"نرم" ریاست سے "گرم" ریاست تک

گزشتہ دو تین دنوں سے "سوفٹ ریاست اور ہارڈ ریاست" پر بحث ہورہی ہے۔ چھیاسٹھ برس کا سفر حیات طے کر چکنے والے ایک شہری کے طور پر میرے لئے یہ ایک انکشاف ہی تھا کہ یہ ملک (پاکستان) کبھی سوفٹ ریاست بھی رہا ہے لیکن یہ بات چونکہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کی ہے اس لئے مانے بغیر کوئی "چارہ" نہیں۔
استاد منیرالحسینی نے یہ دعویٰ کیا ہوتا تو بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ سکتی تھی موجودہ حالات اور بات کہنے والے کے منصب و پس منظر ہر دو کی بدولت ایسا "سوچنا" بھی دل گردے کا کام ہے دل ہمارا ویسے بھی 2005ء سے خراب ہے۔ اب تو مشکل سے 30 فیصد کام کررہا ہے یہ بھی غنیمت ہے۔ اچھا اگر پورے کا پورا بھی کام کررہا ہوتا تو ہم نے کون سا امرتسر فتح کرکے دلی کی طرف روانہ ہوجانا تھا۔
آرمی چیف نے کہا پاکستان ایک سوفٹ ریاست ہے حالات کا تقاضا ہے کہ کہ اسے ہارڈ ریاست بنایا جائے۔ حالات کیا ہیں یہ کیا میں نے اور آپ (میں اور آپ سے مراد ہم رعایا ہیں) نے پیدا کئے ہیں۔ خدا لگتی بات ہے کہ میرا اس میں کوئی قصور نہیں۔ جس کا قصور ہے اس کے بارے میں لکھنا بولنا "حضرت پیکا ایکٹ مدظلہ" کو دعوتِ شر دینا ہے۔
اب بوڑھی ہڈیوں میں کٹاپا برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی اس پر ستم یہ ہے کہ ہمارے ایک پرانے دوست دعویدار ہیں کہ آجکل جو گرفتار ہوتا ہے اس کے ساتھ "ناروا سلوک" کیا جاتا ہے یاد رہے یہ "ناروا سلوک" ہم نے آسان اردو ترجمہ کرکے لکھا ہے۔
معاف کیجئے گا ہم سوفٹ ریاست اور ہارڈ ریاست پر بات کرنا چاہتے ہیں لیکن ذہن اور قلم اِدھر اُدھر بھٹک جاتے ہیں۔ ویسے یہ بھٹک بھٹکا جانا صحت کے لئے اچھا ہے۔
دو تین دن ادھر قلم مزدور قبیلے کے چند محنت کش اکٹھے تھے قلم مزدوروں کی بدحالی مالکان کی لوٹ کھسوٹ اور حکومت و مالکان گٹھ جوڑ پر تفصیل سے بات ہوئی تب ہم نے وعدہ کیا تھا کہ قلم مزدوروں کے ابتر حالات اور ان کے استحصال پر ایک آدھ کالم لکھیں گے۔ ہم وعدے پر قائم ہیں اور ضرور لکھیں گے۔ فقیر راحموں کے بقول اس پر ہم سے بہتر کون لکھ سکتا ہے، وہ کیسے؟ ہم نے پوچھا بولے شاہ جی جس قلم مزدور کے چند زندہ و مرحوم اخباری مالکان ڈیڑھ پونے دو کروڑ روپے کے مقروض ہوں اس سے بہتر مالکان کی وارداتوں پر کون لکھ سکتا ہے۔
فقیر راحموں کی یہ بات سن کر ہمارے اندر کروڑ پتی والی فیلنگ ابھری۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے ماضی میں ایک بار ہم اپنی اہلیہ محترمہ کی وجہ سے سچ مچ کے کروڑ پتی ہوگئے تھے وہ تو برا ہو پراپرٹی ڈیلروں کا جنہوں نے دھوبی پٹرے مارے اور ہم اپنی اوقات میں واپس آگئے۔
زندگی کی کہانی کے اس حصے کے دو عدالتی کردار ابھی زندہ ہیں ایک تو و ہی جج جس نے ڈیڑھ کروڑ کا فراڈ کرنے والے ہمارے ملزم کی ضمانت ایسی تاریخ کو لے لی جس بارے ہم بھی آگاہ نہیں تھے دوسرے صاحب اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہوا کرتے تھے آجکل سپریم کورٹ میں جلوہ افروز ہیں انہوں نے ہماری درخواست کو لفٹ ہی نہیں کروائی۔
ارے بار دیگر معاف کیجئے گا بات دوسری جانب "کھسک" گئی۔ یہ پیکا ایکٹ مدظلہ اور گرفتاری کے بعد ناروا سلوک کی دہشت ہے کہ دل و دماغ کے ساتھ قلم بھٹک جاتے ہیں۔
اچھے ویسے ہمیں تو چھیاسٹھ برس کے سفر حیات میں ان میں مجموعی طور پر پانچ سال کی قیدوبند بھی شامل ہے کبھی یہ ملک سافٹ ریاست نہیں محسوس ہوا آپ کو محسوس ہوا ہو تو آگاہ کرکے عنداللہ ماجور ہوں۔
سوفٹ ریاست بٹوارے سے تو نہیں بنتی۔ بٹوارے کی بنیادوں میں خون، لاشیں اور ملبہ ہوتا ہے۔ خون اور لاشوں سے بھلا کوئی حسین شاہکار تخلیق ہوا؟ اپنا جواب نفی میں ہے۔
ہاں یہ درست ہے کہ محمدعلی جناح صاحب نے گیارہ اگست 1947ء والی تقریر کے علاوہ بھی ایک بار کہا تھا "پاکستان ایک تھیوکریٹ ریاست نہیں بلکہ سوشل ڈیموکریٹ ریاست ہوگا" اللہ بخشے اچھے وقتوں میں جیسے تیسے جناح صاحب رخصت ہوگئے آج ہوتے تو پیکا ایکٹ کے تحت دھرلئے جاتے۔ ان کے ذکر کو بھی اٹھا رکھئے۔
ویسے یہ سوفٹ ریاست ہوتی کیا ہے؟ جس میں قرارداد مقاصد منظور کرکے اس کا مذہب اور عقیدہ طے کرلیا جائے۔ مذہب کے اونٹ کو دستور کے خیمے میں زبردستی گھسادیا جائے۔ جس کا ایک وزیراعظم (سابق) بیروت کے ہوٹل میں مردہ پایا جائے۔ ایک کو پھانسی چڑھا دیا جائے اور ایک وزیراعظم کو لیاقت باغ کے باہر سڑک پر مارگرایا جائے یاد آیا ایک وزیراعظم کو لیاقت باغ کے اندر بھی مارا گیا تھا۔
سوفٹ ریاست میں چار بار فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا تین بار مارشل لاء لگایا ایک بار جرنیلی جمہوریت کی تختی گلے میں لٹکالی۔
اسی سوفٹ ریاست میں غیرریاستی نسل پرست اور فرقہ وارانہ عسکری تنظیموں کے تجربے ہوئے۔ ان تجربات نے جو درگت بنائی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ماسوائے تجربے کرنے والے "سائنسدانوں" کے۔ اب ہم ڈر کے مارے یہ بھی نہیں کہہ پاتے کہ "تمہارے پاس کوئی جنگ ہے؟ ہمارے پاس ایٹم بم ہے کہیں پڑے پڑے زنگ ہی نہ لگ جائے نگوڑے کو۔
پہلے تو ہم کہہ لیا کرتے تھے تمہارے پاس کوئی جنگ ہے؟ ہمارے پاس فوج ہے یہ بھی پوچھ لیتے تھے کہیں جہاد کا میدان گرم ہے ہمارے پاس مجاہدین ہیں اور وافر تعداد میں دستیاب ہیں۔
سفر حیات کے چھیاسٹھ برسوں کے مسافر نے سوفٹ ریاست دیکھی بھگتی۔ اب ہارڈ ریاست کیسی ہوگی؟ یہ ایک سوال ہے۔ فقیر راحموں کا دعویٰ ہے پہلے دلدل کو حلوے کی پرات سمجھتے رہے اب کنکروں کو متنجن سمجھیں گے۔
ایک تو یہ فقیر راحموں اسے کوئی خدا واسطے کا بیر ہے ہم سے۔ ابھی کچھ دیر پہلے کہہ رہا تھا شاہ اب سوچ سمجھ کر بولا لکھا کرو ورنہ میں تمہارے خلاف سرکاری گواہ بن کر جان چھڑالوں گا۔ اس ارشاد عالیہ پر حیرانی ہوئی۔ نہ ہوتی تو کیوں؟ ہماری حیرانی بھانپ کر کہنے لگا شاہ یہ جو تم سکیورٹی اسٹیٹ کی تکرار کرتے رہتے ہو کسی دن پیکا ایکٹ میں پھڑے جائو گے اور کیا لکھوں اسلامی جمہوریہ ایٹمی پاکستان کو؟ ہم نے پوچھا۔
موصوف نے کتاب اٹھائی اور ورزق گردانی میں جُت گیا۔ وہ جب کسی سوال کا جواب نہ دینا چاہے تو کتاب پڑھنا شروع کردیتا ہے۔ کتابوں پر یاد آیا کہ ہمارے پاس جمہوریت، انسانی حقوق اور روشن خیالی کے لئے گمراہ کرنے والی کچھ کتابیں ہیں سوچ رہے ہیں کہ اپنے وکیل دوستوں پے پوچھ پاچھ لیں کہ ہارڈ ریاست کی دہشت بڑھانے کے لئے آنے والے دنوں میں اگر گھر گھر تلاشی کے دوران یہ کتابیں ریاست کے ہاتھ لگ گئیں تو کوئی پرچہ شرچہ تو نہیں ہوجائے گا؟
صاحبو! قصہ مختصر یہ ہے کہ سوفٹ ریاست کے لچھن سب کے سامنے ہیں ہارڈ ریاست کیا ہوگی یہ سوچ سوچ کر تین دن سے سر میں شدید درد ہے۔ اہلیہ سے سردرد بارے بات کی تو بولیں آنکھوں کا معائنہ کروالیجئے۔
بس اس مشورے پر ہمیں وہ حکیم یاد آیا جس نے پیٹ درد کے مریض کو آنکھوں کی دوا دی تھی۔ مریض نے وجہ پوچھی تو حکیم بولا "ارے میاں اگر تمہاری بینائی ٹھیک ہوتی تو جلی ہوئی روٹی کیوں کھاتے؟"
بات پھر بھٹک گئی۔ سوفٹ ریاست اور ہارڈ ریاست، یعنی پہلے نرم ریاست تھی اب چنا چور گرم برانڈ ریاست ہوگی۔ چلیں دیکھتے ہیں ہارڈ ریاست کیا گل کھلائے گی جب سوفٹ ریاست تھی تو کون سا دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔
"خُشکا" ہی تھا یہی رہنے کا اندازہ ہے اس سے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے۔
لیجئے فقیر راحموں نے پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا ہے شاہ جی ہارڈ ریاست میں ارکان پارلیمنٹ وزیروں مشیروں کی تنخواہیں بڑھتی ہیں عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے سسکتے ہیں اور سرکاری ملازمین تنخواہیں نہ بڑھائے جانے کی خبریں سن کر احتجاج کی تیاریاں کرتے ہیں۔
یار سیدھی بات کہو "کرارڑی کا نام غلام فاطمہ" رکھنے کی تیاریاں ہورہی ہیں، ہم نے کہا۔