بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
آسمانوں سے پیہم وہی صدا "یحسرۃً علی العباد" اے میرے بندو، تم پر افسوس۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ انشاء اللہ باقی بھی ہو جائیں گے۔ ابھی ابھی پانی کا گھڑا عمر کمرے میں دھر گیا ہے۔ ہرچند قرینہ یہ ہے کہ کمرے میں گھڑے نہیں صراحی رکھی جائے۔
یاد آیا، دوسری مشکل بھی حل ہوئی۔ مالی کے ساتھ طے پاگیا کہ تنخواہ میں چالیس فیصد اضافہ کر دیا جائے تو ہر موسم کی سبزی مہیا کرے گا۔ دیسی انڈوں کا بندوبست بھی ہے۔ میانوالی کے دوستوں کو اللہ خوش رکھے، دیسی مرغی کا بھی۔
لیجیے بھول ہی گیا، صادق آباد سے میر صاحب نے جو کی بوری بھجوا دی تھی۔ یوں تو پرانی دیسی گندم کا بیج بھی عنایت کیا تھالیکن شیخو پورہ کی نخریلی زمین کو پسند نہ آیا۔ اب صرف ایک چیز باقی ہے اور وہ ہے پکانے کے لیے پیتل کے برتن۔ حاجی عبد الغنی امرتسری کے فرزند نے ذمہ داری قبول کی تھی، جن کے نام پر ایک ریستوران گوجرانوالہ میں قائم ہے۔ کھانا تو الگ، کہا جاتاہے کہ ملک بھر میں کسی تنور پر ایسی چپاتی نہیں پکتی۔ پیمان پہ پورے اترنے والے آدمی ہیں لیکن ہوا یہ کہ جس دن یہ بات طے پائی، چند دن بعد ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا۔ 92 نیوز کے پروگرام "مقا بل" کے لیے ہر ہفتے لاہور آتا ہوں۔ ہمت برقرار تھی تو شیر شاہ سوری روڈ پہ گاڑی دوڑایا کرتے۔ انگریزوں نے جس کا نام "جی ٹی" رکھ دیا، ایک بیہودہ نام۔
اب ہمت نہیں پڑتی ہے۔ ایک بار تعزیت کے لیے ان کے ریستوران پہ پہنچا مگر ان کا ملازم گھر کا پتہ سمجھا نہ سکا۔ وہ کھانے پر اصرار کرتا رہا۔ اسے بتایا کہ کھانا کھایا جا چکا مگر مصر رہا کہ پتہ بتانے کی عنایت کھانے کے بعد ہی ممکن ہے۔ مجبوراً لاہور کی راہ لی۔ اس کے بعد کبھی گزر ہوا بھی تو افراتفری میں۔
ٹی وی پروگرام کالم سے مختلف ہے۔ کالم کہیں بھی، کسی بھی وقت لکھا جا سکتاہے۔ ٹی وی پروگرام؟ آنکھ کھلتے ہی اعصاب پہ سوار۔ صحت اب تک ٹوٹی تو نہیں۔ الحمد للہ کوئی تکلیف دہ بیماری نہیں۔ پہلی سی توانائی بھی مگر باقی نہیں۔ غالبؔ نے کہا تھا
جس دل پہ مجھ کو ناز تھا، وہ دل نہیں رہا
بہت دن نہیں گزرے، دو تین گھنٹے سو لینے کے بعد صبح سات بجے کی گاڑی سے لاہور روانہ ہو جاتا۔ کورونا کی وبا پھیلی تو ڈاکٹر فاؤ چی نے نصیحت کی کہ نیند پوری کی جائے۔ نواب زادہ نصر اللہ خاں مرحوم ایسی ہمت ہے نہیں۔ مشرف کا سورج نصف النہار پہ تھا، بسترِ مرگ پہ پڑے تھے۔ عمر 80برس ہو گئی تھی۔ جاوید ہاشمی ملنے گئے تو ان سے کہا کہ مخدوم امین فہیم سے بات کر کے جلد از جلداجلاس کا اہتمام کرو۔ بھلا چنگا ہو کر میں خود بھی کاوش میں شریک ہو جاؤں گا۔ جاوید صاحب حیرت سے انہیں دیکھتے رہے۔ اپنا حال تو اب یہ ہے کہ نیند پوری نہ ہو تو ٹیلی فون خاموش کر دیتے ہیں۔
