ترک ڈرامہ اور دیسی لبرل
آج کل پی ٹی وی پر ترک ڈرامہ ارطغرل غازی جسے اردو زبان میں ڈب کیا گیا ہے چل رہا ہے۔ ترک ڈرامہ کوئی نئی چیز نہیں ہے آپ اگر ماضی قریب میں چلے جائیں تو آپ کو نسیم حجازی کے ناول یہی کچھ بتا رہے ہیں کہ جو ان ترک ڈراموں میں ہیں۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ جذبہ جہاد کو کیسے ابھارا گیا۔ میں سمجھتا ہوں وزیر اعظم عمران خان کے بہت سے اچھے کاموں میں سے یہ کام بھی شمار کیا جائے گا۔ اب تو ہمارے وزیر بھی علمی ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، احمد فراز جب جدہ آتے تھے تو ہمیں ان سے ملنے کا موقع ملتا رہتا تھا والد صاحب نے ان سے پوچھا کہ آج کے بچے اردو سے دلچسپی نہیں رکھتے تو ان کا کہنا تھا کتاب ان کے سرہانے رکھ دیں خود پڑھیں گے۔ وہ جن بچوں کو مشورہ دے رہے تھے ان میں، میں بھی شامل تھا۔ ہم نے ان کو پڑھا اور دیگر کتب بھی۔ ترک ڈراموں کے بارے میں کچھ لوگ بڑے شوق سے کہتے ہیں، جی میں نے ایک قسط بھی نہیں دیکھی۔ لبرل دیسی لکھاری اگر اسے نہیں دیکھتے تو اس کے پیچھے کچھ وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ کسی غازی کی بات ہی نہیں سننا چاہتے۔ انہیں اسلام کی نشاة ثانیہ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ وہ ترکی سے نفرت نہیں کرتے انہیں نفرت مسلمانوں کے اچھے دور کو دکھانے سے ہیں۔ آج تو وہ نیشنلزم کی بات کرتے ہیں کہ ہمارے ہیروز کم ہیں جو ہمیں ترکی کے ہیرو دکھائے جا رہے ہیں۔ ان کی اس بات میں وزن ہے لیکن جب آپ قومی ہیروز کی بات کریں گے تو ایسے دیسی لبرلز کو راجہ رنجیت سنگھ، بھگت سنگھ، راجہ داہر یاد آئے گا اس وقت یہ احمد خان کھرل، علم دین شہید کی بات نہیں کریں گے۔ نیتوں میں فتور ہو تو سو بہانے۔ انہیں چودھری رحمت علی کا قد چھوٹا کرنے میں دلچسپی ہے۔ یہ کبھی ان کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی بات نہیں کریں گے۔
قارئین ترکوں کو پاکستان سے بہت پیار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تحریک خلافت ہے، جب عثمانی سلطنت کے حصے بخرے کئے جا رہے تھے تو مسلمانوں نے ان کی حمائت میں ہند میں جلوس نکالے۔ اور بڑے پیمانے پر ہجرت بھی کی۔ سعودی عرب میں رہے تو ترکوں کا پاکستانیوں سے پیار قابل دید تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ترک صدر اردگان جب بھی بولتے ہیں لگتا ہے کہ امت مسلمہ کا حقیقی معنوں میں ایک قائد بول رہا ہے۔
لبرل دیسیوں کو یہ بات کہاں اچھی لگتی ہے کہ کوئی دین اسلام کی بات کرے۔ ان لوگوں کا ذریعہ معاش دو قومی نظریہ سے دشمنی ہے۔ جتنا پاکستان اور اسکے اداروں کیخلاف بولیں گے اتنے ڈالر کھرے کریں گے۔ میں ایک بار پھر ان کالموں کے ذریعے اپنی حکومت کے با اختیار لوگوں سے مطالبہ کروں گا کہ نسیم حجازی کے ناولوں پر ڈرامہ سیریل بنائے۔ ٹیپو سلطان پر ڈرامہ بنایا جائے۔ پاکستان ٹی وی کو مستقبل میں لے جانے کی بجائے ماضی میں لے جائیں۔ اس ڈرامے کے ہر کردار کو دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ تاریخ میں مسلمانوں کو جو سب سے زیادہ نقصان دیا وہ داخلی دشمنوں نے دیا۔ یہ ہماری تاریخ میں درج ہے کہ میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگوں نے ہمیں شکست دلوائی۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تحریروں سے زیادہ لوگ ڈراموں کو دیکھتے ہیں۔ میری رگوں میں مجاہدین ختم نبوت کا خون ہے میرے دادا حضور چودھری بر خودار گجر امیر شریعت کے خادم کی حیثیت سے ان کے ساتھ ہری پور ہزارہ سے پورے ہند کا سفر کیا ان کے خادم تھے اور میرے والد 1974ءکی تحریک ختم نبوت کے اسیر رہے۔ یہ جذبہ جہاد ہی در اصل ان دیسی لبرلز کے پیٹ میں مروڑ ڈالتا ہے۔ ترک ڈرامے نے جوانوں میں ایک لہر پیدا کی ہے۔ باقی یہ لبرلز نہ کل کچھ کر سکے نہ آج اور نہ ہی کل۔