Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Taveel Tareen Muhasre Ki Dastan

Taveel Tareen Muhasre Ki Dastan

طویل ترین محاصرے کی داستان

دو سال بیت چکے، جب 7 اکتوبر 2023 کو اہلِ غزہ نے طوفان الاقصیٰ برپا کیا۔ مغرب آج بھی اس دن کو "قیامت" کہتا ہے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اعتراف کرتے ہیں کہ "وہ دن آج تک میرے ذہن سے محو نہیں ہوا"۔ مگر شاید انہیں کوئی بتانے والا نہیں کہ وہ قیامت نہیں تھی بلکہ غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی ایک جرات مندانہ کوشش تھی۔

قیامت تو ان لاکھوں فلسطینیوں پر پون صدی سے برپا ہے جو اپنے ہی وطن میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

بحرِ روم کے مشرقی ساحل پر محض 41 کلومیٹر طویل اور چند کلومیٹر چوڑی پٹی کو دنیا "قطاعِ غزہ" کے نام سے جانتی ہے۔ 365 مربع کلومیٹر کے اس خطے میں 24 لاکھ سے زائد انسان بستے ہیں یعنی فی مربع کلومیٹر 6500 سے زائد افراد۔

یہ وہ سرزمین ہے جو کبھی خلافتِ عثمانیہ کا حصہ تھی، مگر 1918 میں برطانیہ نے اسے نوآبادی بنا لیا۔

29 نومبر 1947 کو اقوامِ متحدہ نے تقسیمِ فلسطین کا منصوبہ پیش کیا، جس میں آبادی کا صرف 32 فیصد رکھنے والے یہودیوں کو 56 فیصد زمین، جبکہ اکثریتی عربوں کو محض 42 فیصد علاقہ دیا گیا۔ بیت اللحم اور بیت المقدس کو مشترکہ اثاثہ (Corpus Separatum) قرار دیا گیا۔

تقسیم کا اعلان ہوتے ہی مسلح صیہونی گروہوں نے عرب بستیوں پر حملے شروع کیے۔ برطانوی فوج، جو امن کی ضامن تھی، تماشائی بنی رہی بلکہ جاتے جاتے اپنا اسلحہ بھی اسرائیلیوں کے حوالے کر گئی۔

14 مئی 1948 کو ڈیوڈ بن گوریان نے ریاستِ اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا اور امریکہ و روس نے فوراً تسلیم کرلیا۔

اسی دن سے فلسطینیوں پر وہ عذاب نازل ہوا جو آج تک جاری ہے سات لاکھ سے زائد لوگ اپنے گھروں سے نکال دیے گئے، غزہ کی طرف دھکیل دیے گئے اور سمندر تک رسائی بند کر دی گئی۔ یہ وہی دن ہے جسے فلسطینی "یوم النکبہ" یعنی "بڑی تباہی" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

جون 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں غزہ اور صحرائے سینائی پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ 1993 کے معاہدہ اوسلو کے تحت غزہ کا انتظام بظاہر فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کیا گیا، مگر حقیقت میں قبضہ بدستور قائم رہا۔ یوں حالیہ طوفان الاقصیٰ کسی اچانک جنون کا نتیجہ نہیں، بلکہ 1948 سے جاری جبر، محاصرے اور غلامی کا ردعمل ہے۔

موجودہ اسرائیلی حکومت کو خود موساد کے سابق سربراہ تامر پاردو نے نسل پرست یا Apartheid ریاست قرار دیا۔ فلسطینی بستیوں کے گرد تعمیر کی گئی دیوار کو امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر اپنی کتاب "Palestine: Peace Not Apartheid" میں"دیوارِ نسل پرستی" کہہ چکے ہیں۔

یہ وہ حقیقت ہے جو ہر امن مذاکرات کے پس پردہ جھانک کر اسرائیلی نیت اور طرزِ حکمرانی کو بے نقاب کرتی ہے۔

عثمانی دور سے بیت المقدس مشرقی (مسلم کوارٹر) اور مغربی (یہودی کوارٹر) حصوں میں منقسم ہے۔

1967 کے بعد اقوامِ متحدہ کے معاہدے کے تحت یہ تقسیم برقرار رکھی گئی، تاکہ مذہبی تقدس کا توازن قائم رہے۔ مگر آج نیتن یاہو کابینہ کے متعصب وزراء خاص طور پر اتامر بن گوئر اور وزیر خزانہ اس تاریخی توازن کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

بن گوئر خود کئی بار فوجی نگرانی میں مسجدِ اقصیٰ کے احاطے تک جا چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب اس کی شکایت کی گئی تو اسرائیلی نمائندے نے گستاخانہ انداز میں کہا: Status Quo معاہدہ ہم نے عالمی دباؤ کے تحت قبول کیا تھا"۔

جب اسرائیلی فوجی کارروائیاں روز کا معمول بن گئیں اور سعودی عرب و اسرائیل کے بڑھتے تعلقات نے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا، تو آخرکار 7 اکتوبر 2023 کو وہ لاوا پھٹ پڑا۔

پانچ ہزار سے زائد راکٹ فائر کیے گئے، متعدد سرحدی چوکیوں پر قبضہ ہوا اور کئی فوجی افسران ہلاک یا گرفتار ہوئے۔

موساد اور شاباک جیسی خفیہ ایجنسیاں اس منظم کارروائی کے سامنے بے بس رہ گئیں اور اسرائیل کی "ناقابلِ تسخیر" ساکھ زمین بوس ہوگئی۔

اس جنگ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ڈولتی حکومت کو وقتی سہارا دیا۔ جنگ سے قبل عدالتی اصلاحات کے بل پر پورا ملک احتجاج کی لپیٹ میں تھا۔ مگر جیسے ہی جنگ چھڑی، داخلی اختلافات ماند پڑ گئے اور حزب اختلاف "ہنگامی کابینہ" میں شامل ہوگئی۔

جمہوریت، عدلیہ کی آزادی اور اظہارِ رائے کے نعرے توپوں کی گھن گرج میں گم ہوگئے۔ طوفان الاقصیٰ نے مشرقِ وسطیٰ کے نئے امریکی منصوبے کو بھی چکناچور کردیا۔

امریکی وزیرِ خارجہ ٹونی بلینکن نے سعودی و قطری وزرائے خارجہ سے مزاحمت کاروں کی مذمت کا مطالبہ کیا، مگر دونوں نے صاف انکار کیا اور اسرائیل کو خونریزی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

بلوم برگ کے مطابق: "چھ اکتوبر سے پہلے ریاض اور تل ابیب تعلقات کے تاریخی معاہدے کے قریب پہنچ چکے تھے، مگر فلسطینیوں نے امریکی خواب کو راکھ میں بدل دیا"۔

تباہی، بھوک، بمباری اور بے گھری کے باوجود اہلِ غزہ کی آنکھوں میں آج بھی امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ظلم کی دیواریں خواہ کتنی بلند کیوں نہ ہوں، صبحِ آزادی کا سورج انہیں توڑ کر ہی طلوع ہوتا ہے۔ پون صدی کے محاصرے کے باوجود فلسطینی انسان زندہ ہیں اور زندہ رہنے کا عزم رکھتے ہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam