وڈیرے کا مشورہ
کئی برس پُرانی بات یاد آئی ہے۔ میرے ایک دوست مرزا سلیم بیگ یورپ کے ایک شہر گئے۔ وہاں ان کا دو دن قیام تھا۔ اس کے بعد انھیں واپس پاکستان آنا تھا۔ وہ چائے پینے کے لیے ہوٹل کے لان کی طرف گئے، وہاں صرف ایک ٹیبل ایسی تھی جہاں ایک کرسی خالی تھی۔ وہاں بیٹھے شخص نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ تھینکس کہہ کر بیٹھ گئے۔ چائے منگوا کر پینی شروع کی تو دوسرے شخص نے اُن سے پوچھا، آپ کیا کام کرتے ہیں؟
سلیم بیگ نے بتایا تو وہ شخص خوش ہو کر بولا کہ میں بھی آپ کی طرح ڈرائیور ہوں۔ آپ جہاز اُڑاتے ہیں اورمیں ٹرک چلاتا ہوں۔ ہم دونوں کا پیشہ تو ایک ہی ہوا۔ بیگ صاحب نے قطعی بُرا نہ منایا کیونکہ بات تو ایک لحاظ سے سچ تھی۔ ایک ایسا ہی شخص جس نے بسوں کے اڈے پر بحیثیت لوڈر اور کنڈیکٹر اپنی عملی زندگی کی ابتداء کی، بتاتا ہے کہ ٹرک اڈے پر گاڑیوں کو آگے پیچھے کرنے کی مزدوری کرتے کرتے وہ ڈرائیونگ سیکھ گیا اور پھر بس اڈہ چھوڑ کر شہر کے ایک وڈیرے کے پاس بغیر لائسنس بطور کار ڈرائیور ملازمت شروع کر دی۔
میں نے یہ ملازمت By chioce کی تھی کیونکہ وڈیرہ مالدار تھا اور میرا ڈیل ڈول وڈیرے کو پسند آیا تھا۔ نوکری کے دوران مجھے پتہ چلا کہ وڈیرے کا اصل پیشہ رسہ گیری تھا۔ وڈیرے کے بہت اوپر تک تعلقات تھے اور مخالفوں کو اُٹھوا لینا، لوگوں پر مقدمات قائم کرنے کے بعد لے دے کر صلح صفائی کے بعد مال بنانا، جرائم پیشہ سے حصہ داری رکھنا، ثالثی کرانا، جرائم پیشہ کو پناہ دینااور پھر اُن پر جھوٹے مقدمات بنوا کر مال بٹورنا۔
وڈیرہ دوسروں کے سامنے میری ظاہری شکل و صورت کی وجہ سے مجھے سردار کہہ کر بلاتا۔ پھر کسی سیانے نے ایک دن سردار کو مشورہ دیا کہ وڈیرے سے تعلقات نے بدمعاشی کے زور پر پیسہ کمانا سکھایا ہے لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے لہٰذا تمہیں بھی اب عام وڈیرے کی ماتحتی ترک کر کے کسی سیاستدان کے ساتھ تعلق قائم کرکے اپنے دھندے کو نئی جہت دینی چاہیے اور وہ بھی صرف برسر ِ اقتدار شخص یا ٹولے کے ساتھ۔
عام جرائم پیشہ لوگوں کو وڈیرے کے مشورے پر ذریعہ معاش بنائے سردار کو کئی سال گزر جانے کے بعد اب جو وڈیرے نے اسے سیاست کے اکھاڑے میں اُترنے کا مشورہ دیا۔ سردار کو پہلے پریشانی ہوئی کیونکہ یہ اس کے لیے بالکل نئی فیلڈ تھی لیکن سردار کو اپنے گرو پر اعتما د تھا اس لیے اس نے گرو ہی کے دوست سے سبق لینا شروع کر دیے۔ اس کا پہلا سبق یہ تھا کہ جو سیاستدان تمہیں فائدہ پہنچائے اس کا ساتھ مت چھوڑو چاہے۔
سیاستدان بُرا وقت آنے پر جیل ہی میں کیوں نہ چلا جائے۔ وڈیرے نے کہا کہ جو سیاستدان اپنے دور اقتدار میں اپنے ساتھیوں کا خیال رکھنے کی پالیسی رکھتے ہیں، وہ کبھی اکیلے یا مایوس نہیں پائے گئے اور جو صاحبانِ اقتدار خود پسندی میں مبتلا رہیں، وہ جیسے ہی پس زنداں جائیں گے اور پیچھے مڑ کر دیکھیں گے توخود کو تنہا پائیں گے، ایسے لیڈر ہمارے ملک میں صرف ایک بار اقتدار پاتے ہیں۔ وڈیرے نے سانس بھری اور کہا، دُور کیوں جائیں گزشتہ چند سال پرانی مثال سب کے سامنے ہے۔
ہمارے کئی سابق حکمران چاہے وہ convicted absconder ہوں، اب بھی ان کی پوجا ہوتی ہے۔ ان کے وارث، ساتھی اور پارٹی ممبرز کواب بھی امید ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آئیں گے، وہ ضمانت پر بھیر ہوں توگلاب کی پتیاں ان پر نچھاور ہوتی ہیں۔