بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
برصغیر کے مقدر میں کشمکش ہے، جسے شائستہ اور مہذب کرنا چاہیے۔ یکایک دوستی کا تصور اس لیے بھی احمقانہ ہے کہ اوّل دشمنی ختم کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی احمقوں کی تعداد کم نہیں مگر بھارت کی انتخابی مہم میں سیاست کے تیور تو دیکھئے!
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہہِ محراب
حاجی اسلم نے، جن کی یادوں میں لدھیانہ شہر اس طرح جگمگاتا ہے، جیسے انتظار حسین کے خوابوں میں جوانی کے گلی کوچے، آخری انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے نام ایک خط لکھا۔ ان سے کہا کہ کشمیر کے مظلوموں کی وجہ سے دنیا نہیں تو آخرت میں آپ کو سزا بھگتنا ہوگی۔
یہ 1964ء کی بات ہے، جب محمد اسلم اپنے والد احمد دین کے ساتھ لندن میں مقیم تھے۔ کینیاسے وہ لندن پہنچے تھے، جس کے لیے احمد دین نے لدھیانہ سے ہجرت کی تھی۔ زمین اللہ کی ہے اور انسانی تاریخ ہجرتوں سے بھری پڑی ہے۔ کشمیر کے باب میں جو نتیجہ زیرِ نظر کتاب "لدھیانہ کے مسلمانوں پہ کیا گزری" میں اخذ کیا گیا، وہ قابلِ فہم ہے۔ بالآخر برطانوی ڈرامہ نگار تک اس سے متفق ہیں کہ وائسرائے کی اہلیہ ان پر اثر انداز ہوئیں۔ دھمکی دی کہ وہ انہیں چھوڑ کر چلی جائیں گی۔
ماؤنٹ بیٹن آداب نظر انداز کر کے ریڈ کلف کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں آمادہ کیا کہ وہ تحصیل گورداسپور بھارت کو سونپ دیں۔ یہ کشمیر کی واحد زمینی راہگزر تھی۔ مورخ کہتے ہیں کہ محترمہ نہرو پہ فدا تھیں اور ان کا کہا ٹال نہ سکتی تھیں۔ لیاقت علی خان قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور ان سے یہ کہا تھا: نہرو کی خط و کتابت ہمارے ہاتھ لگ گئی ہے۔ ہم اسے بے نقاب کر سکتے ہیں۔ بابائے قوم نے سختی سے منع کر دیا۔ وہ کردارکشی اور ذاتی زندگی کے قائل نہ تھے۔
حاجی صاحب فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور اپنی شگفتہ بیانی کے لیے معروف۔ سوچتے کم اور بولتے زیادہ ہیں۔ کم از کم میرا تاثر یہی تھا۔ سینیٹر طارق چوہدری کے ساتھ صدر غلام اسحٰق سے ملنے گئے تو ان کے ساتھ تصویر بنوانے کی فرمائش کی اور یہ فرمایا "بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی"۔
قوّتِ متخیلہ سے مالامال، وہ ایک آرزومند آدمی ہیں۔ حاجی صاحب کو لدھیانہ سے محبت ہے اور تحقیق کاولولہ بھی؛چنانچہ فقط یہی نہیں کہ 1947ء میں لدھیانہ کے مسلمانوں پہ کیا بیتی۔ عالی جناب نے شہر کی تاریخ، اس کے ممتاز خاندانوں، برادریوں اور رجال سے بھی بحث کی ہے۔۔ اور یہ فکر انگیز ہے۔ مثال کے طور پر مغلوں کے عہد میں یہ قصبہ اس لیے ترقی نہ کر سکا کہ ان کے حریف اور پیش رو ابراہیم لودھی کے نام پر بسایا گیا۔۔
لودھیانوالہ، جوسمٹ کر لدّھیانہ ہوگیا۔ شہر میں ایک بڑا میدان تھا، جہاں ہر سال شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے نام پر روشنیوں کا تہوار منایا جاتا۔ شاید اسی لیے برکت ملی۔ دو نامور شاعر ساحر لدھیانوی اور حافظ لدھیانوی اسی قریہ کے فرزند تھے۔ ساحر کو شہرت زیادہ ملی۔ بغاوت میں ان کے ہم مسلک اور ہم جماعت حافظ لدھیانوی کلا م میں ان سے بہتر اور محاسن میں بہت زیادہ تھے۔ ان کی لکھی نعتوں کے 25مجموعے چھپے۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔
حادثہ ایسا دل و جاں پہ نہ گزرا تھا کبھی
اک قیامت ہے، مدینے سے جدا ہو جانا
مجلس احرار کے بانی مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے طفیل مسلم لیگ کا چراغ اس شہر میں زیادہ نہ جل سکا؛اگرچہ 1946ء کے الیکشن میں جواں سال شوکت حیات کے مقابل وہ طوفان میں بہہ گئے۔ آزادی کے بعد وہ پاکستان آئے تو کسی نے طعنہ دیا کہ جس وطن کے آپ مخالف تھے، اس میں پناہ کیوں ڈھونڈنے آئے۔ خوددار آدمی لوٹ گیا۔
