زندگی جینے کی تعلیم، نوجوانی کی سمتوں کا شعوری تعین

جب کوئی نوجوان جسمانی، ذہنی اور جذباتی تبدیلیوں کے مرحلے سے گزرتا ہے تو وہ ایک نئی زندگی میں داخل ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اسے صرف تعلیمی درجے یا امتحانی نمبروں کی نہیں، بلکہ اپنی ذات کو پہچاننے، سمجھنے اور سنوارنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام اسے صرف درسی نصاب، ماضی کے کارنامے اور امتحانات کی مشینی تیاری تک محدود رکھتا ہے۔ نتیجتاً، وہ یہ نہیں سیکھتا کہ زندگی کو کیسے جینا ہے، ناکامی کو کیسے برداشت کرنا ہے، یا جذبات کو کیسے قابو میں رکھنا ہے۔ ضرورت ایک ایسی تعلیم کی ہے جو ذہن کے ساتھ ساتھ دل کو بھی جِلا دے اور انسان کو صرف طالب علم نہیں بلکہ باشعور شہری بنائے۔
ایسی تعلیم کو عالمی ادارۂ صحت نے "زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم" کا نام دیا ہے، جو نوجوانوں کو خود آگاہی، تنقیدی سوچ، مؤثر ابلاغ، فیصلہ سازی اور جذباتی توازن جیسی بنیادی صلاحیتیں سکھاتی ہے۔ یہ تعلیم نہ صرف علمی بلکہ سماجی، تہذیبی اور اخلاقی تربیت بھی فراہم کرتی ہے تاکہ نوجوان خود کو بہتر طور پر سمجھ سکیں، دوسروں سے مؤثر تعلق قائم کر سکیں، اختلاف رائے کو برداشت کرنا سیکھیں اور زندگی کے مشکل فیصلے باشعور انداز میں کر سکیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، اس قسم کی عملی تربیت صرف تعلیمی نہیں بلکہ قومی ضرورت ہے۔ آج کے نوجوان ذہنی دباؤ، بے سمتی، نشہ، جنسی الجھنوں اور معاشرتی تشدد جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ زندگی سے متعلق عملی تربیت انہیں یہ سکھاتی ہے کہ وہ "نہیں" کہنا سیکھیں، خود پر اعتماد کریں، اپنی جسمانی اور جذباتی حدود کو پہچانیں اور اپنی زندگی کے اہم فیصلے خود لیں۔
اس تعلیم میں وہ اہم باتیں شامل ہیں جو عام طور پر نصاب سے باہر سمجھی جاتی ہیں، مگر حقیقتاً یہی تعلیم کا لازمی حصہ ہیں۔ تنقیدی سوچ سکھاتی ہے کہ آنکھ بند کرکے کچھ بھی نہ مانا جائے بلکہ سوال کیا جائے۔ فیصلہ سازی سکھاتی ہے کہ کب خاموش رہنا ہے اور کب آواز بلند کرنی ہے۔ مؤثر گفتگو سکھاتی ہے کہ بات کس انداز سے کہنی ہے اور دوسروں کی بات سننے کا سلیقہ کیسے پیدا کرنا ہے۔
دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کے ادارے، جیسے یونیسف اور UNFPA، اس تعلیم کو نوجوانوں کی شخصیت سازی اور صحت مند زندگی کے لیے لازمی قرار دے چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی غیر سرکاری ادارے جیسے "آہنگ"، "روزن" اور "ادارہ تعلیم و آگہی" مختلف اسکولوں اور بستیوں میں عملی تربیت کے کامیاب ماڈل پیش کر چکے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں یہ تربیت دی گئی، وہاں نوجوانوں میں خود اعتمادی، جذباتی استحکام، تعلیمی کارکردگی اور سماجی رویوں میں نمایاں بہتری آئی۔
جب نوجوان سنِ بلوغت میں داخل ہوتے ہیں، تو ان کے ذہن میں سوالات جنم لیتے ہیں جو اگر مہذب انداز سے حل نہ کیے جائیں، تو وہ فحش مواد، غلط صحبت، یا نامناسب تجربات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ زندگی کی عملی تربیت ان سوالات کا باوقار اور معلوماتی جواب مہیا کرتی ہے، تاکہ نوجوان جنسی خودمختاری، جسمانی تحفظ اور باہمی احترام کو سمجھ سکیں۔
اسلامی تعلیمات میں بھی زندگی کی مہارتوں کی اہمیت واضح ہے۔ قرآن مجید غور و فکر، ضبط نفس، مشورے، حسنِ اخلاق اور نرم گفتاری کی تعلیم دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے نوجوانوں کی شخصیت پر خصوصی توجہ دی، ان کی رائے سنی، ان کی غلطیوں پر شفقت فرمائی اور ان کی توانائیوں کو مثبت کاموں میں لگایا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ یہ تربیت مغربی تصور ہے، درست نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی و انسانی ضرورت ہے جسے اسلامی تناظر میں اور بھی مؤثر طریقے سے اپنایا جا سکتا ہے۔
افسوس کہ ہمارے تعلیمی ادارے آج بھی صرف امتحانی درجہ بندی، داخلہ امتحانات اور روایتی تدریس میں الجھے ہیں۔ بچوں کو نہیں سکھایا جاتا کہ اگر کوئی ان کی جسمانی حدود کی خلاف ورزی کرے تو وہ کیا کریں؟ اگر وہ کسی ذہنی کشمکش کا شکار ہوں تو کس سے بات کریں؟ یا اگر کوئی دوست انہیں غلط راہ دکھائے تو انکار کیسے کریں؟ یہی وہ خلا ہے جو زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم پُر کر سکتی ہے۔
معاشرے کی ترقی صرف بلند عمارتوں سے نہیں، بلکہ باشعور نوجوانوں سے ہوتی ہے۔ اگر ہم آج اپنی تعلیم میں زندگی کی مہارتوں کو شامل کر لیں، تو کل ہمیں خودکشی، نشہ، جنسی تشدد، یا بے سمتی کے خلاف مہمات چلانے کی ضرورت شاید نہ رہے۔ ایک باشعور نوجوان نہ صرف اپنی ذات کو سنبھال سکتا ہے بلکہ معاشرے کو بھی نکھارنے والا بن جاتا ہے۔
زندگی کی تعلیم کا مطلب صرف جینا نہیں، بلکہ شعوری انداز میں جینا ہے ایک ایسا شعور جو نوجوان کو صرف سند یافتہ نہیں، بلکہ باوقار، باصلاحیت اور باکردار انسان بناتا ہے۔ یہی وہ تعلیم ہے جو کل کے پاکستان کو روشن کر سکتی ہے۔

