جنابِ شفقت محمود، آپ کا کارنامہ کیا ہے؟
کوئی بھی پھل پھول سکتاہے مگر متکبر نہیں۔ بالاخر وہ گر پڑتا ہے۔ جنابِ شفقت محمود آ پ کا کارنامہ کیا ہے؟
وفاقی وزیرِ تعلیم نے ارشاد کیا کہ اپوزیشن سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ ٹھیک کہا، گری توخود ہی گرے گی اور منہ کے بل گرے گی۔ پی ٹی آئی کااعتماد آخری حدوں کو چھونے لگا۔ شریف اور زرداری خاندان تو گرفتارِ بلا تھے ہی، مولانا فضل الرحمن بھی شکنجے میں آگئے۔ بظاہر بچ نکلنے کا اب کوئی امکان نہیں۔ عمران خان مولانا فضل الرحمن کا مذاق تو ہمیشہ اڑاتے رہے کہ مولانا بھی انہیں یہود کا ایجنٹ کہا کرتے۔ انتقام کی آگ دونوں طرف متواتر بھڑک رہی تھی۔ حیرت اس پر تھی کہ پاک فوج کے شہیدوں کی زمین الاٹ کرانے کے باوجود، ان گنت مالی بے قاعدگیوں کے باوجود، حضرت مولانا کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہوئی۔ ایسے کشادہ مزاج تو خان صاحب کبھی نہ تھے۔ اب یکایک یہ بھید کھلا کہ ایک عرصے سے نیب اور تحقیقات کرنے والے دوسرے ادارے بھی کھدائی میں لگے تھے۔ نیب کا فراہم کر دہ الزامات کا جو پلندہ ہفتے کے روز اخبار نویسوں نے جاری کیا، وہ تنہا نیب کے بس کی بات نہیں۔
کہنے کو مولانا کچھ ہی کہیں مگر اپنے اربوں، شاید کھربوں کا کوئی جواز وہ پیش نہیں کر سکتے۔ جہاں تک شہیدوں کے لیے مختص زمینوں کا تعلق ہے، ایک عشرہ ہونے کو آیا، کہیں سے اس ناچیز کو سن گن ملی تھی۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان سے تعلق رکھنے والا یہ شخص سچا لگا۔ برادرم انصار عباسی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ باقی تاریخ ہے۔ جانفشانی اور شب و روز کی مشقت سے معمے کے تارپود انہوں نے جوڑے کہ مکمل کہانی لکھ ڈالی۔ ایسی کہ مولانا کبھی کوئی دلیل پیش کر سکیں گے، نہ دامن چھڑا سکیں گے۔
ناجائز ہتھکنڈوں سے اقتدار اور دولت ہتھیانے والا شخص آخر کو ہوشمندی سے محروم ہوجاتا ہے۔ مہلت کو وہ نعمت سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی رسّی دراز کر دی جاتی ہے۔ مولانا کی رسّی تو بہت دراز ہے۔ ایک قبیلہ ان کی پشت پر کھڑا ہے، ایک پورا مکتبِ فکر۔
پچھلے برس، اسلام آباد پہ وہ ایک لشکر چڑھا کر لائے تو انہوں نے کہا تھا: ایک آدھ دن نہیں، یہ دو اڑھائی صدیوں کی بات ہے۔ یہ اسی مکتبِ فکر کا ذکر تھا، جس میں پارسا بھی بہت ہوئے اور سیاسی ہنر مند بھی بے شمار۔ جس کے بعض اکابر نے تحریکِ پاکستان کی ڈٹ کر حمایت کی؛چنانچہ ڈھاکہ اور کراچی میں پہلی بار پاکستانی پرچم انہی کے ہاتھوں کھلا۔ اس مکتبِ فکر کے رہنماؤں کی اکثریت مگر مخالف تھی۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی، ان کے سرخیل تھے۔ اقبالؔ نے جن کے بارے میں کہا تھا:
زدیوبندِ حسین احمد ایں چہ بولعجبی است
سرود برسرِ منبرکہ ملت از وطن است
چہ بے خبر زمقامِ محمدؐ عربی است
مصطفی بر ساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بااو نہ رسیدی، تمام بو لہبی است
حضرت مولانا فضل الرحمن کے مرحوم والدِ گرامی مفتی محمود، حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے پیروکار تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد، زندگی ہی میں یہ جملہ ان سے منسوب کیا گیا "پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شامل نہیں "۔۔۔ اور انہوں نے کبھی اس کی تردید نہ کی۔
نیب کا دعویٰ یہ ہے کہ حال ہی میں اپنے یا کسی اور نام سے تین ارب روپے کی اراضی آنجناب نے بیچی ہے۔ یہ الزام بھی ہے کہ اپنے گاؤں ہی نہیں، ڈیرہ اسمٰعیل خاں، ملتان اور کراچی کے علاوہ کئی شہروں میں ان کے مکانات، زرعی زمینیں اور چمکتی دمکتی مارکیٹیں ہیں۔ ان الزامات میں اگر دس فیصد بھی صداقت ہے تو قانون کی زنجیر سے بچیں گے کیسے۔
مداحوں کی طرف سے دیا گیا جواب یہ ہے: حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ العالی کو طلب کرنے کی جسارت کی گئی تو اسّی لاکھ مظاہرین ان کے ہمراہ ہو ں گے۔ یعنی سرکاری دفتر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گے، جس طرح تیمور نے دمشق، ہن سرداروں نے ٹیکسلا، چنگیز نے ایران اور تین ہزار سال پہلے بل طشتنر نے یروشلم کو بناڈالا تھا۔ شریف خاندان بھی یہی چاہتا ہے۔ اقتدار ان کے ہاتھ میں ہو یا ملک برباد کر کے رکھ دیا جائے، جیسے پیپلزپارٹی نے کراچی کو۔ نواز شریف مقبول ہیں، پنجاب میں الیکشن ہو تو باتیں بنانے والی پی ٹی آئی کوبہت سی سیٹوں پر آج بھی ہرا دیں۔ ان کی گردن میں مگر اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا پھندہ ہے۔ ایک نہیں، کئی پھندے۔ ان سے اب نجات نہیں۔ ن لیگ میں بد دلی ہے۔ شیخوپورہ سے رکنِ اسمبلی، ایک قدیم روحانی خاندان کے چشم و چراغ جلیل شرقپوری نے فوج مخالف تقر یر پر میاں صاحب کو مودی کا ہم نفس کہا۔ اعلان کیا کہ ایسے ملک دشمن بیان سے میرا اور کئی دوسرے لیگی لیڈروں کا کوئی تعلق نہیں۔
جلیل شرقپوری نے بڑنہیں ہانکی۔ شریف خاندان کا مستقبل تاریک نظر آیا تو 2002ء کی طرح بہت سے انہیں چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے سیاست میں مسلم لیگ باقی رہے اور شریف خاندان تحلیل ہو جائے۔ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے:
حرم سرا میں نہ ہوں گے حرم سرا والے
مگر غریب رہیں گے غریب خانے میں
نواز شریف تو اس خواب میں تھے کہ اسٹیبلشمنٹ پوری طرح متنازع ہو چکے تو امام خمینی کی طرح اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اتریں۔ لشکر لے کر راولپنڈی کا رخ کریں اور جنرل حضرات خود ان کے سرپہ تاج سجا دیں۔ پچھلے دنوں یہ بات ان کے ایک حامی نے کہی تھی۔ سات سال سے ایک کروڑ پچیس لاکھ روپے کا ٹیکس جس کے ذمے ہے۔ جسے اوّل انہوں نے پنجاب کا نگران وزیرِ اعلیٰ اور پھر کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنایا تھا مگر یہ وہ خواب ہیں، جو دن کی روشنی میں دیکھے جاتے ہیں۔
حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے
خواب اگر گھوڑے ہوتے تو بھکاری شہسوار ہوا کرتے۔ زرداری صاحب دانا ہیں۔ قصوروار ہیں تو خود کو قصوروار ہی سمجھتے ہیں۔ ٹی وی کی سکرین اور جلسہ ٔ عام میں نہ سہی مگر اپنے دل میں او راپنے لوگوں میں۔ بچ نکلنے کے لیے ہمیشہ وہ اور طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ بیک وقت اہلکاروں اور طاقتوروں سے سازباز۔ قانون، عدالت اور انتظامیہ کے قلعوں میں درہم و دینار کے بندوں کی تلاش کہ ثبوت غائب کر دیے جائیں۔ طاقتوروں سے سازباز کہ کبھی ان کی خاطر بلوچستان میں خدمت گزاری اور کبھی سینیٹ میں۔ اس کے بدلے میں کبھی عارضی اور کبھی مستقل رعایت۔ انجامِ کار وہ بھی ڈھے پڑے ہیں۔ بند گلی میں کھڑے ہیں اور اس گلی میں دوسری جانب کوئی رستہ نہیں۔ جسم جواب دے چکا، دونوں ہاتھوں سے چائے کی ایک پیالی اٹھا نہیں سکتے۔ دھن دولت سے جائیں گے یا باقی ماندہ اقتدار سے۔
میاں صاحبان اور مولوی صاحب زعم کا شکار ہیں۔ یہی حال پی ٹی آئی کا ہے۔ آئے روز غلطیاں، دن رات عظمت کے دعوے۔ زعم ایسی چیز ہے کہ تکبر تک لے جاتا ہے اور کبریائی خدا کی چادرہے۔ کوئی بھی پھل پھول سکتاہے مگر متکبر نہیں۔ بالاخر وہ گر پڑتا ہے۔ جنابِ شفقت محمود آ پ کا کارنامہ کیا ہے؟