Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Vaccine, Tahaffuz Ki Haqiqat, Afwahon Ka Radd

Vaccine, Tahaffuz Ki Haqiqat, Afwahon Ka Radd

ویکسین، تحفظ کی حقیقت، افواہوں کا رد

انسانی تاریخ میں وبائیں ہمیشہ سے خوف اور تحفظ کے درمیان جھولتی رہی ہیں۔ کبھی طاعون، کبھی چیچک اور کبھی انفلوئنزا نے لاکھوں زندگیاں نگل لیں۔ مگر جدید سائنس نے ایک ہتھیار فراہم کیا جس نے بیماریوں کے خلاف انسان کو مضبوط کیا یہ ہتھیار ہے ویکسین۔ جب دنیا پر کووِڈ 19 کی وبا ٹوٹ پڑی تو ابتدائی دنوں میں خوف کی لہر نے ہر دل کو گھیر لیا۔ لاکھوں اموات اور صحت کے بگڑتے ہوئے عالمی نظام کے بعد ایک ہی امید باقی تھی کہ کوئی مؤثر ویکسین دریافت ہو۔ خوش قسمتی سے سائنس دانوں نے محض ایک سال کے اندر وہ کر دکھایا جو پہلے دہائیوں میں ہوتا تھا۔ ویکسین کی تیاری ایک بڑی سائنسی کامیابی تھی۔ مگر ساتھ ہی دنیا بھر میں ایک سوال گونجنے لگا: کیا یہ ویکسین واقعی محفوظ ہے؟ اور کیا یہ بات درست ہے کہ ویکسین لگوانے والے افراد جلد مر جائیں گے؟

یہ سوال صرف عام لوگوں تک محدود نہیں رہا بلکہ سوشل میڈیا، یوٹیوب چینلز اور حتیٰ کہ بعض نام نہاد ماہرین نے بھی اس پر شکوک و شبہات پھیلائے۔ یہ تاثر دیا گیا کہ کووِڈ ویکسین انسانی جینز کو بدل دے گی، یا چند سال میں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دے گی۔ لیکن کیا حقیقت واقعی یہی ہے؟ اس سوال کا جواب صرف سائنسی اعداد و شمار اور معتبر اداروں کی تحقیق سے ہی دیا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق اب تک دنیا میں اربوں خوراکیں دی جا چکی ہیں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہوتا کہ ویکسین لگوانے والے جلد مر جاتے ہیں تو اربوں انسانوں میں غیر معمولی اموات کے واقعات صاف دکھائی دیتے۔ حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ ویکسین کے بعد کئی ملکوں میں اموات کی شرح کم ہوئی اور اسپتالوں میں داخلے گھٹ گئے۔ برطانیہ کے سرکاری ادارے Office for National Statistics نے دو سال کے اعداد و شمار شائع کیے جن کے مطابق ویکسین لگوانے والے افراد میں کووِڈ سے مرنے کا امکان بہت کم رہا، جبکہ غیر کووِڈ وجوہات سے اموات کی شرح بھی ویکسین لگوانے والوں میں زیادہ نہیں پائی گئی۔ بعض صورتوں میں یہ شرح کم نکلی، جسے ماہرین "healthy vaccinee effect" کہتے ہیں یعنی عام طور پر صحت مند لوگ زیادہ شرح سے ویکسین لگواتے ہیں، اس لیے ان کی بقا بھی زیادہ ہوتی ہے۔

امریکہ میں CDC اور اس کے تحت Vaccine Safety Datalink جیسے بڑے سیفٹی پروگرامز نے لاکھوں مریضوں کے اعداد و شمار پر مسلسل نگرانی کی۔ وہاں بھی یہی ثابت ہوا کہ ویکسین کے بعد "all-cause mortality" یعنی مجموعی اموات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ البتہ چند نایاب اثرات کی نشاندہی ضرور کی گئی جن میں خاص طور پر مایوکارڈائٹس (دل کی جھلی کی سوزش) اور بلڈ کلاٹ کے چند کیسز شامل ہیں۔ مگر ان کی شرح اتنی کم تھی کہ لاکھوں افراد میں بمشکل چند افراد متاثر ہوئے۔

اسرائیل میں Clalit Health Services نے 17 لاکھ افراد پر ایک وسیع مطالعہ کیا جس کے نتائج New England Journal of Medicine میں شائع ہوئے۔ اس تحقیق نے واضح کیا کہ اگرچہ ویکسین کے بعد نوجوان مردوں میں مایوکارڈائٹس کے کیسز کچھ زیادہ دیکھے گئے، لیکن یہ زیادہ تر ہلکے تھے اور علاج کے بعد مریض صحت یاب ہو گئے۔ دوسری طرف خود کووِڈ انفیکشن سے مایوکارڈائٹس اور دیگر پیچیدگیوں کا خطرہ کہیں زیادہ تھا۔ گویا ویکسین کا خطرہ انفیکشن کے خطرے کے مقابلے میں نہایت کم تھا۔