معالجوں کی مانی جائے تو آرام بڑھا لینا چاہئیے۔ 70برس کی عمر میں سید ابو الاعلیٰ مودودی ایسا سخت جان امارت سے دستبردارہو گیا تھا۔ یہی میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد نے کیا۔ ارشاد یہ ہے کہ اپنے آپ پر اس سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو، جتنا اٹھا سکتے ہو۔ قاعدے کی بات تو یہ ہے کہ ذمہ داری گھٹا لینی چاہئیے لیکن کیا کیجیے، فرصت سے خوف آتا ہے۔ تنہائی اچھی، فرصت اچھی مگر ان کے لیے، جو ورزش کے سوا سارا وقت محوِ مطالعہ، محوِعبادت رہ سکتے ہو ں۔ عامیوں کو یہی زیبا ہے کہ خود کو مصروف رکھیں۔ جب تک دم میں دم ہے، انشاء اللہ مبتلا رہیں گے لیکن کچھ قرینے بدل ڈالنے کا ارادہ کیا ہے۔ بازار اور شادی بیاہ کے کھانے سے حتیٰ الامکان گریز، پانی گھڑے کا۔ سبزی گھر کی اور کھانا پیتل کی ہنڈیا میں۔ مٹی کی ہنڈیا کیوں نہیں؟ اس لیے کہ بھاری ہوتی ہے، دھونے میں دشواری۔
برسوں تحقیق کرنے والے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر منور صابر کا کہنا یہ ہے: مٹی میں ایک عجیب خصوصیت پائی جاتی ہے۔ پانی میں اگر کچھ کمی ہو تو پورا کر دیتی ہے۔ کچھ عناصر زیادہ ہوں تو کم کر ڈالتی ہے۔
اپنے زمانے سے ہم آہنگ ہونے والا ہی شائستہ زندگی کر سکتاہے، ورنہ قدامت پسندی کی پھپھوندی۔ کچھ نئی چیزیں مگر ایسی ہیں کہ ان سے گریز ہی بہتر ہے۔ یہ اس ناچیز کا نہیں، ماہرین کا کہنا ہے۔ بسر تازہ ہوا میں کرنی چاہئیے۔ پانی گھڑے کا پینا چاہئیے۔ سبزی بغیر کھاد کی۔ سپرے اگر کیا ہو تو چار پانچ بار اچھی طرح دھونی چاہئیے۔ کھانا مٹی، پیتل یا پتھر کے برتن میں پکنا چاہئیے۔ نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جسینڈرا تو یہ کہتی ہیں کہ الیکٹرانک اوون کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینے چاہئیں۔ پتھر کے برتن گھر میں رکھے ہیں۔ خپلو سے بنوا کر لایا تھا لیکن مٹی سے دس گنا بھاری؛چنانچہ پیتل پہ انحصار کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ سلور کی پتیلی موزوں نہیں۔ ارادہ یہ بھی ہے کہ مکان باہر کھیتوں میں بنالیا جائے۔ تازہ ہوا، دل کا ملال لے جاتی ہے۔ بارش، جہاں بارش کی طرح برستی ہے۔ چاندنی جہاں چاندنی محسوس ہوتی ہے۔ ستارے قریب آجاتے ہیں۔ آسمان نیلا ہو جاتاہے۔ درخت باتیں کرتے ہیں اور باتوں سے خوشبو آتی ہے۔
یہاں تک لکھ چکا تو خیال آیا کہ آدمی کتنا خودغرض ہے۔ اپنی ذاتی سہولت پر سوچتا ہے۔ بائیس کروڑ میں سے اکیس کروڑ انسانوں کا جرم کیا ہے کہ تازہ ہوا میں سانس نہ لے سکیں۔ موزوں خوراک مہیا نہ ہو۔ صاف دودھ، حتیٰ کہ صاف پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہ ہو۔
خود فریبی ہی سہی، بس ایک خیال، ذرا سا اطمینان عطا کرتاہے۔ ساری عمر نہ سہی، پچھلے پندرہ بیس برس پیہم اس کے لیے یاد دہانی کرائی ہے۔ ایک اخبار نویس یہی کر سکتاہے۔ یہی کہ چیخ چیخ کر حکمرانوں کو یاد دلاتا رہے۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا مگر کوشش توکی۔ رہی نیت تو اس کا حال خدا جانتا ہے۔ شاید پی ٹی آئی اور نون لیگ کے میڈیا سیل والوں کا خیال ہے کہ وہ بھی جانتے ہیں۔ عمران خان بھی جانتے ہیں۔۔ گالم گلوچ کی حد تک تو میڈیا سیلوں والے بھی اکبرِ اعظم ہیں۔ رہی کارکردگی تو کام کے نہ کاج کے، دشمن اناج کے۔
مالک ہم پہ رحم کرے مگر انہی پر وہ رحم کرتاہے، جو آرزومند ہوں۔ امیدیں جب عمران خان، نواز شریف اور بلاول بھٹو سے وابستہ ہوں تو اللہ کو کیا پڑی ہے۔ بندے بے نیاز تو اللہ ان سے زیادہ بے نیاز۔ آسمانوں سے پیہم وہی صدا "یحسرۃً علی العباد" اے میرے بندو، تم پر افسوس۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے