چاہ کن را چاہ درپیش
یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والا خود بھی اسی میں گرتاہے۔ یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے، یہی تاریخ کا سبق ہے۔ مگر جبلتوں کا ماراآدمی بھی عجیب ہے۔ ہر روز ٹھوکر کھاتا، کھا کر اٹھتا اور پھر سے جھک مارنے پہ تل جاتاہے۔
مراد سعید کی تقریر پہ اوّل حیرت ہوئی، جس میں بلاول کو انہوں نے بے نقط سنائیں۔ پھر خیال آیا کہ سب ایک جیسے ہیں۔ کوئی کسر بلاول بھٹو نے بھی چھوڑی نہیں تھی۔ جس معاشرے نے اپنے مخالفین کو گالیاں بکنے کے لیے بنائے گئے میڈیا سیل قبول کر لیے ہوں، وہاں ان تماشوں کی کیا اہمیت۔
مراد سعید کی کارکردگی باقی وزرا سے بہتر ہے۔ اس قدر لیکن وہ برہم کیوں رہتے ہیں۔ اس سے انہیں کیا ملے گا؟ پرویز رشید، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو کیا حاصل ہوا؟ خود اپنی دو سو ارب ڈالر والی تقریر سے آنجناب کی عزت افزائی کیا کم ہوئی؟ دوعشرے تک کراچی میں کوس لمن الملک بجانے، بھارتی "را " کی مدد سے معصوم شہریوں کا قتلِ عام کرنے والے الطاف حسین اب کس حال میں ہیں؟
تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت آخر کار گر پڑتی ہے اور صداقت ظفر مندی کا عَلم لہراتی ہے۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے : جھوٹ ہلا ک کرتا اور سچ نجات دیتاہے۔ ملّا اور نام نہاد انقلابی، قائدِ اعظمؒ کے مخالفین کبھی ان سے زیادہ طاقتور تھے۔ قال اللہ اور قال الرسولؐ کا جھنڈا اٹھائے، منظم اور معتبر۔ مسلم لیگ سے سو گنا بڑی کانگریس ان کی پشت پہ کھڑی رہتی۔ کرم چندموہن داس گاندھی نے کھدّر پہننے کی اپیل کی تو ان میں سے ایک نے کہا کہ جو مسلمان ان کے فرمان پہ عمل نہ کرے گا، وہ اس کا نکاح پڑھانے سے انکار کر دیں گے۔"باپو" کی مقدس زندگی جلد ہی طشت از بام ہو نے لگی۔
معلوم ہوا کہ گوریل کے تیسرے درجے میں براجتے لیکن ایک پورا ڈبّہ مخصوص کیا جاتا۔ جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتیں۔ اچھوتوں کا سالباس پہنا کر کانگرسی کارکن ڈبّے میں بھر دیے جاتے۔ جنوبی افریقہ سے پے درپے اب گواہیاں ملی ہیں کہ وہاں تھے تو، پرلے درجے کے نسل پرست۔
قائدِ اعظمؒ سیدھے، صاف، امین او رکھرے تھے۔ سچ کی طرح سادہ۔ پوری طرح قابلِ فہم اور آشکار۔ کردار کشی کرنے اور گالی بکنے والے مخالفین سے نرمی تو کبھی نہ برتی لیکن جواب میں کبھی الزام نہ تراشا۔ عمر بھر نگاہ اعلیٰ مقاصد پہ مرتکز رکھی۔ جب بھی انہیں اخلاقی عظمت کی امین ایک روحانی شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی، سختی کے ساتھ آپ نے حوصلہ شکنی کی۔ اب تو خیر اپنی چمک دمک کھو بیٹھا۔ یہ لفظ "مولانا" احترام کے لیے برتا جاتا۔ محمد علی جوہر اور ان کے بھائی شوکت علی اس جدید درس گاہ علی گڑھ سے اٹھے تھے مگر احتراماً دونوں کو مولانا کہا جاتا۔ قائدِ اعظم کے لیے یہ لاحقہ برتنے کی کوشش کی گئی تو آپ نے فوراً ہی ٹوک دیا۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کی اخلاقیات ایک سیکولر آدمی کی اخلاقیات تھی، بخدا وہ انہیں سمجھ ہی نہیں سکے۔ یہ لفظ انہوں نے کبھی برتا ہی نہیں، پسند ہی نہ کیا، پھر ایسی دیانت، ایسی وفا اور ایسی بے لوثی اس آدمی میں ہو کیسے سکتی ہے، خدا کے سامنے جوابدہی کا جسے احساس نہ ہو۔ کہیں نہ کہیں تو اس کا قدم پھسلے گا۔ کبھی نہ کبھی مصلحت سے کام تو لے گا۔ دائم وہ استوار رہے، کبھی کسی سے مرعوب نہ ہوئے۔ ایک سے زیادہ بار قطعیت کے ساتھ کہا کہ اپنے ضمیر اور اپنے پروردگار کے سامنے خود کو وہ جواب دہ سمجھتے ہیں۔ شخصیت میں آہنگ تھا، دکھاوے اور نمائش سے نفرت۔ امتحان کے طویل مہ و سال کے بعد وہ زمانہ بھی آیاکہ جہاں کہیں بھی جاتے، وفورِ محبت سے خلقت پروانوں کی طرح امنڈتی۔ عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی تھی۔
پہاڑی شہر شملہ موسمِ گرماکے لیے انگریزوں کا دارالحکومت ہوا کرتا۔ قائدِ اعظمؒ کے اعزاز میں سائیکل سوار جلوس نکالا گیا۔ اکرام کے جذبے سے سڑکوں پر سرخ بانات بچھی تھی۔ ہیٹ آپ کی گود میں رکھا تھا، جو اس زمانے میں پابندی سے پہنا کرتے ؛تاآنکہ قراقلی ٹوپی اختیار کر لی۔ اس دن سے وسطی ایشیا اور افغانستان سے بر صغیر میں رواج پانے والا صدیوں پرانا یہ پہناوا جناح کیپ کہلانے لگا۔ کسی نے سرگوشی کی : ہیٹ یہیں پڑا رہنے دیجیے۔ قدامت پسند مسلمان اس چیز کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ فوراً ہی آپ نے سر پہ رکھ لیا۔
بہت سے دوسرے لیڈروں کے برعکس قائدِ اعظم کی اخلاقیات دکھاوے کی نہیں تھی۔ مشہور واقعہ ہے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن کی بیوی کے نام نہرو کے خطوط مسلم لیگیوں کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ فرطِ مسرت سے قائدِ اعظم ؒ کومطلع کیا گیا۔ ایک لمحہ تامل کے بغیر لیاقت علی خان کو آپ نے حکم دیا کہ یہ خطوط چھاپے نہیں جائیں گے۔ عشروں بعد ایک دوسرے آدمی نے، جو ہمیشہ دانشوروں کی دشنام کا ہدف رہتاہے، کمال انکسار کے ساتھ اسی طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ ایک خاتون لیڈر کی فلم انہیں پہنچائی گئی۔"ہم بہنوں، بیٹیوں والے ہیں " اس نے کہا اور فلم ضائع کر دی گئی۔ اس آدمی کا نام جنرل محمد ضیاء الحق تھا۔
افسوس، اس آدمی کی گود میں وہ لوگ پروان چڑھے، جنہوں نے کردار کشی کو معمول بنایا ؛حتیٰ کہ شعار کر لیا۔ رفتہ رفتہ اب سارا ملک اس رنگ میں رنگا ہے۔ ایک آدھ نہیں، دو چار نہیں، سینکڑوں ہزاروں بھی نہیں، لاکھوں سیاسی کارکن ہیں، دن رات ایک دوسرے کو جو گالیاں بکتے، کہانیاں تراشتے اور اس پہ فخر کرتے ہیں۔ داد ان لیڈروں کو دی جاتی ہے، جو منہ پھاڑ کر بات کر سکیں۔ مذمت، مخالفت اور تحقیر میں جنہیں ہر گز کوئی تامل نہ ہو۔
رویتِ ہلال کے بارے میں فواد چودھری کا موقف درست ہے، بالکل درست لیکن اظہار کا قرینہ اور مختلف نکتہ نگاہ رکھنے والوں کے بارے میں ان کا طرزِ عمل اتنا ہی افسوسناک۔ آج نہیں، برسوں اور عشروں سے بہت سے لوگ کہتے آئے کہ چاند دیکھنا علما کا نہیں، ہیئت اور موسم کے ماہرین کا وظیفہ ہے۔ یوں بھی عیدین اور رمضان پر اس سرکاری اہتمام میں صرف فقہا اور مفتیانِ کرام نہیں، محکمہء موسمیات سمیت مختلف ماہرین بھی شریک ہوتے ہیں۔ نظام بدلا جا سکتاہے اور بدلنا ہی چاہئیے۔ یہ کوئی عظیم کارنامہ نہیں ہوگا، جیسا کہ فواد چودھری تاثر دیتے ہیں۔ لاہور کا ایک نجی ادارہ سو سال کا کیلنڈر بنا رہا ہے اور جلد ہی جاری کر دے گا۔ اس لیے کہ سورج اور چاندسمیت تمام اجرامِ فلکی کی گردش کے اوقات اور مدار مقرر ہیں۔
یہ اس نے مقرر کیے ہیں، جس نے ناقابلِ یقین تنوع کی یہ کائنات تخلیق کی اور ابد الآباد تک اس کے قوانین متعین کر دیے۔ فرمایا: نظر اٹھا کر دیکھو، وہ تھک کر لوٹ آئے گی، رحمٰن کی کائنا ت میں تم کوئی خلل نہ پائو گے۔ ایک سادہ سا سوال یہ ہے کہ مفتی منیب الرحمٰن ایسے شائستہ اور نجیب لوگوں پہ پھبتی کسنے کا حق آپ کو کس نے دیا۔ اس سے آنجناب کیا فیض پائیں گے۔ جب سے سائنس کے وزیر آپ بنے ہیں، ملک بھر کے تمسخر کا آپ موضوع ہیں۔ اس پہ آپ کا دل دکھتا ہے نا، اسی طرح کا دل ہر سینے میں ہوتاہے۔ اسی طرح دکھتا ہے۔ چاہ کن را چاہ درپیش!
یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والا خود بھی اسی میں گرتاہے۔ یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے، یہی تاریخ کا سبق ہے۔ مگر جبلتوں کا ماراآدمی بھی عجیب ہے۔ ہر روز ٹھوکر کھاتا، کھا کر اٹھتا اور پھر سے جھک مارنے پہ تل جاتاہے۔