وہ جو جولی نے دیکھا، ہم کب دیکھیں گے؟

پاکستان کی حالیہ تاریخ میں اگر کسی ایک لمحے نے عالمی برادری کے سامنے ہماری ریاستی ترجیحات، حکومتی اخلاقیات اور اشرافیہ کی بے حسی کو بے نقاب کیا تو وہ لمحہ ستمبر 2010ء کا تباہ کن سیلاب تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کا 20 فیصد رقبہ پانی میں ڈوب چکا تھا، دو کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہو گئے تھے، ہزاروں اسکول، سڑکیں، پل اور فصلیں تباہ ہو چکی تھیں اور قومی معیشت 10 ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات سے دوچار ہوئی تھی (World Bank Report 2010)۔
انہی دنوں اقوام متحدہ کی سفیر، مشہور ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی (جو اس سے قبل 2005 میں تباہ کن زلزلے کے موقع پر جب ہزاروں افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے تھے متاثرین کی حالت زار کو دنیا کے سامنے لانے اور امدادی سرگرمیوں کو تقویت دینے کے لئے پاکستان کا دورہ کرچکی تھیں) دوبارہ پاکستان کا دورہ کیا۔ ان کے دورے کا مقصد سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا مشاہدہ کرنا، زمینی حقائق اقوام متحدہ کے سامنے پیش کرنا اور دنیا کو پاکستان کی مدد پر آمادہ کرنا تھا۔
تاہم جو کچھ انہوں نے دیکھا، وہ صرف قدرتی آفت کا منظرنامہ نہ تھا، بلکہ ایک سیاسی و اخلاقی بحران کی زندہ تصویر تھی۔ اپنی واپسی پر انجلینا جولی نے اقوام متحدہ میں جو رپورٹ پیش کی، وہ آج بھی UNOCHA اور UNHCR کے آرکائیوز میں محفوظ ہے اور پاکستان کے لیے ایک شدید سفارتی جھٹکا ثابت ہوئی۔ رپورٹ میں انہوں نے تحریر کیا کہ انہیں دکھ اس بات کا ہوا کہ سیلاب زدگان، جن کی زندگیوں کے باقی ماندہ سہارے بھی پانی میں بہہ چکے تھے، انہیں حکومت کے بااثر افراد کی ہدایت پر ان سے ملنے سے روکا جا رہا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب انسانیت، پروٹوکول کے سائے میں دم توڑ رہی تھی۔
انجلینا جولی کی 2010ء کے سیلاب کے بعد اقوامِ متحدہ میں پیش کردہ رپورٹ نے پاکستان کی حکومت، اشرافیہ اور امدادی نظام پر کئی تلخ مگر سچ پر مبنی سوالات اٹھائے۔ یہ رپورٹ صرف ایک فنی بیان نہیں تھی بلکہ ایک آنکھوں دیکھی، دل سے محسوس کی گئی اور دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی گواہی تھی۔
انجلینا جولی نے یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور پریس کانفرنس کے ذریعے پیش کی، جس کے اقتباسات بین الاقوامی میڈیا (خصوصاً CNN، BBC، Reuters) میں شائع ہوئے۔ اردو ترجمہ اور خلاصہ درج ذیل ہے:
"میں نے اپنی زندگی میں بہت سے پناہ گزین دیکھے، جنگوں کے تباہ شدہ علاقے دیکھے، مگر جو کچھ میں نے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھا، وہ ایک مکمل انسانی سانحہ تھا۔ لاکھوں لوگ پانی میں گھرے ہوئے تھے اور اُن کے لیے نہ خوراک تھی، نہ پینے کا صاف پانی، نہ دوائیں۔ لیکن جو چیز سب سے زیادہ دل دہلا دینے والی تھی، وہ حکومت اور اشرافیہ کی لاتعلقی تھی"۔
"میں نے ایسے متاثرین دیکھے جو کئی دنوں سے ایک خشک ٹیلے پر بیٹھے تھے، ان کے پاس نہ کپڑا تھا، نہ جوتے، نہ چھت۔ مگر ان کے قریب سے گزرنے والے حکومتی وفود صرف تصویریں کھنچواتے رہے اور کچھ بھی فراہم نہ کیا"۔
