کب تک؟ آخر کب تک؟ (5)
بائیس کروڑ کے اس مشکل ملک کو سرجری کی ضرورت ہے۔ حال ہمارا یہ ہے کہ سر درد کی گولیوں سے کینسر کا علاج فرمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کب تک؟ آخر کب تک؟
وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے پنجاب کی خواتین کے لئے مبلغ پندرہ ہزار "سکوٹیوں " کا اعلان کیا ہے۔ "سکوٹی" کیا بلا ہوتی ہے، سکوٹر کیوں نہیں کہتے۔ کیا اس لئے کہ یہ لفظ بھارت میں رائج ہے اور شریف خاندان بھارت سے متاثر ہے۔ شریف خاندان پر ہی کیا موقوف بھارتی فلموں کا اثر ہے کہ کتنے ہی لفظ پاکستان کی بولیوں کا حصّہ بنتے جا رہے ہیں۔ اپنے ماضی سے بے خبر، اپنے مستقبل سے بے نیاز قوم۔ جس قوم کی کوئی زبان نہ ہو، اس کی کوئی تہذیب بھی نہیں ہوتی۔ جس کی تہذیب نہ ہو وہ قوم ہی نہیں۔
کراہت ہوتی ہے مگر کیا کیجیے۔ جس قوم نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو، اپنی تقدیر وہ خود رقم نہیں کرتی۔ کیا پنجاب کی خواتین کا مسئلہ سکوٹی ہے؟ سب جانتے ہیں کہ کچل ڈالنے والی گرانی اور بے روزگاری۔ مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہو چکااور ایک برپا ہونے والا ہے۔ شاہسواروں کے گھوڑوں تلے افتاد گانِ خاک زخمی ہیں۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں جب 45روپے فی لٹر کا مزید اضافہ ہو گا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ حکمرانوں کو اس سے کیا، سنگدلوں کو اس سے کیا؟ ان کا ہر روز روزِ عید اور ہر شب، شبِ برات ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے سوئمنگ پول کی مرمت پہ سات کروڑ روپے اڑا دیے اور اعلان کیا کہ پختون خواہ میں آٹا سستا کرنے کے لئے وہ اپنے ملبوسات بیچ ڈالیں گے۔ بے ساختہ اس پر اسداللہ خاں غالبؔ یاد آئے۔ 1857ء کے زخم زخم دلی سے کسی کو انہوں نے لکھا، "تمہارے خط نے میرے ساتھ وہ کیا، جو پیرہن نے یعقوبؑ کے ساتھ کیا"۔
قوم بیمار ہے اور نہیں جانتی کہ اندمال کیا ہو گا۔ لیڈر ہیں اور جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ کھلونے سے انہیں قوم کو بہلانا ہے۔ 2013ء کے الیکشن سے قبل میاں محمد نواز شریف ایک ٹی وی پروگرام ملاحظہ فرما رہے تھے۔ نوجوانوں کی اکثریت نے عمران خان کے حق میں نعرے لگائے تواپنے ایک ہم نفس سے کہا:بتایا جاتا ہے کہ عمران خان کوئی خطرہ نہیں۔ اگر خطرہ یہ نہیں تو اور ہوتا کیا ہے؟ نوجوانوں میں خان کی مقبولیت کا حل انہوں نے یہ تلاش کیا کہ تعلیمی بجٹ کے ٹکڑے کاٹ کر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لیپ ٹاپ بانٹے جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پروفیسر احسن اقبال کا کرشمہ تھا۔ "کھاتا ہے تو کھلاتا بھی ہے، کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ "
باقی کام خان صاحب نے خود کر دکھایا۔ 30اکتوبر 2011ء کے تاریخی جلسے کے بعد تین سروے ہوئے۔ ایک آئی ایس آئی اور دوسرا ملٹری انٹیلی جنس نے کیا۔ نتیجہ یہ تھا کہ نوے سیٹیں وہ آسانی سے جیت جائیں گے۔ تیسرا سروے ہارون خواجہ نے موڈیز انٹرنیشنل کی پاکستانی شاخ اور دوسرے ماہرین کی مدد سے کیا۔ " اگر وہ کچھ بھی نہ کرے تو 91سیٹیں سہولت سے حاصل کر لے گا" خواجہ صاحب نے مجھے بتایا۔
خواجہ صاحب سرتا پاعمل ہیں۔ شب جلد سوتے اور صبح سویرے جاگ اٹھتے ہیں۔ ورزش کے عادی ہیں اور حیران کن حد تک واضح خیالات کے حامل ہیں۔ جدید و قدیم کا امتزاج ایک مذہبی آدمی۔ پنجاب اور پھر ملک بھر کے کاروباریوں کی ایک تنظیم انہوں نے بنا رکھی تھی۔ "پاکستان بزنس فورم"۔ 2010ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد انہوں نے دو عدد جدید دیہات آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک کوٹ ادو اور دوسرا سندھ میں۔ مکینوں کو صرف سات سو روپے ماہوار ادا کرنا تھے۔ کرایہ نہیں، مقررہ مدت کے بعد یہ ان کی ملکیت ہوتے۔ اپنے رفقا کی مدد سے لاہور کے دیہی علاقوں کے لئے متحرک ہسپتال انہوں نے پہلے سے قائم کر رکھے تھے۔ دور دراز دیہات میں پہنچ کر جو مریضوں کو تلاش کرتے اور بلامعاوضہ ان کا علاج کیا جاتا ہے۔