مولانا تاج الدین احراری کا ذکر بھی اکرام سے ہے۔ 1947ء کے فسادات میں ایک لاکھ مسلمان نشیبی محلّے میں جمع ہو گئے۔ بارش برسی تو زندگی زخم آلود بدن ایسی ہو گئی۔ اوّل اوّل گاڑیاں چلتی رہیں۔ پھر وہ بند ہوئیں ؛حتیٰ کہ ایک لاکھ جوان، بچّے، بوڑھے، مرد اور عورتیں پیدل چل کر خواب نگر پہنچے۔ مولانا تاج الدین شب و روز مظلوموں کی مدد کرتے رہے۔ وہ سب سے آخر میں پاکستان آئے۔
شورش کاشمیری نے لکھا تھا: چوہدری افضل حق نے احرار کو وصیت کی تھی کہ پاکستان کی ہرگز مخالفت نہ کریں مگر قائد اعظمؒ کو کافرِ اعظم کہنے والے مولانا مظہر علی اظہر نے کانگریس سے قیمت وصول کر لی۔ کانگرس کا روپیہ اور ابو الکلام آزاد کی تردماغی۔ کتاب میں بحث اس موضوع سے نہیں مگر بین السطور پر غورو فکر سے کتنے ہی نکات کھلتے ہیں۔
لدھیانہ کو برصغیر کا مانچسٹر کہا جاتا، جس طرح کہ بعد ازاں فیصل آباد کو۔ دونوں میں پارچہ بافی نے فروغ پایا۔ فیصل آباد میں غیر معمولی طور پر۔ دنیا بھر کیلئے سوتی دھاگے کا نرخ اسی شہر میں طے ہوتاہے۔ حاجی اسلم اس صنعت کے لیے ایک ہفتہ وار جریدہ بھی چھاپتے ہیں۔ گھریلو استعمال کی پاکستانی پارچہ بافی دنیا بھر میں بہترین ہے۔ افسوس کہ مارکیٹنگ کے باب میں ہمارے ذہن سائنسی انداز سے نہیں سوچتے وگرنہ اور بھی کتنی ہی سرزمینیں کاروباری طور پہ تسخیر کی جا سکتیں۔
1947ء کے مظالم کی روداد اذیت ناک ہے۔ گزرے زمانوں کے بند دروازے کھولتی اور یاد دلاتی ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ بھول جائے، تاریخ اسے فراموش کر دیاکرتی ہے۔ اجتماعی حافظہ اکثر کمزور ہوتاہے اور میڈیا کی یلغار میں کمزور تر۔ بھارت عالمی استعمار کا ساجھی ہے۔ کچھ منشی اور محرّر امن کے گیت کرائے پر گاتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ سب کچھ بھلا دیا جائے۔ نفرت کوئی اندوختہ نہیں، جنگ ہرگز کسی مسئلے کا حل نہیں اور خوئے انتقام سے کوئی بلند نہیں ہو سکتا۔ یک طرفہ طور پر سب کچھ مگر بھلا کیسے دیا جائے؟
حاجی صاحب کے اعداد و شمار قابلِ اعتماد ہیں اور کتاب انکشافات سے بھری ہے۔ مثلاً 1881ء میں برصغیر کی کل آبادی 3کروڑ تھی، جو اب ایک ارب ساٹھ کروڑ ہو چکی۔ اس میں مختلف قدیم قبائل، راجپوت، بٹ، تیلی، کمہار، لوہار، جولاہے، فقیر، موچی، میراثی اور قصائی کیا تناسب رکھتے تھے۔ مہاجر مسلم قبائل آرائیں، سیّد، اعوان اور مغل کتنے؟
ہنر مندی کے ساتھ حاجی اسلم نے متنوع موضوعات کو نمٹایا ہے۔ پھر ایک و اضح نتیجہ اخذ کیا۔ ہندوؤں کے قلوب میں پلنے والی نفرت کا سبب درحقیقت صرف ایک تھا۔ 7 سو برس کو محیط مسلم اقتدار۔ بھارتی انگریزوں سے نفرت نہیں کرتے۔ وہ چلے گئے، ان کے سماج کا حصہ نہ بنے۔ ہندو کے پندار کو اس سے بھی ٹھوکر لگی کہ 2900سال قبل جین مت کے علاوہ، 2600سال پہلے بدھ مذہب اور پانچ صدیاں قبل سکھوں کی نمود نے باقی رہنے والا چیلنج پیدا نہ کیا۔ ان سب کو اس نے اپنے اندر جذب کر لیا۔ ان کے رشیوں اور منیوں کے بت بنا دئیے مگر اسلام کو وہ تحلیل نہ کر سکے۔ محمد مصطفی ؐ کے دین میں توحید کا تصور اس قدر گہرا تھا کہ اصنام پرستی اس میں ممکن ہی نہ تھی۔
برصغیر کے مقدر میں کشمکش ہے، جسے شائستہ اور مہذب کرنا چاہیے۔ یکایک دوستی کا تصور اس لیے بھی احمقانہ ہے کہ اوّل دشمنی ختم کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی احمقوں کی تعداد کم نہیں مگر بھارت کی انتخابی مہم میں سیاست کے تیور تو دیکھئے!
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہہِ محراب