"پاکستان کے امیر طبقے نے نہ صرف اس بحران سے آنکھیں چرائیں بلکہ کئی علاقوں میں امدادی سامان روک کر، یا سیاسی بنیادوں پر تقسیم کرکے انسانی المیہ کو بڑھا دیا"۔
"میں عالمی برادری سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ صرف حکومتِ پاکستان پر انحصار نہ کرے۔ ہمیں براہ راست متاثرین کی مدد کرنی چاہیے، کیونکہ اگر ہم نے دیر کی، تو لاکھوں جانیں خطرے میں ہیں "۔
"میں پاکستانی عوام سے متاثر ہوئی ہوں۔ ان میں جینے کا حوصلہ ہے، مگر انہیں بے حس حکومتی نظام نے تنہا چھوڑ دیا ہے"۔
جولی نے واضح کیا کہ سیلاب کی شدت سے زیادہ خطرناک چیز ریاستی غفلت تھی۔ پاکستان کے اشرافیہ طبقے کی امدادی لاتعلقی کو، غیر انسانی قرار دیا۔ انہوں نے UNHCR، عالمی بینک اور دیگر تنظیموں سے براہ راست مدد کی اپیل کی، کیونکہ حکومتِ پاکستان پر اعتبار ممکن نہیں رہا تھا۔ پاکستانی عوام کی ہمت، برداشت اور صبر کو خراج تحسین پیش کیا۔
انجلینا جولی کی اس رپورٹ نے دنیا کو پاکستان کے اصل زمینی حقائق سے آگاہ کیا۔ عالمی امدادی اداروں کا اعتماد سرکاری اداروں سے ہٹا کر غیر سرکاری تنظیموں کی طرف منتقل کیا۔ پاکستانی عوام کو یہ پیغام دیا کہ دنیا ان کی بے بسی کو دیکھ رہی ہے اور کوئی ہے جو ان کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔
رپورٹ میں یہ جملہ خاص طور پر دنیا بھر میں وائرل ہوا:
"I was served a lavish meal while people outside were fighting for a bag of flour. "
یہ بیان CNN، BBC، Al Jazeera اور NYT جیسے معتبر اداروں نے شائع کیا، جس سے پاکستان کا عالمی تشخص شدید مجروح ہوا۔ اقوام متحدہ کی مشاورتی کونسل برائے انسانی امداد (IASC) نے اسی رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان کو "fragile aid recipient" قرار دیا اور کئی بین الاقوامی ڈونر اداروں نے امداد کو مشروط کر دیا کہ جب تک مالی شفافیت، فضول اخراجات پر قابو اور حقیقی ریلیف حکمت عملی نہ اپنائی جائے، امداد محدود رہے گی۔
یہ واقعہ اب پندرہ سال پرانا ہو چکا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کچھ سیکھا؟ جواب بدقسمتی سے "نہیں" ہے۔
2022ء میں پاکستان ایک بار پھر موسمیاتی بحران کی لپیٹ میں آیا۔ اقوام متحدہ کی "Climate Resilience Report 2023" کے مطابق، اس بار بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے، 1700 سے زائد اموات ہوئیں اور 33 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان ہوا۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے ہیلی کاپٹر دورے، میڈیا پر فوٹو سیشن اور عالمی امداد کی اپیلیں وہی پرانی روایت بن کر ابھریں، لیکن زمینی حقائق بدستور خوفناک رہے۔ نیویارک ٹائمز نے ایک بار پھر لکھا:
"The real flood in Pakistan is not of water, but of corruption and incompetence. "
شفافیت کے فقدان نے عالمی ڈونر اداروں کو ہچکچاہٹ میں مبتلا رکھا۔ EU Humanitarian Office نے اپنی رپورٹ (ECHO Factsheet، 2023) میں واضح کیا کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کا صرف 28 فیصد براہ راست متاثرین تک پہنچا، باقی انتظامی اخراجات، سیاسی تشہیر اور پراکسی این جی اوز میں ضائع ہوگیا۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ انجلینا جولی نے 2022 میں ایک بار پھر پاکستان کا دورہ کیا اور سیلاب متاثرین سے ملاقات کی، مگر اس بار انہوں نے وزیراعظم یا حکومتی نمائندوں سے ملاقات سے اجتناب کیا۔ لاہور میں ہونے والی ایک تقریب میں ان کا کہنا تھا:
"The people of Pakistan have warmth and resilience. But their leaders need to show humility and accountability. "
انجلینا جولی کی رپورٹ کوئی isolated واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ پاکستان کے حکمران طبقے کے اس رویے کا عکاس تھی جو عوامی المیوں کے دوران بھی بدلتا نظر نہیں آتا۔ پندرہ سال گزرنے کے باوجود، اگرچہ قدرتی آفات کے patterns بدل گئے ہیں، لیکن حکمرانوں کی ترجیحات میں کوئی بنیادی فرق نظر نہیں آتا۔ اس صورت حال کے مستقل حل کے لیے ضروری ہے کہ عوامی احتساب، شفافیت اور حکمرانی میں بنیادی اصلاحات کو نافذ کیا جائے، تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں اس قسم کی بین الاقوامی رسوائی اور داخلی بدانتظامی کا شکار نہ ہوں۔
اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹس اس حقیقت کو بارہا اجاگر کرتی ہیں کہ پاکستان میں حکومتی فضول اخراجات، بے جا پروٹوکول، VIP کلچر اور مالی بدانتظامی، نہ صرف امدادی پالیسیوں کو ناکام بناتی ہیں بلکہ ملک کی عالمی ساکھ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہیں۔ 2024 کی Transparency International Report میں پاکستان 180 ممالک میں سے کرپشن انڈیکس میں 133ویں نمبر پر ہے۔
2025 کے بجٹ میں وزیراعظم آفس، وزرائے اعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کے اخراجات میں 18 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ وفاقی تعلیم، صحت اور ماحولیاتی تبدیلی کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی۔ یہ فیصلہ بذات خود اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جسے انجلینا جولی پندرہ سال پہلے اپنی رپورٹ میں بیان کر چکی تھیں۔
یہ لمحہِ فکریہ ہے۔ ہم کب تک ان خبروں سے صرف شرمندہ ہو کر آگے بڑھ جائیں گے؟ کب تک ہم خود کو "متاثرہ قوم" کہہ کر دنیا سے رحم کی اپیل کرتے رہیں گے؟ کب ہم بحیثیت قوم اور ریاست خود کو ذمہ دار، شفاف اور جواب دہ ثابت کریں گے؟
ہمیں اب یہ طے کرنا ہوگا کہ قدرتی آفات کو بھی معاشی و سیاسی عیاشیوں کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ امداد، احتساب اور عوام کی فلاح کو نعرے نہیں، پالیسی بنایا جائے۔ اگر ہم نے انجلینا جولی جیسے غیر جانبدار مبصرین کی تنقید کو صرف وقتی غیرت یا دفاعی بیانات تک محدود رکھا، تو آنے والے برسوں میں بھی ہم عالمی شرمندگی، بداعتمادی اور اندرونی تباہ حالی کا شکار رہیں گے۔
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ریاستی ترجیحات، اخلاقی مزاج اور سیاسی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دیں۔ کیونکہ اگر اب بھی ہم نے سبق نہ سیکھا تو آنے والے پندرہ سالوں میں پاکستان صرف پانی میں نہیں، وقار، اعتماد اور بقا کی بنیادوں میں بھی ڈوب جائے گا۔
"قوموں کی تاریخ ان کے حکمرانوں کے اعمال سے نہیں، بلکہ عوام کے صبر و استقلال سے لکھی جاتی ہے"۔

