ستائیسویں رمضان، قیام پاکستان اور غلط بیانیاں
ہمیں صرف یہ یاد ہے کہ پاکستان چودہ اور پندرہ اگست 1947ءکی نصف شب بارہ بجے وجود میں آیا لیکن ہم یہ بھول چکے ہیں کہ اسلامی کیلنڈر کی رو سے پاکستان ستائیسویں رمضان کی شب معرض وجود میں آیا اور عام تصور کے مطابق ستائیسویں رمضان لیلة القدر ہوتی ہے۔ پہلا یومِ آزادی ستائیسویں رمضان 15اگست کو منایا گیا جو جمعة الوداع کا دن تھا۔ گویا یہ مبارک ترین لمحات تھے۔
اس کالم میں یومِ آزادی کی تقریبات کے حوالے سے میں دو غلط فہمیوں، سنی سنائی کہانیوں اور تخلیق کردہ افسانوں کے فسوں کا پردہ چاک کرنا چاہتا ہوں تاکہ تاریخ کو مسخ ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ تحقیق کس قدر جان سوزی، محنت اور یکسوئی کا تقاضا کرتی ہے۔ چھبیسویں رمضان چودہ اگست قیامِ پاکستان کے حوالے سے اہم دن تھا۔ اس روز برطانوی حکومت کے نمائندے اور آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں برطانوی عہدِ غلامی کے خاتمے اور اقتدار کی منتقلی کا اعلان کرنا تھا۔ کالم کا دامن تنگ ہے اسلئے تفصیلات سے گریز مجبوری ہے۔ آٹھ بج کر دس منٹ پر قائداعظم نامزد گورنر جنرل آف پاکستان اور ماؤنٹ بیٹن ایک بڑی بگھی میں دستور ساز اسمبلی کیلئے رخصت ہوئے۔ پھولوں کی پتیوں، فلک شگاف نعروں، جوش و خروش اور جذبوں کے درمیان سفر کرتے ہوئے وہ تقریبا نو بجے صبح اسمبلی ہال میں پہنچے۔ شاہ برطانیہ کے نمائندے نے انتقالِ اقتدار کا اعلان کیا۔ اور کہا کہ کل سے زمامِ اقتدار حکومت پاکستان کے پاس ہوگی۔ اس کے بعد قائداعظم نے خطاب فرمایا اور برطانوی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اجلاس ختم ہوا۔ قائداعظم اور ماؤنٹ بیٹن اپنی نشستوں سے اٹھے اور اسمبلی کی مین انٹرنس کی طرف بڑھے۔ تمام اراکین اسمبلی اور معززین منظر دیکھنے کیلئے باہر جمع ہو گئے۔ اسمبلی کے دروازے پر برطانوی جھنڈا لہرا رہا تھا اسے فوج کی پسپائی کی دھنوں میں بگل کی آواز کے ساتھ اتارا گیا اور تہہ کرکے قائداعظم نے ماؤنٹ بیٹن کے حوالے کر دیا۔ پھر پاکستان کا قومی پرچم جسے اسمبلی منظور کر چکی تھی، قائداعظم نے خود لہرایا۔ اسے 31 توپوں کی سلامی دی گئی۔ واپسی پر قائداعظم اور ماؤنٹ بیٹن نواب آف بہاولپور سے ادھار مانگی گئی پرانی رولز رائس پر گورنر جنرل ہاؤس پہنچے اور ماؤنٹ بیٹن فورا دلی کیلئے محوِ پرواز ہو گئے۔
26 اور 27 رمضان (14اور 15اگست) کی نصف شب بارہ بجے جب ریڈیو سے انگریزی میں ظہور آذر اور اردو میں مصطفی ہمدانی نے یہ اعلان کیا کہ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے تو ساری قوم خوشیوں اور جذبوں سے جھوم اٹھی۔ پھر مولانا زاہد قاسمی نے عظیم کامیابی کی مناسبت سے سور الفتح کی پہلی چار آیات کی تلاوت اور ترجمہ کی سعادت حاصل کی۔ سورج طلوع ہونے پر پہلے یومِ آزادی کو 31توپوں کی سلامی دی گئی۔ 27رمضان، 15اگست کو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری ہونا تھی۔ یہ تقریب گورنمنٹ ہاؤس کے وسیع کورٹ یارڈ اور سرسبز لان میں منعقد ہوئی۔ جہاں نئی کابینہ کے اراکین کے علاوہ بہت سی اہم شخصیات اور سفارتی نمائندے بھی موجود تھے۔ قائداعظم پورے نو بجے اپنے تین اے ڈی سی کیساتھ تشریف لائے۔ اسٹیج پر روسٹرم کے پاس دو کرسیاں رکھی تھیں ایک گورنر جنرل کیلئے، دوسری لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سر میاں عبدالرشید کیلئے، جنہوں نے حلف لینا تھا۔ ٹی وی اینکرز اور کالم نگاروں نے خاکے میں سنسنی اور رنگینی کا رنگ بھرنے کیلئے یہ افسانہ تخلیق کر لیا ہے کہ قائداعظم آتے ہی کرسی پر بیٹھ گئے۔ سر عبدالرشید مسکرائے اور کہا کہ یہ کرسی گورنر جنرل کیلئے مخصوص ہے، آپ نے ابھی حلف نہیں اٹھایا، اسلئے آپ ابھی نہیں بیٹھ سکتے۔ قائداعظم نے کہا I AM VERY SORRY اور اٹھ کر دوسری کرسی پر بیٹھ گئے۔ تحقیق کی تو پتا چلا کہ سارا واقعہ افسانہ ہے جس کا آغاز روزنامہ احسان کے عبدالقدیر رشک نے 1999ءمیں کیا تھا۔ انٹرویوز، کاغذات، کتابیں اور یادداشتیں پڑھیں تو جھوٹ کا بھانڈا پھوٹا اور سچ سامنے آیا۔ اللہ بھلا کرے ایک مہربان کا کہ انہوں نے مجھے وڈیو بھجوا دی جو حکومت پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ نے اس تقریب کی کوریج کیلئے بنائی تھی۔ اسے کئی دفعہ دیکھ چکا ہوں۔ قائداعظم نو بجے تشریف لاتے ہیں، دو اے ڈی سی آگے ایک پیچھے چل رہا ہے۔ مہمان کرسیوں پر تشریف فرما ہیں۔ قائداعظم کے آتے ہی سارے مہمان احتراما کھڑے ہوتے ہیں۔ قائداعظم انہیں اپنے مخصوص انداز میں سلام کرتے ہوئے ایک اے ڈی سی کے ساتھ روسٹرم یا اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں۔ چیف جسٹس بھی کھڑے ہوئے ہیں۔ تقریب کا آغاز ہوتا ہے تو مسلم لیگی کارکن الہی بخش کو تلاوت کیلئے بلایا جاتا ہے۔ لاثانی فتح اور تاریخی کامیابی کے اس موقع پر الہی بخش سور النصر کی تلاوت کرتے ہیں جو سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کے مطابق نازل ہونے والی آخری سورة تھی۔
تلاوت کے فورا بعد کابینہ کے سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی نے حکم نامہ پڑھا، حلف برداری شروع ہو گئی۔ اگرچہ حلف برطانوی حکومت کی طرف سے ملا تھا لیکن قائداعظم نے خود اپنے ہاتھ سے اس میں کچھ ترامیم کی تھیں۔ قائداعظم پربرطانیہ کی وفاداری کے حلف کا الزام لگانے والوں کو علم ہی نہیں کہ قائداعظم کے حلف کے آخری الفاظ یہ تھے میں پاکستان کے بننے والے آئین کا وفا دار رہوں گا۔ میرے سامنے وڈیو چل رہی ہے اور قائداعظم کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں۔ اس کے بعد قائداعظم نے نئی کابینہ سے حلف لیا اور پھر اسٹیج سے نیچے آ کر پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔ جھنڈا فضا میں پھیلا تو اسے 31توپوں کی سلامی دی گئی۔ اس کے بعد گورنر جنرل کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ قائداعظم کے حلف اٹھانے تک سارے مہمان کھڑے رہے۔ حلف اٹھانے کے بعد قائداعظم کرسی پر بیٹھے تو حاضرین بھی بیٹھ گئے۔ اس تحقیق کے بعد یہ طے ہو گیا کہ
1۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری کی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔
2۔ قائداعظم نے معمول کے حلف کے ساتھ اپنے مذہب اور مستقبل کے آئین پاکستان سے وفاداری کا عہد کیا۔
3۔ قومی پرچم قائداعظم نے خود لہرایا۔ یہ دعوی کہ پرچم کشائی مولانا شبیر احمد عثمانی سے کروائی گئی تھی بالکل بے بنیاد ہے۔
4۔ قائداعظم کا کرسی پر بیٹھنا اور اٹھنا محض افسانہ ہے۔