اسی طرح ناروے، ڈنمارک، سویڈن اور فن لینڈ میں 2 کروڑ 30 لاکھ افراد پر مبنی تحقیق نے بھی یہی نتیجہ دیا۔ JAMA Cardiology میں شائع ہونے والی اس رپورٹ نے بتایا کہ نوجوان مردوں میں mRNA ویکسین کے بعد فی 100,000 افراد میں 4 سے 7 کیسز مایوکارڈائٹس کے سامنے آئے۔ یہ تناسب سائنسی زبان میں"انتہائی کم" سمجھا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان میں زیادہ تر مریض مکمل صحت یاب ہو گئے۔

برطانوی طبی جریدے BMJ نے بھی ڈنمارک کے اعداد و شمار پر مبنی تحقیق شائع کی جس میں یہی بات سامنے آئی کہ ویکسین کے بعد مایوکارڈائٹس کا امکان کچھ بڑھتا ہے مگر مجموعی طور پر یہ شرح انتہائی محدود ہے۔ درحقیقت کووِڈ انفیکشن کے بعد دل کے مسائل کا خطرہ کئی گنا زیادہ تھا۔ اسی طرح NEJM میں انگلینڈ کے ڈیٹا پر شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ویکسین لگوانے والوں میں کووِڈ سے اموات کا خطرہ 90 فیصد تک کم ہوا، جبکہ بوسٹر ڈوز کے بعد یہ تحفظ اور بھی بڑھ گیا۔

ان تمام رپورٹس کو دیکھتے ہوئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ویکسین نے انسانی جانیں بچائیں اور جلد موت کا باعث نہیں بنی۔ اگر یہ ویکسین نقصان دہ ہوتیں تو دنیا بھر کے سیفٹی سسٹمز فوراً الرٹ جاری کرتے اور ان کا استعمال روک دیا جاتا، جیسا کہ ماضی میں کئی ادویات اور ویکسینز کے ساتھ ہو چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ویکسینز کے فوائد نے نقصانات کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔

یہاں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ افواہیں کیوں پھیلتی ہیں؟ وبا کے ابتدائی دنوں میں خوف اور غیر یقینی ماحول نے لوگوں کو ہر بات پر شک کرنے پر مجبور کیا۔ سوشل میڈیا نے ان افواہوں کو تیزی سے پھیلایا۔ بعض حلقوں نے اس سے مالی فائدہ اٹھایا، بعض نے اپنی سیاسی یا نظریاتی مہم چلائی۔ مگر سائنس حقائق پر کھڑی ہے اور حقائق یہی بتاتے ہیں کہ ویکسین کے بعد اربوں لوگ آج بھی عام زندگی گزار رہے ہیں۔

ہاں، اس میں شک نہیں کہ ویکسین کے نایاب مضر اثرات ہیں، جیسے ہر دوا اور ہر علاج کے ہوتے ہیں۔ مگر طبی دنیا ہمیشہ "خطرے اور فائدے" کا موازنہ کرتی ہے۔ جب لاکھوں زندگیاں بچانے کا فائدہ چند نایاب کیسز کے خطرے سے کہیں زیادہ ہو تو فیصلہ بالکل واضح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت، CDC، EMA اور دیگر اداروں نے بارہا کہا کہ ویکسین کے فوائد نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔

اب ذرا ایک اور پہلو دیکھتے ہیں"Excess Mortality" یعنی اضافی اموات۔ بعض لوگوں نے کہا کہ 2021 اور 2022 میں کئی ممالک میں اضافی اموات ہوئیں، اس کا سبب ویکسین ہیں۔ لیکن تحقیقی رپورٹس نے بتایا کہ یہ اضافی اموات وبا کی لہروں، اسپتالوں کے دباؤ، غیر کووِڈ امراض کے علاج میں تاخیر اور دیگر سماجی و طبی مسائل کے باعث تھیں۔ اس کا ویکسین سے کوئی براہِ راست تعلق ثابت نہیں ہوا۔

مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ کووِڈ ویکسینز پر اٹھنے والے اعتراضات اور "جلد موت" کے دعوے سائنسی بنیادوں سے محروم ہیں۔ اربوں افراد میں ان کے استعمال کے بعد اگر واقعی یہ بات درست ہوتی تو اس کے اثرات دنیا کو چھپائے نہیں چھپ سکتے تھے۔ ویکسین نے لاکھوں افراد کی زندگیاں بچائیں اور صحت کے نظام کو سہارا دیا۔ اس کے باوجود ہمیں چاہیے کہ ہم ان نایاب مضر اثرات کی سائنسی نگرانی جاری رکھیں تاکہ مستقبل میں مزید بہتر اور محفوظ ویکسینز تیار ہو سکیں۔

آخر میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ صحت اور بیماری کے فیصلے افواہوں اور سازشی نظریات پر نہیں بلکہ تحقیق اور سائنس پر ہونے چاہئیں۔ کووِڈ ویکسین نے ثابت کیا ہے کہ سائنس انسانیت کی خدمت میں کتنی اہم ہے۔ یہ کہنا کہ ویکسین لگوانے والے جلد مر جائیں گے، محض ایک خوفناک افواہ ہے جسے وقت اور تحقیق دونوں نے رد کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنہوں نے ویکسین لگوائی، ان کے زندہ رہنے اور صحت مند رہنے کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali