Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Tareekh Ke Auraq, Aaj Ki Screene

Tareekh Ke Auraq, Aaj Ki Screene

تاریخ کے اوراق، آج کی اسکرینیں

کتاب انسان کی روحانی و عقلی بقا کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ وہ تہذیبیں جنہوں نے کتاب اور علم کو سینے سے لگایا، تاریخ نے اُنہیں عزت بخشی اور وہ قومیں جنہوں نے کتب خانوں کو خاکستر کر دیا، وہ خود ماضی کے ملبے تلے دفن ہوگئیں۔ انسانی تاریخ میں بعض کتب خانے صرف علمی مراکز نہیں رہے بلکہ تمدن، تہذیب اور شعور کی علامت بنے۔ نینوا، اسکندریہ، بغداد، قرطبہ اور نلندا کے کتب خانے اس کی زندہ مثال ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نہ صرف اپنے دور کا سب سے اہم علمی ذخیرہ تھا بلکہ انسانی شعور کا ایک تسلسل بھی تھا۔ نینوا میں مٹی کی تختیوں پر کندہ علمی خزانہ، اسکندریہ میں فلسفیانہ نسخے، بغداد میں بیت الحکمت میں دنیا بھر کے علوم کے تراجم، قرطبہ میں لاکھوں کتب پر مشتمل مجموعے اور نلندا میں ہندو، بدھ اور یونانی فکرکے ملاپ کا مظہر، سب اس بات کے گواہ ہیں کہ علم کی قدر و قیمت صرف اس کے مواد میں نہیں بلکہ اس کی حفاظت میں بھی ہے۔

مگر یہ تمام عظیم کتب خانے علم دشمنی، مذہبی شدت پسندی، سیاسی خودغرضی یا خارجی جارحیت کا شکار ہوئے۔ ہلاکو خان نے بغداد کو نیست و نابود کیا تو دجلہ کے پانی میں علم بہا دیا گیا۔ اسکندریہ کے کتب خانے کو کئی مرتبہ جلایا گیا، یہاں تک کہ انسانی تاریخ کا بے پناہ علمی سرمایہ مٹ گیا۔ صلیبی جنگوں میں قرطبہ کے علمی مراکز جلا دیے گئے اور نلندا یونیورسٹی کو بختیار خلجی کی تلوار نے آگ میں جھونک دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ علمی خزانے آج محفوظ ہوتے تو دنیا کا فکری نقشہ کیسا ہوتا؟ شاید انسانی ترقی کا سفر کئی صدیوں آگے بڑھ چکا ہوتا۔

آج ہم ایک نئی دنیا میں جی رہے ہیں، جسے برقیاتی ٹیکنالوجی کی دنیا کہا جاتا ہے۔ یہاں علم کا حصول کاغذ، روشنائی اور درسی کتابوں سے نکل کر برقی پردوں، موبائل آلات اور آن لائن ذخائر میں منتقل ہو چکا ہے۔ اب نہ قاری کو لائبریری جانے کی ضرورت ہے، نہ کتاب کے صفحات پلٹنے کی مشقت۔ ایک بٹن دبائیے اور ہزاروں کتابیں آپ کے سامنے حاضر۔ لیکن کیا یہی ترقی ہے؟ کیا یہی علم کا نیا چہرہ ہے؟ کیا اس برقیاتی انقلاب نے ہمیں علم سے قریب کیا ہے یا ہم سے وہ لمس چھین لیا ہے جو کتاب کی خوشبو اور اس کے ورقوں کی سرسراہٹ میں پنہاں تھا؟

برقیاتی کتب خانوں کے بلاشبہ بے شمار فوائد ہیں۔ یہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر کسی بھی زبان اور موضوع پر علمی مواد تک فوری رسائی کا ذریعہ ہیں۔ ایسے کتب خانے نہ صرف قدیم اور نایاب نسخوں کو محفوظ کر رہے ہیں بلکہ عوامی استفادے کے لیے بھی ان تک رسائی ممکن بناتے ہیں۔ گوگل کی برقیاتی کتاب گاہ، انٹرنیٹ محفوظ خانہ، یورپینا، بھارت کا قومی برقیاتی کتب خانہ اور پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا برقی علمی منصوبہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ علم کی ترسیل اب عالمی، بلامعاوضہ اور بلامقام ہو چکی ہے۔ لیکن اس برقی انقلاب کے ساتھ کئی سنجیدہ سوالات بھی جڑے ہوئے ہیں۔

سب سے پہلا مسئلہ برقیاتی عدم مساوات کا ہے۔ پاکستان، بھارت اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے دیہی و پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ کی کمی اور جدید آلات کی عدم دستیابی آج بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ دوسرا خطرہ علمی مواد کی چوری، ہیکنگ اور غیر مصدقہ تحریروں کی بھرمار ہے، جہاں قاری کے لیے یہ جاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا مواد مستند ہے اور کون سا محض لغو یا ناقص۔ تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ کتاب کا جو تجربہ ہمیں جسمانی طور پر حاصل ہوتا ہے، وہ برقیاتی صفحات میں گم ہو چکا ہے۔ ایک کتاب کو تھامنا، اس کے کونے موڑنا، قلم سے نشان لگانا اور لمبی خامشی میں اس کی خوشبو محسوس کرنا، یہ سب کچھ برقیات کے اس شور میں گم ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں صورت حال کچھ مختلف نہیں۔ یہاں درجنوں عوامی کتب خانے بظاہر تو موجود ہیں، لیکن یا تو وہ ویران پڑے ہیں، یا اُن میں نئی کتابوں، تربیت یافتہ عملے، جدید سہولیات اور مطالعے کے ماحول کا شدید فقدان ہے۔ قائداعظم کتب خانہ، پنجاب پبلک لائبریری، سپریم کورٹ کتب خانہ اور چند جامعات کے مراکز آج بھی روشنی کے چراغ جلائے ہوئے ہیں، لیکن ان کی روشنی پورے ملک کو روشن کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے بین الاقوامی تحقیقی مجلّات اور علمی ذخائر تک رسائی کے لیے برقیاتی سہولت فراہم کی ہے، مگر یہ صرف جامعات تک محدود ہے۔

ایک جدید و مکمل برقیاتی کتب خانے کا تصور وہی ہوگا جہاں دنیا بھر کی زبانوں میں علمی ذخائر دستیاب ہوں، جہاں قاری صرف کتاب نہ پڑھے بلکہ ویڈیو خطبات، تربیتی مواد، صوتی کتب اور تبادلہ خیال کے مراکز سے بھی فائدہ اٹھائے۔ جہاں مصنف کے حقوق محفوظ ہوں اور قاری کو ایک ایسی جگہ میسر ہو جو نہ صرف علم دے بلکہ تحقیق، تنقید اور تخلیق کا ماحول بھی مہیا کرے۔

مگر یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ہم روایتی علم کی جڑوں کو فراموش نہ کریں۔ ہمیں برقیاتی سہولتوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی علمی روایتوں کو بھی محفوظ رکھنا ہوگا۔ ورنہ وہی ہوگا جو نینوا، اسکندریہ اور بغداد کے ساتھ ہوا۔ نہ صرف کتابیں جلیں گی بلکہ علم کی روح بھی راکھ ہو جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم روایت اور جدت کے درمیان ایک پُل تعمیر کریں ایسا پُل جو ہمیں ماضی کی روشنی میں مستقبل کی طرف لے جائے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari