پاکستان کی تاریخ، سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی کے درمیان ربط

عہدِ حاضر میں پاکستان کو سمجھنے کے لیے ماضی کا تاریخی تناظر اولین شرط ہے۔ برصغیر کی تقسیم، فوجی مداخلتیں، زمین دارانہ سماجی ڈھانچے اور جمہوری تجربات کی بار بار ناکامی نے ایک طویل مدتی سیاسی-اقتصادی صف بندی بنائی جو آج بھی جاری ہے۔ تاریخ نے اِس ملک میں ریاستی انسٹی ٹیوٹس اور عوامی مطالبات کے درمیان ایک مستقل تناؤ قائم کر دیا ہے جہاں غیر مستحکم سیاسی کلچر، عدالتی اور بیوروکریٹک قوتوں کے ساتھ مل کر معیشت کی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ (تاریخی نقطۂ نظر: تحقیقی ادب کا عمومی حوالہ، تاریخی مثالیں اور مباحث طویل عرصے سے شائع ہیں)۔
سیاسی عدم استحکام اور حکومتی مسلط شدہ مختصر مدتی فیصلوں کا براہِ راست اثر معاشی پالیسیوں اور بیرونی اعتماد پر پڑتا ہے۔ 2024–2025 کے دوران پاکستان نے استحکام بحال کرنے کی کوششوں میں متعدد بین الاقوامی مالیاتی بندوبست (IMF وغیرہ) اور علاقائی امداد کے پیکیج قبول کیے، اس کے باوجود شرح نمو کم رکھی گئی اور افراطِ زر اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بجٹ میں خطرات نمایاں رہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی تازہ ترین سال 2025ء کی رپورٹ 2025ء کے لیے پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی نمو قریباً 2.7 فیصد پیش کرتی ہے اور افراطِ زر کی توقعات میں تبدیلیاں موسمیاتی اور اقتصادی جھٹکوں کے ساتھ وابستہ ہیں خاص طور پر 2025 کی گرمی/برساتی سیلابی لہر نے زرعی اور بنیادی ڈھانچے کو متاثر کیا جس کے نتائج ابھی مکمل طور پر جانچے جا رہے ہیں۔ یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر پائیدار اقتصادی اصلاحات نافذ کرنا مشکل رہتا ہے۔
حالیہ برسوں میں خارجہ پالیسی نے اقتصادی ڈپلومیسی کو فوقیت دی ہے، مگر یہاں بھی توازن کی ضرورت تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ 2025 میں پاکستان نے خلیجی ریاستوں کے ساتھ حفاظتی اور سیاسی شراکت داریوں کو بڑھایا سعودی عرب کے ساتھ طے پانے والا "اسٹریٹیجک میوچل ڈفنس" معاہدہ (اکتوبر 2025) خطے میں قوتِ توازن کو تبدیل کر سکتا ہے اور اس کا اثر جنوبی ایشیا میں دونوں بڑی طاقتوں (بھارت/چین) اور علاقائی سیکورٹی گرڈ پر پڑے گا۔ اسی دوران، واشنگٹن کے ساتھ رابطوں میں نرمی اور بعض سفارتی قدم پاکستان کو دوبارہ عالمی محافل میں ایک متوازن کھلاڑی بنانے کی کوشش قرار دیے جا رہے ہیں یعنی اسلام آباد ایک 'پراگماتک توازن' اختیار کر رہا ہے۔ چین کو نظرانداز کیے بغیر امریکا اور خلیج دونوں کے ساتھ مفادِ عامہ کی بنیاد پر تعلقات بحال کرنے کی حکمتِ عملی۔ اس رفتار کے باعث پاکستان کو بیرونی مالیاتی، دفاعی اور سرمایہ کاری کے زاویے سے وقتی فوائد مل سکتے ہیں، مگر یہ فوائد اس وقت پائدار ہوں گے جب اندرونی نظامی اور سول اصلاحات مضبوط ہوں۔
سیکورٹی اور علاقائی عدم استحکام خاص طور پر افغان سرحدی کشیدگیاں اور ملک کے اندر شدت پسندانہ قوتوں کی سرگرمیاں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور داخلی استحکام دونوں پر مسلسل دباؤ ڈالتی ہیں۔ اکتوبر 2025 میں افغان پاکستانی سرحد پر عسکری جھڑپیں اور پاکستان کے خلاف افغان جماعتوں کے حملوں کی خبریں اس خطرے کی جدید مثال ہیں، ایسی صورتِ حال سے فوجی مشغولیت بڑھتی ہے، بجٹ کے مختص وسائل دفاعی شعبے کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور معاشی اصلاحاتی ایجنڈا پسِ منظر میں چلا جاتا ہے۔ اسی دوران اندرونی سیاسی فضا میں انتہا پسند سیاسی گروہوں کی سرگرمیاں اور ان کے خلاف حکومتی کارروائیاں (مثلاً اکتوبر 23,2025 کو سخت گیر جماعتوں کے خلاف پابندی یا کڑیل قدم) سیاسی فسادات اور عوامی احتجاج کے امکانات بڑھا دیتی ہیں، جو سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ سب مل کر ایک 'خطرات اور مواقع' کا پیچیدہ جال بنتے ہیں جسے ریاستی حکمتِ عملی کے ذریعے منظم کرنا لازمی ہے۔
تاریخی پس منظر، سیاسی فیصلوں اور بیرونی ڈپلومیسی کا تنگ ربط اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ پاکستان کے لیے ایک کامیاب مستقبل کا راستہ متعدد جہتوں پر اصلاحات مانگتا ہے۔ (1) سیاسی شفافیت اور ادارہ جاتی خودمختاری عدلیہ، الیکشن کمیشن اور بیوروکریسی کی آزادانہ فعل پذیری، (2) اقتصادی اصلاحات کی تسلسل ٹیکس بیس بڑھانا، زرعی اصلاحات، چھوٹے و درمیانے صنعتی شعبے کی ترقی، (3) ماحولیاتی اور کلائمٹ ریزیلینس سیلاب/خشک سالی کے خطرات کے پیشِ نظر انفراسٹرکچر اور زرعی پالیسیاں، (4) متوازن خارجہ پالیسی علاقائی استحکام اور اقتصادی شراکت داری کو یکساں وزن دینا۔ تاریخی تجربات بتاتے ہیں کہ صرف بیرونی امداد یا عارضی سیاسی معاملات معاشی ترقی کا مستقل ذریعہ نہیں بن سکتے اصلاحات کا پائیدار عمل اور شفاف معاشی نظم و نسق درکار ہے۔
پاکستان کا مستقبل ایک ساتھ تاریخی جڑیں، داخلی سیاسی مزاج، معاشی پالیسیوں اور متوازن خارجی حکمتِ عملی پر منحصر ہے۔ 2025 کے واقعات سرحدی جھڑپیں، خلیجی دفاعی معاہدے، بین الاقوامی مالیاتی رپورٹس اور اندرونی سیاسی حرکتیں بتاتی ہیں کہ ملک ایک نازک مگر موقعوں سے بھرپور مرحلے میں ہے۔ اگر حکمران طبقات پائیدار سیاسی مکالمے، ادارہ جاتی اصلاحات اور معیشت کے لیے سنجیدہ، تکنیکی بنیادوں پر مبنی منصوبہ بندی اپنائیں تو پاکستان نہ صرف بیرونی شراکت داری سے بہتر فائدہ اٹھا سکتا ہے بلکہ اپنے تاریخی چیلنجز کو بھی مرحلہ وار کم کر سکتا ہے۔ بصیرت اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے پر ہی یہ ممکن ہے کہ تاریخ کا وزن ریاستی پالیسیوں کے لیے ایک نعمت بنے، عذاب نہیں۔

