف بی آئی کا ایک وفد پاکستان پہنچا۔ چند دن اسلام آباد میں گزارکر یہ خاتون واپس چلی گئیں۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے لکھا: دونوں فوجی افسروں کے خاندان بہت جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ وہ اس قدر آسودہ تھیں کہ ایک پوری شام ٹیکسلا میوزیم میں گھومتی پھرتی رہیں۔
27دسمبر2007ء کو ایسے ہی پراسرار حالات میں بے نظیر قتل کر دی گئیں۔ چند ماہ بعد ان کے میاں آصف علی زرداری اقتدار میں آئے۔ ڈاکٹر سڈل یاد دلاتے رہے مگر پاکستانی اداروں سے تفتیش کرانے کی بجائے انہوں نے یہ ذمہ داری اقوامِ متحدہ کو سونپی۔ دائرۂ کار (TORs)ایسا بنایا کہ تفتیش کی بجائے ایک داستان وجود میں آئی۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے اقوام متحدہ کے وفد کوڈاکٹر سڈل کے ساتھ ملاقات سے منع کردیا جو انہیں بہت کچھ بتا سکتے اور بنیادی سوالات پوچھ سکتے۔
رحمان ملک کو یہ ذمہ داری کس نے سونپی تھی۔ شہنشاہ نامی ملزم کو، جو قاتلوں کو اشارے کرتا رہا اور وڈیو پر جو نقش تھے، پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا۔ پھر آصف علی زرداری نے اعلان کیا: میں یہ جانتا ہوں کہ بے نظیر کے قاتل کون ہیں مگر مجھ سے نہ پوچھو۔ تاریک راز سے پردہ اٹھانے کے لیے وہ تیار کیوں نہ تھے۔ ظاہر ہے کہ امریکی دباؤ پر۔
اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے:اللہ جانتا ہے کہ ایک ذی روح کہاں کہاں سے گزرے گا اور کہاں سونپا جائے گا۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تو آشکار ہے کہ ڈاکٹر مصدق کی طرح عمران خان بھی واشنگٹن کی آنکھوں میں کانٹا بن کے کھٹک رہا ہے۔ اس لیے کہ آلہ کار بننے اور فوجی اڈے دینے سے اس نے انکار کر دیا تھا۔