Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Trump Aman Mansooba Aur Hamas Ki Mashroot Amadgi

Trump Aman Mansooba Aur Hamas Ki Mashroot Amadgi

ٹرمپ امن منصوبہ اور حماس کی مشروط آمادگی

حالیہ واقعات نے ایک بار پھر غزہ کی المیہ کہانی کو عالمی اسٹیج پر لا کھڑا کیا ہے۔ چند روز قبل امریکی صدارتی پیش کشِ امن جسے عمومی طور پر "ٹرمپ کا 21 نکاتی منصوبہ" کہا جا رہا ہے پر حماس نے مشروط رضامندی ظاہر کی اور کہا کہ وہ غزہ کی پٹی کی انتظامیہ ایک ایسی فلسطینی اتھارٹی کو سونپنے پر آمادہ ہے جو آزاد (ٹیکنوکریٹ) شخصیات پر مشتمل ہو، ساتھ ہی قیدیوں کی رہائی اور مذاکرات کے لیے فوری طے پانے والے فریم ورک پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہے، مگر اس نے غزہ پر قابض ہونے یا اپنے عوام کی جبری بے دخلی کے منصوبے کو سختی سے مسترد کیا اور مکمل فوجی انخلا و زمینی حالات کی حفاظت پر زور دیا۔

اسی پس منظر میں امریکی صدر کی جانب سے حماس کو مختصر مگر سخت الٹی میٹم جاری کیا گیا "اتوار شام چھ بجے تک معاہدے پر دستخط یا پھر شدید نتائج" اور ساتھ ہی وہ معصوم شہریوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے کی ہدایت دینے لگے، مگر اروپائی اور مشرقِ وسطٰی کے ذرائع کے مطابق حماس کے اصرار اور ثالثوں کے دَخِل کے بعد صدر ٹرمپ نے حماس کے اعلامیے کو بنیاد بنا کر کہا کہ وہ سمجھتے ہیں حماس امن کے لیے تیار ہے اور اسرائیل کو بمباری فوری طور پر روک دینے کا عندیہ دیا، تاکہ قیدیوں کی حفاظت کے ساتھ رہائی ممکن بنائی جا سکے۔ اس مکمل منظرنامے میں واشنگٹن، دوحہ، قاہرہ اور انقرہ جیسے ثالثی کھلاڑی فعال رہے۔

ٹرمپ کے منصوبے کے جوہری نکات عارضی اور بین الاقوامی نگرانی میں غزہ کا انتظامی ازسرِنو ڈھانچہ، متبادل سیکورٹی فریم ورک، قیدیوں کا تبادلہ، فوری انسانی امداد اور طویل المیعاد سیاسی حل کی راہ ہموار کرنا نے خطے میں مختصر مدت کے لیے جنگ بندی کا امکان پیدا کردیا ہے، مگر اسی وقت یہ منصوبہ متعدد پیچیدہ قانونی، سیاسی اور عملی سوالات بھی جنم دیتا ہے۔ فریقین کے مابین "عدمِ ہتھیار" یا "ڈی میلٹرا لائزیشن" کے تقاضے اور فوجی ڈھانچوں کو ختم کرنے کی شرائط ایسے معاملات ہیں جن کے نفاذ کے لیے سخت بین الاقوامی نگرانی، موثر قابلِ نفاذ میکانزم اور علاقائی ضمانتیں درکار ہوں گی۔

تاریخی تناظر یہ ہے کہ غزہ کا مسئلہ محض ایک عارضی اور تکنیکی نظم و نسق کا معاملہ نہیں رہا، یہ صدیوں پر محیط زمین، حقِ خودارادیت، پناہ گزینوں کا مسئلہ اور بین الاقوامی قراردادوں کے نفاذ کا مجموعہ ہے۔ اس لیے اگرچہ عارضی ٹیکنو کریٹک انتظامیہ جنگ بندی اور امدادی کارکردگی کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے، مگر طویل المدت حل کے لیے قومی وفاق، فلسطینی سیاسی دھڑوں کے مابین مصالحت اور بین الاقوامی تسلیم شدہ سیاسی فریم ورک کی ضرورت لازمی ہے۔ صرف ایڈمنسٹریٹو تبدیلی سے انسانی حقوق، ریاستی وقار اور حیثیت کے مسئلے حل نہیں ہوں گے، یہ امر بالخصوص اُس وقت حساس ہے جب مقامی لوگوں کے سیاسی حقوق اور مستقبل کا فیصلہ بین الاقوامی یا علاقائی گھٹنوں میں سمیٹ دیا جائے۔

