گونگے، بہرے اور اندھے
چیخنے چلانے، الزامات اور جوابی الزامات عائد کرنے والے لیڈر۔ غور و فکر کرنے والا کوئی ایک بھی نہیں، کوئی بھی نہیں۔ سب گونگے، بہرے، اندھے اور پتھر دل۔ وحشی اور اقتدار کے پجاری۔
ہیجان اور غنڈہ گردی ہے، کراچی میں پرسوں تین پارٹیوں کے کارکن ایک دوسرے پہ آگ برساتے رہے۔ کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ گرانی کے ہاتھوں سسکتے افتادگانِ خاک۔ حکومت کا گویا وجود ہی نہیں۔ وہ تلقین اور وعظ فرماتی ہے۔ فیصلے صادر نہیں کرتی۔
گرانی تو خیر، دو اڑھائی ماہ میں تیل کی قیمت 89ڈالر سے بڑھ کر 120ڈالرہو گئی، کرونا کے اثرات۔ بحری جہازوں کے کرایے بڑھ گئے، کوئلہ مہنگا ہے، کھانے کا تیل اور گھی بھی۔ حاتم طائی کی قبر پہ لات ماری اور بے کسوں کے لیے دو ہزار روپے فی کس کا اعلان کیا۔ عمل درآمد کیسے ہوگا؟ کیا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح، جس میں نو لاکھ غیر مستحق شامل تھے۔ سرکاری افسر، ان کی بیگمات، ان کے ملازم اور وڈیروں کے نوکر چاکر۔ ثانیہ نشتر نے باہر نکال پھینکے۔ بلاول بھٹو نے احتجاج کیا۔ ظاہر ہے کہ اکثریت کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا۔
اب اس پروگرام کے فیض یافتگان کی تعداد بڑھادی ہے۔ ارکانِ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سفارش سے 250سٹیڈیم ملک بھر میں بنیں گے۔ اندازہ ہے کہ ٹھیکیداروں کا انتخاب انہی کی مرضی سے ہوگا۔ حسبِ توفیق وہ حصہ پائیں گے۔ پرا نے ترقیاتی منصوبوں کو ادھورا چھوڑ کر 243نئی سکیمیں شروع کی جائیں گی۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ارکانِ اسمبلی کی خوشنودی سے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے مطابق ہر سال 2660ارب روپے اشرافیہ کی نذر ہوتے ہیں۔ بڑی صنعتوں اور جاگیرداروں کو زرِ اعانت۔ سول سروس کا سائز ضرورت سے دو گنا ہے۔ اکثر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔
ملک کو نئی سول سروس کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر نئی ایف بی آر کی۔ پٹوار، ٹھیکیداری اور محکمہ صحت کا فرسودہ نظام بدلنے کی ضرورت برسوں سے ہے۔ سب سے بڑھ کر حکومتی کاروباری اداروں سے نجات پانے کی۔ 1977ء سے اب تک اعلانات ہم سنتے آئے ہیں۔ کچھ کارخانوں کی نجکاری ہوئی لیکن سٹیل مل اور پی آئی اے سمیت بہت سے ادارے ابھی سرکاری افسروں کی متاع ہیں۔ 2007ء میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے یہ کہہ کر سٹیل مل کی نجکاری روک دی تھی کہ بھدے طریقے سے فیصلہ جلد بازی میں ہوا۔ پندرہ برس میں کتنے سو ارب روپے لٹ چکے۔ ظفر ہلالی کے بقول جو ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی رہائشی کالونی ہے۔
لگ بھگ ایک برس تک یہ ناچیزریل گاڑی پہ راولپنڈی سے لاہور جاتا رہا۔ ایک افسر نے کہا: ٹکٹ خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ ناشتہ اور پانی منگوایا توویٹر نے بل وصول کرنے سے انکار کر دیا "افسروں کا حکم ہے۔ " کچھ مہینے گزرے، ملازمین قدرے بے تکلف ہوئے۔ ایک نے بتایا کہ ریل کے افسر، مفت کھاتے پیتے ہیں۔ کس طرح خسارہ پورا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ مسافروں کی جیبیں کاٹ کر۔
ڈاکٹر سڈل نے ایک واقعہ سنایا۔ کسی دوردراز مقام سے وہ ٹوکیو پہنچے۔ دھند کی وجہ سے گاڑی چند منٹ لیٹ ہو گئی۔ پلیٹ فارم پہ عملہ استقبال کو کھڑا تھا۔ ہر مسافرکو زرِ تلافی اداکیا گیا۔ ابھی حال ہی میں پڑھا کہ ابھرتے سورج کے اس دیس میں ریل گاڑی کے اوقات منٹوں نہیں، سیکنڈوں میں شمار ہوتے ہیں۔ نیو یارک کا تجربہ بھی یہی ہے۔ لگ بھگ ہر دس منٹ کے بعد زیرِ زمین ریلوے پہ مقامی گاڑی آکر رکتی۔ شاید ہی کبھی چند سیکنڈز سے زیادہ کی تاخیر ہوئی ہو۔ سفر کا یہ سب سے سستا اور آسان ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ کار اور بس کو رکنا پڑتا ہے۔ ٹرین کی راہ میں ظاہر ہے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
کوئی عجوبہ نہیں، بھارتی شہر کلکتہ میں ایسی ہی ایک مقامی ٹرین ایک صدی سے کارفرما ہے۔ چار پانچ عشرے پہلے تک کراچی میں لوکل ٹرین چلا کرتی اور ٹرام بھی۔ آبادی بڑھ گئی، بہت بڑھ گئی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان الگ ہوا۔ اس کی آبادی مغربی پاکستان سے چھ فیصد زیادہ تھی۔ آخری مردم شماری کے مطابق بنگلہ دیش کے شہریوں کی تعداداب پندرہ کروڑ اور پاکستان کی بائیس کروڑ ہے۔ کراچی والوں کی مان لی جائے تو ساڑھے بائیس کروڑ۔ یہ دو برس پہلے کے اعداد و شمار ہیں۔ اب شاید چوبیس کروڑ ہو۔
بے ہنگم انداز میں شہر پھیلتے جا رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا نظام ضرورتوں سے ہم آہنگ نہیں۔ موٹر سائیکل والوں کی تعداد بڑھ گئی اور ٹریفک کا پہلے سے برباد شدہ نظام اور بھی برباد۔ ایک زمانے میں اسلام آباد میلوڈی مارکیٹ سے ہمک ماڈل ٹاؤن تک ایک گھنٹے میں مسافر پہنچ جایا کرتا۔ ذاتی کار اور سڑک دو طرفہ ہونے کے باوجود اب بھی اتنا ہی وقت لگتا ہے۔ کرال چوک کے بعد سڑک ٹوٹ پھوٹ رہی ہے۔ چیونٹی کی رفتار سے توسیع جاری ہے لیکن موجود شاہراہ کی مرمت کا سوال ہی نہیں۔
کراچی کے ایک اخبار نے، گِزری میں ایک یوٹیلیٹی سٹور کی تصویر کھینچی ہے، گھی جہاں رعایتی نرخ پہ ملتا ہے۔ ایک وقت میں پچاس آدمی، باقی دھوپ میں کھڑے رہتے ہیں۔ اندر پسینے میں نہائے ہوئے۔ باہر تمازت میں جھلستے ہوئے۔ شہریوں سے شناختی کارڈ اور ٹیلی فون نمبر مانگا جاتا ہے۔ جو نہیں رکھتے، لوٹا دیے جاتے ہیں۔ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ کینسر کی ماری شہنازالتجا کرتی ہے کہ دروازے کھول دیے جائیں۔ حبس بہت ہے، کوئی جواب نہیں دیتا۔ سب بہرے ہو گئے، بے حس اندھے، بہرے اور گونگے۔ اس کے میاں کی آمدن اٹھارہ ہزار ماہانہ ہے۔ بیٹی کو سکول سے اٹھا لیا ہے۔ وہ پوچھتی ہے: پیٹرول کی قیمت بڑھنے کے بعد ہمارا کیا ہوگا۔ زمین پر اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ شائد ایک دن آسمان سے آئے، کڑکتی برق کے ساتھ۔
اتنے میں درمیانی عمر کا ایک آدمی بے ہوش ہو گیا، جو اپنی ننھی بیٹی کے ساتھ آیا ہے۔ ہوش میں آیا تو اس نے پوچھا"کیا ہماری باری آگئی؟" گھنٹوں وہ کھڑے رہتے ہیں۔ کسی کو سودا سلف ملتاہے، کسی کو نہیں۔ روتے ہوئے کسی نے کہا: میں اپنی ان پڑھ بہنوں کے ساتھ آیا تھا۔ ان کے پاس فون نہیں۔ گھی، چینی اورصابن نہیں ملا۔ تین سٹور وں پہ جا چکا، ہر کہیں انکار۔ گھروں میں کام کرنے والی سمیّہ کہتی ہے "دو گھنٹے سے کھڑی ہوں۔ انتظار الگ، توہین الگ" "میرے مکان کا کرایہ بڑھ گیا ہے اور بجلی کا بل بھی" ایک دوسری خاتون شاہدہ کہتی ہے۔ فضا میں خاموش سسکیاں ہیں۔
تیرہ برس ہوتے ہیں، کاکول اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں پہنچنا تھا۔ ہم دو اخبار نویسوں کو فوجی میسمیں بلایا گیا۔ کھانے کے وسیع و عریض ہال میں آٹھ اے سی اور انتظار گاہ میں سات۔
ایف بی آر کی تشکیلِ نو کیوں نہیں ہوتی کہ چار کروڑ تیس لاکھ نادہندگان سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ نجکاری سے چار سو ارب روپے کیوں نہیں بچائے جاتے۔ جدید کاشت کاری اور جدید سول سروس کیا ہمیشہ ایک خواب رہے گا؟ چیخنے چلانے، الزامات اور جوابی الزامات عائد کرنے والے لیڈر۔ غور و فکر کرنے والا کوئی ایک بھی نہیں۔ کوئی بھی نہیں، سب گونگے، بہرے، اندھے اور پتھر دل۔ وحشی اور اقتدار کے پجاری۔