Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Ye Ibrat Ki Ja Hai Tamasha Nahi Hai

Ye Ibrat Ki Ja Hai Tamasha Nahi Hai

یہ عبرت کی جاہ ہے تماشہ نہیں ہے

"یہ عبرت کی جاہ ہے تماشہ نہیں ہے"۔ یہ مصرعہ دراصل انسانی تاریخ کے ہر ورق پر ثبت ایک ایسی صدا ہے جو وقت کے ہر دور میں طاقت کے نشے میں مست انسانوں، سلطنتوں اور قوموں کو جھنجھوڑتی آئی ہے۔ لیکن صد افسوس کہ اہلِ دنیا نے اس صدا کو اکثر نظر انداز کیا اور وہی انجام پایا جس سے ماضی کی قومیں دوچار ہوئیں۔ کھنڈرات میں تبدیل ہو جانے والے محلات، مٹی میں دفن ہو جانے والی عظیم الشان سلطنتیں اور وقت کے طوفانوں میں بکھر جانے والی طاقتیں آج بھی خاموش مگر واضح الفاظ میں کہہ رہی ہیں کہ ظلم، ناانصافی، تکبر اور طاقت کا غرور ہمیشہ خسارے اور بربادی پر منتج ہوتا ہے۔

انسانی تاریخ کا ایک عجیب مگر ناقابلِ انکار پہلو یہ ہے کہ ہر عہد کی سپر پاور اپنے آپ کو ناقابلِ شکست اور دائمی سمجھتی رہی ہے، لیکن چند دہائیاں یا زیادہ سے زیادہ چند صدیاں گزرنے کے بعد وہی طاقتیں قصۂ پارینہ بن گئیں۔ رومی سلطنت، فارسی سلطنت، فرعونی اقتدار، بنی اسرائیل کی مختلف بادشاہتیں، یونانی تہذیب، اندلس کی اسلامی ریاست، خلافتِ عباسیہ، سلطنتِ عثمانیہ اور آخر میں سوویت یونین کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ ان سب نے دنیا کو ہلا دینے والی طاقت کے مظاہر دکھائے مگر آخرکار وقت کے تھپیڑوں میں بہہ گئیں۔ ان کے زوال کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن ایک مشترک نکتہ ہمیشہ نمایاں رہا: عدل و انصاف کے تقاضوں کی پامالی، ظلم و استبداد کا فروغ، داخلی بگاڑ اور اخلاقی اقدار کی تباہی۔

آج کی دنیا میں جب ہم امریکہ اور اسرائیل کو دیکھتے ہیں تو وہی عوامل نمایاں دکھائی دیتے ہیں جو ماضی کی تباہ شدہ سلطنتوں کے زوال کا سبب بنے۔ امریکہ بلاشبہ جدید دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور اقتصادی قوت ہے۔ اس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا دفاعی بجٹ، جدید ترین اسلحہ، ٹیکنالوجی اور مالیاتی اداروں پر کنٹرول ہے۔ لیکن داخلی طور پر اس کے مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ نسلی امتیاز، طبقاتی خلیج، امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج، صحت و تعلیم جیسے بنیادی مسائل میں محرومیاں اور سب سے بڑھ کر اخلاقی اقدار کا انحطاط۔ امریکی معاشرے میں دولت اور طاقت کی دوڑ نے انسانیت، اخوت اور انصاف کی اقدار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ عالمی سطح پر اس کی پالیسیوں نے کئی خطوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا۔ عراق، افغانستان، ویتنام اور لاطینی امریکہ کی مثالیں گواہ ہیں کہ جب طاقت کا استعمال انصاف اور حق کے اصولوں کے بغیر کیا جائے تو وہ دیرپا نہیں رہتا۔

اسرائیل کی مثال بھی عبرت سے خالی نہیں۔ محض چند دہائیوں میں فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم، زمینوں پر قبضے، انسانی حقوق کی پامالی اور جارحانہ رویہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم کے بل بوتے پر کھڑی کی جانے والی کوئی بھی ریاست زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ فرعون کی سلطنت اپنی تمام شان و شوکت کے باوجود نیست و نابود ہوگئی، چنگیز خان کی فتوحات محض وقتی تھیں، اندلس میں مسلمانوں کا زوال بھی اسی وقت شروع ہوا جب انصاف اور علم کی جگہ سازش اور تعیش نے لے لی۔ آج اسرائیل بھی اسی راستے پر ہے۔ وہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ عسکری قوت اور بیرونی سرپرستی اس کو ہمیشہ بچائے رکھے گی تو یہ خام خیالی ہے۔

ان سلطنتوں اور موجودہ طاقتوں کے درمیان ایک اور مماثلت داخلی انتشار ہے۔ رومی سلطنت جب زوال پذیر ہوئی تو بیرونی حملہ آوروں سے زیادہ اندرونی بگاڑ نے اسے کمزور کیا۔ اشرافیہ کی عیاشیاں، بدعنوانی، عوام کی فلاح سے غفلت اور فوج میں کمزوریاں۔ اسی طرح عباسی خلافت بھی داخلی انتشار اور سازشوں کی وجہ سے بکھر گئی۔ سوویت یونین عسکری طور پر دنیا کی دوسری بڑی طاقت تھی مگر معیشت کی ناکامی، داخلی قومیتوں کا بغاوت پر آمادہ ہونا اور سیاسی جمود اس کے خاتمے کا سبب بنا۔ آج امریکہ بھی اندرونی سیاسی تقسیم اور عدم استحکام سے دوچار ہے۔ حالیہ برسوں میں صدارتی انتخابات، کانگریس میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندانہ تقسیم اور معاشی بحرانوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اندرونی اتحاد اور انصاف کے بغیر بڑی سے بڑی طاقت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔

اس بحث کا ایک اور پہلو ماحولیاتی اور فطری عوامل ہیں۔ ماضی کی کئی تہذیبیں قدرتی آفات یا وسائل کی کمی کی وجہ سے ختم ہوئیں۔ مایا تہذیب کا زوال جزوی طور پر شدید قحط اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوا۔ آج کی دنیا بھی ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ہے۔ لیکن بدقسمتی سے طاقتور ممالک نے ان خطرات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے اپنے وقتی معاشی مفادات کو ترجیح دی۔ امریکہ کی پالیسیوں میں کئی بار ماحولیات کے عالمی معاہدوں سے دستبرداری یا ان کی خلاف ورزی دیکھنے میں آئی۔ اس کے نتائج نہ صرف دنیا بلکہ خود امریکہ کے لئے بھی خطرناک ہیں۔ اسرائیل کے خطے میں پانی کی کمی اور ماحولیاتی دباؤ پہلے ہی بڑے بحران کا پیش خیمہ ہیں۔ اگر قدرتی قوانین کی خلاف ورزی جاری رہی تو یہ طاقتیں بھی وہی انجام پائیں گی جو ماضی کی تہذیبوں کو ملا۔

اسلامی نقطۂ نظر سے بھی یہ اصول واضح ہے کہ عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم رہے گا چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو اور ظلم پر مبنی معاشرہ باقی نہیں رہ سکتا چاہے وہ مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ یہی اصول ہمیں قرآن و سنت میں نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی اقوام کے انجام کو قرآن میں بیان کیا تاکہ آنے والی نسلیں عبرت حاصل کریں۔ عاد، ثمود، فرعون اور بنی اسرائیل کی مثالیں اسی مقصد کے لئے ہیں۔ لیکن انسان اپنی سرکشی میں ان نشانیوں کو نظر انداز کرتا رہا ہے۔

آج کا دور ایک اور پہلو سے بھی اہم ہے، عالمی ربط و تعلق کی وجہ سے کسی بھی طاقت کی پالیسی صرف اس تک محدود نہیں رہتی بلکہ پوری دنیا پر اثر ڈالتی ہے۔ اگر امریکہ یا اسرائیل انسانی حقوق پامال کرتے ہیں تو اس کا ردعمل پوری دنیا میں آتا ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور عالمی ادارے اس کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان طاقتوں کے لئے اپنے ظلم کو چھپانا مشکل ہوگیا ہے۔ عوامی سطح پر ان کے خلاف ردعمل بڑھ رہا ہے اور ان کی اخلاقی حیثیت کمزور ہو رہی ہے۔

آئندہ کے امکانات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا ایک بڑی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ نئی ابھرتی ہوئی طاقتیں (چین، بھارت، روس، ترکی وغیرہ) عالمی نظام کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر امریکہ اور اسرائیل نے اپنی پالیسیوں میں انصاف، انسانی حقوق اور عالمی تعاون کو شامل نہ کیا تو وہ رفتہ رفتہ تنہا ہو جائیں گے۔ طاقت کا توازن ہمیشہ بدلتا ہے، لیکن تاریخ یہ کہتی ہے کہ بقا صرف ان قوتوں کو ملتی ہے جو انصاف اور انسانی وقار کو مقدم رکھتی ہیں۔

لہٰذا عبرت یہی ہے کہ کھنڈرات کو تماشا نہ سمجھا جائے بلکہ ان سے سبق لیا جائے۔ رومی محلات، اندلس کی مسجدیں، بغداد کی لائبریریاں اور سوویت یونین کے کھنڈرات سب چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ طاقت کے نشے میں ظلم اور ناانصافی کے ساتھ کھڑی ہونے والی سلطنت زیادہ دیر باقی نہیں رہتی۔ امریکہ اور اسرائیل کو اگر اپنی طاقت کو پائیدار بنانا ہے تو انہیں انصاف، برابری، انسانی حقوق اور ماحولیاتی ذمہ داریوں کو اپنانا ہوگا۔ ورنہ وقت کا پہیہ انہیں بھی وہیں لا کھڑا کرے گا جہاں ماضی کی عظیم طاقتیں دفن ہیں۔

یہ کالم محض ماضی کی یاد دہانی نہیں بلکہ حال کی تنبیہ اور مستقبل کی پیشن گوئی بھی ہے۔ اگر ہم نے عبرت حاصل نہ کی تو آنے والی نسلیں ہماری موجودہ دنیا کو بھی محض کھنڈرات اور عبرت گاہ کے طور پر یاد کریں گی اور پھر کوئی اور شاعر اسی طرح کہے گا: "یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں ہے"۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari