دوڑتا بھاگتا مرحوم
خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں اس کے بندے ننگے پائوں، ننگے بدن، موسمی سختیوں سے گزرتے کھلے آسمان کے نیچے رہتے اور سوتے، اسی کی دی ہوئی فہم اور عقل استعمال کر کے آج کل اعلیٰ اور شاندار ترقی یافتہ زندگی گزار رہے ہیں۔
آج ہی کی بات ہے میں پرانے، بھُولے بسرے غیر ضروری لوگوں کے نام اپنے موبائیل فون سے Delete کر رہا تھا، اچانک ایک دوست کا نام جس سے پہلی ملاقات 48 سال قبل ہوئی تھی، موبائل فون کی اسکرین پر نظر آیا۔ پہلے سوچا اسے Delete ہی کر دوں کیونکہ رابطے میں تسلسل نہیں رہا، پھر ایک دلچسپ واقعہ یاد آنے پر ارادہ بدل دیا، پھر خلاف ِ توقع اس نے میرے فون کی پہلی رِنگ پر کال لے لی تو ماضی کی یاد نے دروازہ کھول دیا۔
میری کوہ ِ مری میں تعیناتی تھی جب میری ملاقات سندھ کے ایک سابق مرحوم وزیر ِ اعلیٰ کے بیٹے سے ہوئی۔ میرے دوست شیخ لطف الرحمٰن بھی کراچی سے آ کر میرے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ اسے دوستیاں نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ وہیں شیخ لطفی کی ملاقات سابق مرحوم وزیراعلیٰ کے بیٹے سے ہوئی تھی جو چند ہی روز میں گہری دوستی میں ڈھل گئی۔
سندھ کے اس وڈیرے کو ریوالور اور پسٹل جمع کرنے کا انوکھا شوق تھا، مری میں قیام کے دوران اس نے دس بارہ پسٹل ریوالور ملاقاتیوں سے لے کر اپنا باکس بھر لیا ہے اور پھر باکس اپنے ملازم کے سپرد کر کے اسے ٹرین سے کراچی روانہ کر دیا۔ دوسرے لطفی اور اس نے فلائٹ پکڑی اور کراچی روانہ ہو گئے۔ یہ دونوں ایئرپورٹ پر مقررہ وقت پر ریل آنے اور باکس والے ملازم کو تلاش کرتے رہے، وہ نہ ملا تو پریشان ہوئے۔ تین دن بعد مجھے سٹی مجسٹریٹ جہلم کا فون آیا کہ ایک گرفتار شخص نے بمشکل آپ کا نام بتایا ہے۔
واقعہ یہ ہوا ہے کہ ریلوے پولیس نے ایک عام سے مسافر کے پاس بے حد قیمتی باکس دیکھ کر تلاشی لی تو باکس میں سے ایک سے ایک قیمتی ریوالور اور پسٹل نکلا۔ پوچھ گچھ پر اس نے صرف اتنا بتایا کہ اس بارے میں سیٹھی صاحب ہی کچھ جانتے ہوں گے۔ وہ ملزم اس وقت گرفتار اور جیل میں ہے۔ میں نے شیخ لطفی سے فون پر بات کی تو اس نے کہا وہ اور سندھی وڈیرا بھی پریشان ہیں۔
ایک گھنٹے کے بعد مجھے شیخ لطفی نے کہا، وہ اگلی صبح پہلی فلائٹ سے راولپنڈی پہنچے گا، میں اسے ایئرپورٹ پر ملوں۔ جہاں سے ہم جہلم جائیں گے تاکہ ملازم کی ضمانت کرائی جائے۔ ملازم کی ضمانت میں نے ہی کرائی اور اسے ٹرین سے کراچی روانہ کیا۔ میرے لیے بہرحال یہ نا پسندیدہ کام تھا لیکن مجبوری تھی کہ وزیر ِ اعلیٰ کے بیٹے کے ملازم کی گرفتاری کی اسٹوری ان کے مخالفین کو پتہ چلتی تو تماشہ تو الگ لگتا۔
اب ایک اور مشکل یہ آن پڑی کہ ضمانت پر چھوڑے گئے ملزم کو ہر پیشی پر کراچی سے آ کر جہلم کی عدالت میں پیش ہونا تھا اور اگرچہ معاملے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن ملزم کی رہائی کی ضمانت میں نے دی ہوئی تھی۔ یوں میرا تعلق ملزم کی ضمانت دینے کی حد تک تو تھا۔ چند ماہ بعد پتہ چلا کہ ملزم کی ضمانت منسوخ ہو کر اس کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔
جناب صاحبزادے نے پوری بات بتا کر سپرنٹنڈنٹ پولیس سے مدد چاہی۔ اس نے دو دن کی مہلت مانگی اور تیسرے دن ایک FIR وڈیرے کو پیش کی جس کے مطابق ملزم ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں مارا گیا تھااور ساتھ ایک میڈیکل رپورٹ جس کے مطابق اس ملزم کی موت Confirm ہو گئی، اس نے دونوں رپورٹیں جہلم بھجوادیں اور یوں قصہ ختم۔ یہ اکلوتی کہانی نہیں اس سے ملتی جلتی کہانیاں ہمارے ہر شہر میں اتنی ہیں کہ ان پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