جنگلوں کا راستہ کٹنے کے بعد
کیسے کیسے لوگ تھے، کب کب یاد آتے ہیں۔ خواجہ مہر علی شاہؒ کی عربی نعت کا ترجمہ کرنے کی سعادت ضمیر جعفری کو عطا ہوئی
جنگلوں کا راستہ کٹنے کے بعد
مہربانی ہم پہ فرمانا ذرا
طے کے ٹیلے جب نظر آئیں تمہیں
سارباں دم بھر ٹھہر جانا ذرا
کوئی پکارتا ہے
نصف شب کی خامشی میں کوئی آواز دیتا ہے
کیسی حسرت اور کتنی شدت سے لرزتی آواز، جیسے دور کا کوئی مسافر چلچلاتی دھوپ میں پانی کے لیے پکار رہا ہو۔ اس آواز میں کتنی مسرت اور کیا یقین ہے، جیسے پانی کا کٹورا پیاسے لبوں کے قریب آپہنچا ہو۔
کیا یہ آواز کہیں باہر سے ابھرتی ہے؟ چاندنی میں نہائے راستوں اور منڈیروں سے پرے، برساتی نالے کے پار جہاں سرسبز درختوں کی قطار دور تک چلی گئی ہے۔ کھیتوں سے جڑے گھاس کے میدان سے آگے، جہاں پیپل کا ایک بوڑھا درخت عشروں سے سرجھکائے کھڑا ہے۔
لیکن نہیں، یہ آواز جیسے اندر ہی سے اٹھ رہی ہے۔ دل کی دھڑکنوں سے، رگِ جاں سے، روم روم سے، ہر بن موسے۔۔۔ روح کی اتھاہ گہرائیوں سے اور پھر چاروں طرف پھیل جاتی ہے۔ چاندنی میں نہائے راستوں اور منڈیروں سے پرے، مٹی کی ان پہاڑیوں تک، جن کے دامن میں دریا خاموشی سے بہتا ہے اور پھلاہی کے جنگل میں ہوا سرگوشیاں کرتے گزرتی ہے۔
حسرت سے جلتی اور امید و امکان سے جگمگاتی، گاہے بڑی شناسا اور رفیق سی لگتی ہے۔۔۔ اور اتنی غالب کہ سارے منظر اور سب موجودات اس میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ مکان اور ان کے در و دیوار، راستے اور شجر، مسجدیں اور ان کے مینار، مقابر اور ان کی ہیبت، ستارے اور ان کی جگمگاہٹ، چاند اور اس کا نور، آسمان اور اس کی وسعت، جیسے ساون کی تیز بارش میں ہر منظر مدھم ہوتاہے اور صرف رم جھم رہ جاتی ہے۔ ہر چیز کا احاطہ کرنے والی برسات کی دھواں دار موسیقی جو ظاہر و باطن سے پھوٹتی اور طوفان اٹھاتی ہے۔
کیا یہ اس آدمی کی آواز ہے، جس نے شاید کوئی وعدہ کیا تھا اور فراموش کر دیا۔ کیا اب وہ کھوئے ہوئے بچے کی طرح پکارتا اور یاددہانی کراتا ہے۔
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھاکیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
ایسی شدت کی یاددہانی کہ ایک صدا حد ِ امکان تک پھیل جاتی ہے۔ ساری کائنات اور اس کا جاہ و جلال، زندگی کی ساری رونق اور تمام تنوع، سارے نشیب و فراز اور ہما ہمی اس آواز کے بھنور میں گم ہو کر آواز کا حصہ بن جاتی ہے۔۔۔ زندگی کے افق اور وقت کے مطلع پر اب محض یہ پکار جلوہ گر ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ لکھنے کی میز، پردے، کھڑکیاں، روشندان اور دیواریں، مولسری کے پودے، امرود کے درخت، گلاب کی جھاڑیاں اور پاپلر کی قطاریں، کچھ بھی نہیں۔
یا خدا! رگِ جاں سے ابلتی اور سارے منظروں سے پھوٹتی یہ آواز کس چیز کے لیے پکار رہی ہے؟