اسی زمانے میں خواجہ صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔ کیسے چکا چوند لوگ تھے، جن سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ان کی خدمت میں عرض کیا کہ فلاحی سرگرمیاں متبرک اور مقدس۔ لیکن یہ ایک فلاحی ریاست کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔ عمران خان کا انہیں ساتھ دینا چاہیے۔ دو تین گفتگوئوں کے بعد اکثر آمادہ ہو گئے۔ کاروبار حکومت کا خواجہ صاحب کو تجربہ تھا۔ 1996ء میں ابھی وہ جواں سال تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں وفاقی سول سروس کی نگرانی سونپی۔ کچھ عرصے بعد سرسری سماعت کی عدالتوں کی نگہبانی بھی۔ اس تندہی اور خلوص سے فرائض انجام دیے کہ چمک اٹھے۔
اختلاف تب ہوا شہباز شریف کے زرخیز دماغ نے جب آشیانہ ہائوسنگ کا خواب دیکھا۔ گیارہ لاکھ روپے ایک فلیٹ کی قیمت مقرر کی گئی۔ ایک دن خواجہ صاحب تعمیرات کا تجربہ رکھنے والے کچھ ماہرین کو ساتھ لے گئے۔ وزیر اعلیٰ کو انہوں نے بتایا کہ آٹھ لاکھ روپے میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ فقط جگہ اور سڑک مہیا کرنا ہو گی۔ حکومت کا کوئی واسطہ معاملے سے نہیں ہو گا۔ کمپنیاں مکان بنائیں گی اور مکین اقساط ادا کریں گے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ شہباز شریف کا جواب یہ تھا:"بالکل نہیں خواجہ صاحب!معاملہ اپنے ہاتھ میں رہنا چاہیے"۔
تنخواہ وہ لیتے نہیں تھے۔ سرکاری دفترکی چابیاں خواجہ صاحب نے میز پر رکھیں اور کبھی نہ واپس جانے کے لئے لوٹ آئے۔ عمران خان کا مسئلہ دوسرا تھا۔ وہی مردم ناشناسی، وہی معاملہ فہمی سے گریز۔ خواجہ صاحب کی تجویز یہ تھی کہ ملک بھر کے حلقہ ہائے انتخاب کا سائنسی جائزہ لیاجائے۔ اعداد و شمار جمع کئے جائیں۔ ایک ایک پہلو کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ ٹکٹیں جاری کرنے سے پہلے کہ یہی نازک مرحلہ ہوتا ہے۔
اجلاس میں ناچیز نے بھی شرکت کی۔ خواجہ صاحب کی بریفنگ میں موضوع کے سوا بھی بہت کچھ تھا۔ کاروبار حکومت کا پورا خاکہ۔ سامعین مگر متوجہ نہ تھے۔ خان صاحب کو تو تفصیلات سے دلچسپی کبھی ہوتی ہی نہیں۔ اسد عمر اپنے ٹیلی فون پر پیغام بھیجتے اور وصول کرتے رہے۔ خواجہ صاحب حیران! سیکرٹریٹ کے قیام کا فیصلہ ہو چکا تو ہارون خواجہ کو خان صاحب نے اطلاع دی کہ انچارج علیم خان ہوں گے۔ علیم خان؟ خواجہ صاحب ششدر رہ گئے۔
خاموشی کے سوا چارہ کیا تھا۔ ایک لہلہاتی فصل اجڑ رہی تھی۔ جنوبی پنجاب میں تو جہانگیر ترین اور ان سے زیادہ اسحق خاکوانی نے ریاضت کی۔ نتیجہ یہ کہ 42میں سے 33سیٹیں جیت لیں۔ علیم خان چونکہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے؛ چنانچہ اپنے حامیوں کو ترجیح دی۔ اسی فیصد سے زیادہ سیٹیں ہار دی گئیں۔ یا للعجب۔ تب عثمان بزدارافق پر طلوع ہوئے:
بادلوں کی اوٹ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب
جیسے ملا کا عمامہ جیسے بنیے کی کتاب
جس اجلاس میں یہ فیصلہ صادر ہوا اس کے شرکاء میں سے، ایک سے پوچھا: اس کا جوازکیا ہے؟ بتایا گیا کہ صوبے کو مرکز سے کنٹرول کیا جائے گا۔ مرکز سے؟ سبحان اللہ۔ ایک کلرک سے کم تر آدمی کے ذریعے مرکز سے؟
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
فروری 2013ء کے سروے میں تحریک انصاف کو 90سیٹیں جیتنا تھیں۔ چھ ماہ گزر چکے تو ایک انتہائی اہم شخصیت نے مجھے بتایا:زیادہ سے زیادہ تیس پینتیس۔ تفصیل انہوں نے بتائی اور نہ اس طالب علم نے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔ ٹکٹ ان لوگوں کو دیے گئے جن میں سے بعض کو کوئی ایک سو روپے ادھار بھی نہ دیتا۔ پورا سال، جی ہاں، تقریباً ایک پورا سال بے ڈھنگے پارٹی الیکشن کی نذر ہوا۔
تفصیلات کچھ اور بھی ہیں اور حیران کن۔ پوری کہانی پھر کبھی۔ مختصراً یہ کہ سیاسی پارٹیاں جب تک سیاسی پارٹیاں نہیں بنیں گی، فیصلے کا اختیار جب تک چند ہاتھوں، چند شعبدہ بازوں کے پاس رہے گا، یہی کچھ ہوتا رہے گا، یہی کچھ۔
بائیس کروڑ کے اس مشکل ملک کو سرجری کی ضرورت ہے۔ حال ہمارا یہ ہے کہ سر درد کی گولیوں سے کینسر کا علاج فرمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کب تک؟ آخر کب تک؟