انسانی اور اقتصادی جہت خاص طور پر نازک ہے، سول انفراسٹرکچر کی تباہی، پانی و بجلی کی قلت اور بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کی فوری بحالی کے لیے نہ صرف ہنگامی امداد درکار ہوگی بلکہ دہائیوں کے لیے تعمیر نو اور روزگار پروگراموں کی ضرورت ہوگی جن کے لئے وسیع بین الاقوامی مالی مدد اور مکمل شفاف منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ اگر ری کنسٹرکشن مقامی شمولیت اور نگرانی کے بغیر شروع ہوا تو فنڈنگ کا ریڈکشن، کرپشن یا سیاسی مرضی کی پابندی خطرات میں اضافہ کر سکتی ہے۔

سیکیورٹی کی شرائط پر بھی دو بڑے خطرات منڈلاتے ہیں، ایک یہ کہ جب تک اسرائیل کو ظلم کے خلاف موثر ترین لگام نہ ڈالی جائے، وہ فلسطینی مظلومین کے خلاف مسلسل سخت رویہ اختیار رکھے گا، دوسرا یہ کہ ردعمل میں ضرور حماس یا دیگر مزاحمتی گروہ جِڑیں برقرار رکھیں گے نیز نیم فوجی یا خفیہ نیٹ ورکس دوبارہ تشدد کے خلاف مدافعت کی راہیں ہموار رکھیں گے۔ اس مشکل کو دور کرنے کے لیے بین الاقوامی مشنوں، علاقائی فوجی و سول نگرانی اور یکے بعد دیگرے شواہد کی بنیاد پر مرحلہ وار اعتماد سازی کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔

سیاسی نتیجہ خیزی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیا یہ معاہدہ محض ایک عارضی اچھی فائلنگ بن کر رہ جائے گا یا اسے وسیع قومی اور بین الاقوامی ضمانتیں ملیں گی۔ اگر معاہدہ بجا طور پر شفاف، منصفانہ اور فلسطینی قومی عدالتوں اور نمائندہ اداروں کے ضامن کے ساتھ نافذ ہوا تو یہ جنگ بندی ایک نئی سیاسی کشمکش کو پرامن حل کی طرف موڑ سکتی ہے، تاہم اگر حتمی حل میں مشروطی اور غیر شفاف وعدے رہ جائیں تو یہ دوبارہ تشدد اور استحصال کی راہیں کھول دے گا۔

اختتامی کلمات کے طور پر واضح رہے کہ امن کی راہ تیز فیصلوں اور الٹی میٹمز سے نہیں کھڑی ہوتی، مگر جب حقیقتاً معصوم شہریوں کی زندگی اور قیدیوں کی بازیابی کا سوال ہو تو ثالثی اور فوری تدارک ضروری ہیں۔ عالمی برادری، خاص طور پر مسلم دنیا اور اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ انسانی پیمانے کو مقدم رکھتے ہوئے ایک منظم، شفاف اور قانونی فریم ورک کے تحت اس عبوری مرحلے کی نگرانی کریں، تاکہ بحالی سے سیاسی حل کی جانب راستہ کھلے اور آئندہ کے خطرناک تناؤ سے بچنے کا کوئی دیرپا راستہ تلاش کیا جا سکے۔ اگرچہ یہ لمحہ خطرناک ہے، مگر مناسب بین الاقوامی ضمانتوں، مقامی شمولیت اور واضح حقوقِ فلسطینی کی پاسداری کے ساتھ اسے ایک موقع بھی بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ قوتِ ضمانت صرف طاقت ہی نہ بلکہ قانون، شفافیت اور انصاف پر مبنی ہو۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan