پیمانوں کے حساب سے کیا پینا
عصری سیاست کے حوالے سے موضوعات بہت ہیں۔ کم و بیش نصف پون درجن لیکن فائدہ؟ لوگ بھی تو ناراض ہوتے ہیں۔ "بچھو سے کسی نے دریافت کیا تھا تمہارا سردار کون ہے؟ جواب دیا جس کی دم پر ہاتھ رکھو و ہی سردار ہے"۔
2023ء بیت گیا، 25 کروڑ لوگوں نے بھگتا۔ مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔ گیس پر پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والے کرائے ڈیزل کی قیمت کے تناسب سے وصول کرتے رہے۔ اب ڈیزل وغیرہ کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو ہزار بہانے ہیں۔ کیا کریں یہ ایک طبقہ کا مسئلہ نہیں اس حمام میں سب برہنہ ہیں۔
نئے سال کی پہلی صبح حضرت سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم یاد آئے۔ فرمایا "حرام کا ایک لقمہ تین نسلوں تک مار کرتا ہے"۔ تشریح و تفسیر کی ضرورت نہیں۔ جس کا گلا دبائو آنکھیں نکالنے لگتا ہے۔
قبل مسیح کے بابل میں سامت وردم نامی سیانا ہوا کرتا تھا ایک دن بابل کے مرکزی بازار کے چبوترے پر آن کھڑا ہوا اور کہنے لگا " سنو منافع خور تاجرو کیوں اپنی اولاد کا پیٹ اپنے بھائیوں کے گوشت سے بھرتے ہو۔ باز آجائو۔ زندگی کے تعاقب میں بھاگنے کے بجائے لوگوں میں زندگی تقسیم کرو"۔
اب سامت وردم سا کوئی یہاں بھی پیدا ہو۔
فقیر راحموں نے کاندھا ہلاتے ہوئے کہا بھلا کیوں پیدا ہو۔ بابل والے اپنے سامت کو دیوانہ کہہ کر پتھر مارتے تھے ہم سولی چڑھائیں گے۔
حرص و ہوس کا سفر کبھی نہیں رکتا۔ اپنے چار اور دیکھ لیجئے۔ فہیمدہ بات کرکے تو دیکھئے بوٹیاں نوچنے پر اتر آتے ہیں لوگ۔ ویسے اس سے سوا لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں۔
نئے سال کی پہلی صبح میں سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم اور سامت وردم کے ساتھ خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازیؒ اور خواجہ غلام فریدؒ یاد آئے تھے مگر چند ساعتوں کے لئے صبر کیجئے۔
پچھلی صدی کے ایک نابغہ روزگار ڈاکٹر وزیر آغا مرحوم کی یادیں تازہ کرلیں۔ وزیر آغا نے ہی تو کہا تھا (میں ترجمہ لکھ رہا ہوں نظم پنجابی میں ہے)
"بادلوں کے بنا ہوائیں کس کام کی، چراغ بنا دیوالی، رانجھن کے بغیر بیلے ویران، ہیر بنا ہریالی، آنسو نہ ہوں تو آنکھیں ویران، یہ تو ایسے ہی ہے جیسے دل کا مشکیزہ پیار سے خالی ہو، ہمارے بنا تیری کیسے گزرے گی، کالی سیاہ لمبی شب "۔
حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔ لہو کیا اب تو آنکھوں سے آنسو بھی نہیں ٹپکتے۔ ہاں میں ان "زندہ لوگوں" پر حیران ہوں جو چند دن ادھر کی ایک شب کے دوسرے حصے کے آغاز پر سال نو کا جشن مناتے رہے۔ تسکین جاں اور نمود و نمائش پر گھنٹہ بھر میں اڑائے گئے کروڑوں روپے (صرف پاکستان میں) اگر بے نوائوں کی دست گیری کے کام آتے تو اچھا تھا۔
ایک دوست کی بھرپور پارٹی میں شرکت سے معذرت کی تو بولے "بخاری تمہارے اندر ایک رجعت پسند چھپا بیٹھا ہے" عرض کیا صحنِ دل میں ہزاروں خواہشوں کے جنازے رکھے ہوں، قاتل دندناتے پھر رہے ہوں، ان کے سرپرست اور ترجمان کلف لگے کپڑوں کی طرح اکڑے گردن سے اس کا جواز بُنتے پھرتے ہوں تو کیا آپ کی دعوت میں شریک ہوکر ر وشن خیال ہونے کی سند لوں؟
انہوں نے فون بند کردیا۔ میں نے دوبارہ کتاب کھول لی۔
عجیب سی بے حسی ہے۔ ویسے ہم سارے اجتماعی معاملات میں بے حس ہیں ہاں جہاں کہیں ذات اور خاندان کا سوال ہو تو پھر پروازیں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ یہاں حالت یہ ہے کہ بقول خواجہ غلام فرید
"دل دوست کے لئے آہ و زاری کرنے تڑپے، غم کھائے، دکھ پائے، مصیبتیں سہے تیرے بے دل کا یہی حال ہے"۔
پھر خواجہ یوں گویا ہوئے
"طبیب کوشش میں ہیں، کئی پڑیاں گھول کر پلارہے ہیں، میرے دل کی بات تک نہیں پہنچ رہے، ایک تل جتنا فرق نہیں پڑ رہا ہے"۔ خواجہ کا محرم راز "روہی" تھی خوب حال دل سناتے رہے روہی کو، غالباً وہ جانتے تھے آدمیوں کے جنگل میں حال دل سنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یار طرح دار نہیں تو اس سے کم بھی نہیں۔
یہ اپنے نصف صدی کے ہمراز فقیر راحموں، گزشتہ شب کے آخری حصے میں کہہ رہے تھے
"اپنے لہو سے غسل کرنے کے زمانے پلٹ رہے ہیں۔ جان اگر غرض سے زیادہ عزیز رکھنی ہے تو سر کو سینے میں چھپالیجئے"۔
سال جو گزر گیا ہمارے تو 65 سال ساتھ لے گیا ظالم۔ زندگی وقت کی مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہی ہے۔ کبھی کبھی اسلم جاوید کی مختصر سی نظم معانی کے نئے جہانوں میں لے جاتی ہے۔ اس کا شکوہ بجا ہے۔
آدمی خود پیاسا ہو، اس کی زمین پیاسی ہو اور روہی جائی بھی پیاسی تو ایسے میں کوئی پانچ دریائی کہہ کر بلائے تو ایسا ہی ہے جیسے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑک دیا گیا ہو۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ ساڑھے چھ دہائیوں سے کچھ دن اوپر کی لمبی مسافت زندگی کا بھید آشکار نہیں کرپائی۔ تمامی کی طرف قدم قدم بڑھتے کبھی سستانے کے لئے رکتے ہیں تو یادیں آن لیتی ہیں
ایسے میں خواجہ غلام فریدؒ یاد آتے ہیں۔ کہا تھا
"تیرے بنا دوست ہر سو ویرانی ہے کبھی تو پلٹ کر آہمارے قریب"۔
ہم بھی یادوں کے تعویز کو گلے میں لٹکائے سفر طے کررہے ہیں۔ اس سفر کی کہانی لکھنا شروع کردی لیکن بار بار تعطل کا سامنا کرنا پڑتا ہے دیکھئے کب تمام ہو کہانی۔ کہ سفر کرنا ہمارے بس میں ہے فقط سفر۔
جینے کی آس کا دامن آدمی کب چھوڑنا چاہتا ہے۔ صدا تو آدمی لگاتا ہی ہے روٹی کے لئے۔ فقیر گلی میں اور مُلاں مسجد میں۔
یہ بھی تو ایک کھردرا سچ ہے کہ "بزم عشق کے مہ مشرب باوئو ہدایت کے جام پلاکر رخصت ہولئے اب ان کے میکدے خالی پڑے ہوئے ہیں"۔
شاہ لطیف بھٹائی کے بقول
"دیار حبیب کی ہر شے مٹھاس سے بھری ہوئی ہے، اگر تم میں چکھنے کا شعور ہو تو کسی بھی چیز میں کڑواہٹ نہ پائو گے"۔ نجانے ان سموں حضرت اسداللہ خان مرزا غالب کیوں یاد آرہے ہیں۔ وہ بھی اس شعر کے ساتھ کہ:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
حضرت سعدیؒ نے فرمایا تھا
"اعلیٰ ترین اور حقیقی عبادت درد دل ہے، محبت ہے، عشق ہے، اسی عبادت کا فائدہ بھی ہے اور مقصد عظیم بھی"۔
جناب جامی (مولانا جامیؒ) کے بقول
"عشق سے منہ نہیں موڑنا چاہیے کہ وہ مجازی ہی کیوں نہ ہو، اسی سے تو حقیقت کی اگلی منزل کا سراغ ملتا ہے"۔
معاف کیجئے گا، نئے سال کا پہلا کالم کچھ کچھ بوجھل ہوگیا۔ کیا کروں جی چاہتا ہے ساری باتیں آج کے اسی کالم میں کرلی جائیں۔ وہ دن اچھے تھے جب یار عزیز، عزیز نیازی مرحوم حیات تھے۔ بند گلی سے نکلنے کی راہ تو دکھلادیا کرتے تھے۔ اب تو حالت حضرت حافظ شیرازیؒ کے بقول کچھ یوں ہے
"اشک باری سے آنکھوں کو دریا بناکر صحرا میں بودوباش اختیار کررہا ہوں اور اس گریہ و زاری سے اپنا دل دریا میں بہا رہا ہوں"۔ رندوں کی خدمت کا دم بھرتے وقت بیتے جارہا ہے۔ عافیت بادہ خواروں کے ساتھ میں ہی ہے مگر میں پیمانوں کے حساب سے نہیں پیتا"۔
حافظ اب حال دل کس سے بیان کریں اور کس سے کہیں۔ فریب کار آسمان اہل ہنر کا رہزن ہے۔ مجھے تیرے خطِ مشکیں کا عشق آج سے نہیں بلکہ مدت ہوئی میں اس ہلال جیسے ساغر سے مست ہوں"۔
جو دن گزرے سو گزرگئے۔ اچھے برے، بھلے یا لہو رنگ۔ آنے والے دنوں اور ہمارے مقدر میں کیا لکھا ہے، کچھ لکھا ہے یا ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حصے کا لکھنا ہے۔ سوال گڈمڈ ہوں گے اور جواب۔ ان کی چھوڑیئے کون سنتا ہے۔
سب اپنی کہتے ہیں۔ اپنا بوجھ اپنے ہی کاندھوں پر لادے سفر حیات طے کرنا لازم ہے۔ غموں سے بھرا ایک اور لہو رنگ سال بیت گیا۔ دوسرے برسوں کی طرح سیاسی و مذہبی عقیدوں کے خوانچہ فروش اپنے اپنے مال کو خالص قرار دیتے نہیں تھکتے مگر کیا مجال کہ ان میں قدریں ہوں یا دکھ سکھ کی سانجھ۔ فقیرراحموں کل کہہ رہے تھے
"خون پر سیاست فرماتے ہیں اورخون سے دینداری کے کھیت سیراب کرتے ہیں"۔
کڑوا سچ یہی ہے باقی تو سب مایا ہے۔ مرشد سیدی بلھے شاہؒ نے کہا تھا "اک الف مینوں درکار"۔ یہاں کس کو درکارہے؟ الف کا بھید پانے کو جان جوکھم میں ڈالنا پڑتی ہے۔ چلئے ایک بار پھر دیوان حافظ شیرازی سے رجوع کرتے ہیں۔ حافظ کہتے ہیں
"اے کوچۂ جاناں کی قیم! میں کب تک اسکے فراق میں گھر کو برباد کروں اور کھنڈروں کے آثار پر اشک باری کے دریا بہائوں۔ خدا کے لئے وہاں سے خوشبو لاکر میرا دل و دماغ تازہ کر"۔
شاہ لطیف بھٹائیؒ کے بقول "سرمدی نغمہ الاپنے والوں کو اپنے لہو سے غسل لینا پڑتا ہے"۔
سادہ سا سوال ہے وہ یہ کہ کیا یہ ہماری قسمت میں لکھے دین و دنیا کے مجاور سرمدی نغمہ الاپنے والے لگتے ہیں کیا؟