آواز کوئی جواب نہیں دیتی، جیسے ٹھٹھک کر سوال کرتی ہے اور ذرات میں بٹ کر دھند کی طرح پھیلنے لگتی ہے۔ یہ کیسا شعبدہ ہے۔۔۔ دل اور آنکھوں کو حیران کر دینے والا کیسا جادو۔۔۔ بہار کے آسمان پر یہ کہر کہاں سے نمودار ہوئی؟
کیا یہ روزِ ازل بہشت سے نکالے گئے آدمی کی آنکھوں میں نمودار ہونے والی نمی ہے؟ آرزو کا ایسا گداز تو انتظار کے مہ و سال سے گزرنے والی سعید روحوں اور نور سے بھری آبادیوں کو نصیب ہوتاہے۔ دریا کنارے کی گرد سے اٹی مفلس بستی پر یہ عنایت کیسی؟
کہر کی دبیز چادریں، جیسے بادلوں میں بجلی چمکتی اور اپنی ہیبت کی تحریر رقم کرتی ہے، یکایک ایک جانا پہچانا دلنواز منظر معلوم ہوتاہے۔ وہ منظر، جس سے بڑھ کر کوئی منظر اس زمین پر کبھی دیکھا نہیں گیا۔ وہ جو ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا، جو دلوں کی دیوار پر نقش ہے، جو تاریکیوں میں جگمگاتا اور روحوں میں اجالا کرتا ہے۔ اداس شامیں اور میلی صبحیں، جس کے نور سے دمک اٹھتی ہیں۔
شارع خالد بن ولید کے موڑ سے آگے حرم پاک کے اچانک دکھائی پڑنے والے مینار، جن پر آسمان سے برکت ٹوٹ ٹوٹ کے گرتی رہتی ہے۔۔۔ اور یثرب کا وہ سبز گنبد، جسے دیکھنے والی ہزاروں آنکھیں محبت اور امید سے تکتی ہیں۔ مدینہ کی گلیوں میں گھومتے دیس بدیس سے جمع ہونے والے آدم کے فرزند، جنہیں ایک سعید آواز نے راہ دکھائی اور زندگی ان کی پلکوں پر آسان کر دی۔ اس ویران منظر میں یہ آواز، یہ تصویر کہاں سے اتری؟
وہ دانائے سبلؐ، ختم الرسلؐ، مولائے کلؐ جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
اے یثرب اور مکہ کے خوش بخت رفیقو، کیا تم میں سے کسی نے اس بے نوا کو یاد کیا؟ کیا کسی شام حرم میں داخل ہونے والوں میں کسی کے دل میں ایک بھولی ہوئی یاد تازہ ہوئی۔ کیا کسی نے ملتزم کے قریب ایک بھٹکتی ہوئی کمزور دعا کی سرسراہٹ سنی۔ کیا آبِ زم زم کی سیرابی میں کسی کو ایک پیاسے کا خیال آیا؟
اے شہرِ ابو جندل کے مکینو!
اے مسجد قبا کے سامنے صدیوں سے ایستادہ کھجور کے جھنڈ کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے والو!
اے جنت البقیع میں گزرے زمانوں کے انوار دیکھنے والو!
اگر کوئی ہماری فریاد کو لفظوں میں بیان کرے، اگر کوئی اپنی التجا میں فاصلوں سے پکارنے والوں کی فریاد شامل کرے۔ تو کیا عجب ہے کہ مسافر پہ سفر آسان ہو جائے۔ کیا عجب ہے کہ ہر راستے اور راہ کی منزلیں اس پہ مہربان ہو جائیں۔
اے عجیب بستی والو، تمہاری بستی میں کیا عجب ہے؟ کیسے کیسے لوگ تھے، کب کب یاد آتے ہیں۔ خواجہ مہر علی شاہؒکی عربی نعت کا ترجمہ کرنے کی سعادت ضمیر جعفری کو عطا ہوئی
جنگلوں کا راستہ کٹنے کے بعد
مہربانی ہم پہ فرمانا ذرا
طے کے ٹیلے جب نظر آئیں تمہیں
سارباں دم بھر ٹہر جانا ذرا