حیرتِ گل سے آبِ جو ٹھٹکا
امام غزالیؒ نے کہا تھا: لوگ سوئے پڑے ہیں۔ صرف اہلِ علم بیدار ہیں۔ اہلِ علم خسارے میں رہیں گے اگر صاحبِ اخلا ص نہ ہوں۔ صاحبِ اخلاص خطرے میں ہوں گے اگر انکسار سے محروم ہوں۔
نکاسیء آب کے ایک بڑے ماہر ڈاکٹر بشیر لاکھانی نے لکھا ہے:کراچی کی بارشوں سے پھیلنے والی تباہی نے ایک بار پھر ذمہ داروں کی نا اہلی، بددیانتی اور بدنیتی کو آشکار کر دیا۔ افسوسناک یہ کہ اصلاح کی بجائے نالوں کی صفائی کے نام پر کروڑوں روپے ہضم کرلیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہر سال صفائی کی ضرورت پیش کیوں آتی ہے۔ 70سے 80کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود صرف تین سے چار انچ کی بارش سیلابی صورتِ حال کیوں پیدا کر دیتی ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شہر میں پھیلا ندّی اور نالوں کا جال گندے پانی کی نکاسی کے لیے نہیں بنا تھا۔ نہ ہی کچرا اور ٹھوس فضلہ پھینکنے کے لیے بلکہ صرف بارشوں کی نکاسی کے لیے گندے پانی کے لیے سیوریج کا الگ سسٹم موجود ہے۔ زیرِ زمین پائپوں، مین ہولز اور حسبِ ضرورت پمپنگ سٹیشنز پر مشتمل۔ اگر یہ نظام صحیح طور پر کام کر رہا ہو تو برساتی نالوں میں گندا پانی داخل ہی نہ ہو سکے۔ گندے پانی کی نکاسی کا نظام مگر فرسودہ ہو چکا، بعض جگہوں پر بالکل بند؛لہٰذا ہر جگہ گندے پانی کا رخ سیوریج کے نظام سے موڑ کر برساتی نالوں کی طرف پھیر ا جا چکا۔ اسی لیے برساتی نالے تباہ ہوئے۔ اس پر مزید مہربانی یہ کہ ٹھوس کچرا بھی انہی نالوں میں پھینکا جاتاہے۔ برساتی پانی کی نکاسی کا دیر پا حل سیوریج سسٹم اور نالوں کی مکمل علیحدگی میں ہے۔ ٹھوس کچرے کو ندی نالے میں پھینکنے کی بجائے مقررہ جگہ پر بھیجنا ہوتاہے۔ یہ دونوں کام کر لیے جائیں تو ہر سال صفائی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑیں گے اور نہ ہی ابرِ رحمت تباہی کا باعث بنے گا۔
یہ کام کون کرے گا؟ نا اہل، رشوت خور اور بے حس انتظامیہ؟ آدمی کی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ترجیح اگر طاقت کا نشہ او رزر و جواہر کے انبار جمع کرنے کے سوا کچھ نہ ہو تو نتیجہ اس کے سوا کیا۔
ایک واقعہ کسی صاحب نے لکھ بھیجا ہے، جنیدِ بغدادؒ کے بارے میں، جنہیں سید الطائفہ کہا جاتا ہے، یعنی عہدِ تابعین کے بعد اولیا کا سردار۔ جنیدؒ وہ ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے بیعت لی۔ حکمرانی کی نہیں، اخلاقی اور علمی تربیت کی بیعت۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا: اخلاص کی اہمیت میں نے ایک حجام سے سیکھی۔ میرے استاد نے کہا: تمہارے بال بڑھ گئے ہیں۔ اگلی بار کٹوا کر آنا۔ روپیہ میرے پاس نہیں تھا۔ اتنا بھی نہیں کہ حجام کو ادائیگی کر سکوں۔ ایک حجام کی دکان پہ پہنچا جو گاہک کے بال کاٹ رہا تھا۔ معلوم نہیں، میرے جی میں کیا آئی کہ میں نے کہا: چچا کیا اللہ کے نام پر بال کاٹ دو گے؟ یہ سنتے ہی حجام نے گاہک سے معذرت کی اور کہا: پیسوں کے لیے ہر روز کاٹتا ہوں۔ آج پہلی بار کوئی اللہ کے لیے آیا ہے۔ اب ان کا سر چوم کر کرسی پر بٹھایا۔ روئے جاتا او ربال کاٹتا جاتا۔
جنیدؒ کہتے ہیں : میں نے سوچا، زندگی میں جب کبھی پیسے ہوئے تو ضرور اسے کچھ دوں گا۔ ایک زمانہ گزر گیا؛حتیٰ کہ عظمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسنے لگی۔ یہی وہ زمانہ ہے، جب انہوں نے کہا تھا: دنیا کو دل کے دروازے پر بٹھا رکھا ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہو، ہاتھ بڑھا کے لے لیتے ہیں۔ دل میں داخل ہونے کی اسے اجازت نہیں۔
بھولا ہوا واقعہ یاد آیا۔ حجام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ واقعہ یاد دلایا اور کچھ رقم پیش کی۔ حجام نے کہا: جنیدؒ تو اتنا بڑا عارف ہو گیا مگر تجھے پتہ نہ چلا کہ جو کام صرف اللہ کے لیے کیا جائے، مخلوق سے اس کا بدلہ نہیں لیا جاتا۔
ایسے ہی ایک حجام سے جواں سال ابو حنیفہؒ کو واسطہ پڑا تھا، جو بعد میں امامِ اعظم کہلائے۔ جن کے باب میں شیخِ ہجویرؒ نے لکھا ہے: اہلِ علم ہی کے نہیں، وہ ہم اہلِ ذکر کے بھی امام ہیں۔ انکسار دیکھیے کہ شیخ خود کو اہلِ علم میں شمار نہیں کرتے۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے جن کے بارے میں کہا تھا: جس کا کوئی شیخ نہ ہو، علی بن عثمان ہجویریؒ کی کتاب اس کی امام ہو گی۔
ابو حنیفہؒ پہلی بار عمرہ کرنے گئے۔ طواف اور سعی سے فارغ ہو چکے تو حجام سے بال کاٹنے کو کہا۔ پوچھا:کتنی اجرت لو گے؟ اس نے جواب دیا: عبادت کی قیمت نہیں لگائی جاتی۔ اس کے سامنے بیٹھ گئے۔ وہ بولا: بایاں نہیں، دایاں حصہ آگے کیجیے۔ بال کاٹنا شروع کیے تو یکایک بولا: ابھی ابھی آپ نے عمرہ کیا ہے۔ کچھ پڑھتے رہیے۔ فارغ ہو چکا اور امامؒ روانہ ہو نے لگے تو اس نے پوچھا: کہاں جاتے ہیں؟ جواب دیا: اپنی رہائش گاہ کی طرف۔ حجام نے کہا: شکرانے کے دو نفل تو پڑھ لیجیے۔ اب وہ ٹھٹکے اور رکے
حیرتِ گل سے آبِ جو ٹھٹکا
بہے بہتیرا پر بہا بھی جائے
استفسار کیا: تم نے یہ سب کہاں سے سیکھا؟ اس نے کہا: میں عطا بن ابی رباح کی مجلس میں بیٹھتا رہا ہوں۔ عطا بن ابی رباح ایک حبشی غلام تھے۔ تابعین میں سے ایک۔ اہلِ علم کے پیشوا، صحابیء رسول جناب عبد اللہ بن مسعودؓ نے ان کے بارے میں کہا تھا: جس شہر میں عطا موجود ہوں، وہاں کسی اور سے فتویٰ لینے کی ضرورت نہیں۔ خانہ کعبہ کے رکنِ یمانی پر بیٹھے، نوافل ادا کیا کرتے۔ سلام پھیرتے تو اکثر کوئی سوال کرنے والا موجود ہوتا۔ غریب ہو یا امیر، عامی یا بادشاہ۔ سبھی سے یکساں سلوک کرتے۔ کبھی کسی بادشاہ کی تکریم کو اٹھے، نہ کسی عامی سے عدمِ التفات۔
ایک خاتون کے غلام تھے۔ دن بھر خاندان کی خدمت کرتے۔ شب کو محوِ عبادت۔ اجازت لے کر حرم میں آبیٹھتے۔ اصحابِ رسول میں سے کسی کو پاتے تو سوال کرتے۔ حافظہ بلا کا پایا تھا اور زہد ان کی رگ رگ میں تھا۔ زندگی اسی ڈھب پر بیت رہی تھی کہ شہرِ امن میں ان کی علمی فضیلت کا چرچا ہونے لگا۔ ہزاروں برس پہلے، جہاں سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا اسمٰعیل ؑنے بیت اللہ کی بنیاد رکھی تھی۔ آپ کی علمی اور اخلاقی عظمت کا چرچا سنا تو مالکن نے آزاد کر دیا۔ کہا جاتاہے کہ بہت شدید ضرورت کے سوا، سترہ برس کبھی مسجد الحرام سے باہر نہ نکلے۔ ساری بات ترجیحات کی ہوتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: میرے مخلص بندے کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔
امام غزالیؒ نے کہا تھا: لوگ سوئے پڑے ہیں۔ صرف اہلِ علم بیدار ہیں۔ اہلِ علم خسارے میں رہیں گے اگر صاحبِ اخلا ص نہ ہوں۔ صاحبِ اخلاص خطرے میں ہوں گے اگر انکسار سے محروم ہوں۔