پاکستان کا دوٹوک پیغام اور جنوبی ایشیا کی نازک فضاء

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا حالیہ بیان محض ایک عسکری ردِعمل نہیں بلکہ بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے، خطے کے بدلتے توازنِ طاقت اور بھارت کے جارحانہ عزائم کے پس منظر میں ایک واضح اور دوٹوک پیغام ہے۔ ترجمانِ پاک فوج نے بجا طور پر کہا کہ "بھارت کے کسی بھی ایڈونچر کا جواب ہولناک ہوگا" یہ اعلان دراصل اُس جغرافیائی اور سیاسی حقیقت کی بازگشت ہے جس میں جنوبی ایشیا کی سلامتی، امن اور استحکام لمحہ بہ لمحہ کسی بڑے بحران کے دہانے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
بھارت کی جانب سے گزشتہ چند ماہ کے دوران آنے والے اشتعال انگیز بیانات، سیاسی رہنماؤں اور عسکری سربراہوں کے جنگی جنون پر مبنی دعوے اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے نے پورے خطے کو ایک نئی بے یقینی میں دھکیل دیا ہے۔ دہائیوں سے نئی دہلی اپنے داخلی بحرانوں، مذہبی شدت پسندی اور اقلیتوں کے خلاف نفرت کے ایجنڈے سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کی روایت کو دہرا رہی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی سوچ نے بھارت کو ایک ایسے فاشسٹ ریاستی ڈھانچے میں بدل دیا ہے جو نہ صرف اپنے شہریوں بلکہ پڑوسی ممالک کے لیے بھی خطرے کی علامت بنتا جا رہا ہے۔
2019ء کے پلوامہ اور بالاکوٹ واقعات کے بعد، جب بھارت نے اشتعال انگیزی کی انتہا کرتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، تو دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے نہایت تحمل مگر فیصلہ کن انداز میں جواب دیا۔ بھارتی طیارے گرائے گئے اور بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی چائے نے جنگی جنون کو مزاحیہ داستان میں بدل ڈالا۔ لیکن افسوس کہ اُس ہزیمت کے باوجود بھارت نے سبق نہیں سیکھا۔ بی جے پی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرکے نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں بلکہ اپنے ہی آئین کی دھجیاں اڑا دیں۔
رواں برس مئی 2025ء میں پاک بھارت کشیدگی ایک بار پھر اُس وقت عروج پر پہنچی جب بھارت نے پاکستان پر سرحد پار حملے کا الزام عائد کرتے ہوئے 7 مئی 2025ء کو محدود فضائی جارحیت کی کوشش کی۔ پاکستان نے نہایت تیز، مؤثر اور فیصلہ کن جوابی کارروائی کرتے ہوئے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیئے۔
پاک فضائیہ کے شاہینوں نے کم از کم چھ بھارتی جنگی طیارے مار گرائے، جبکہ دشمن کا جدید رافیل اور ایس 400 دفاعی نظام بری طرح ناکام ہوا۔ یہ واقعہ بھارت کی ایک اور سفارتی و عسکری ہزیمت کے طور پر تاریخ میں درج ہوا، جس نے ثابت کر دیا کہ پاکستان آج بھی خطے میں طاقت، دفاع اور عزمِ استقامت کا مضبوط ترین قلعہ ہے۔
حالیہ مہینوں میں بھارتی وزیرِ دفاع، فوج اور فضائیہ کے سربراہان کے متنازعہ بیانات نے ایک بار پھر خطے کی فضا کو بھڑکا دیا ہے۔ مودی سرکار داخلی ناکامیوں، معیشت کی زبوں حالی اور بڑھتی ہوئی بے چینی سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی دشمن کا بیانیہ تراش رہی ہے۔ افغانستان کے ذریعے پراکسی نیٹ ورکس کو فعال کرنا، پاکستان کے اندر دہشت گردی کے لیے فنڈنگ اور تربیت فراہم کرنا اور عالمی فورمز پر منفی مہم چلانا، یہ سب اس خطرناک ذہنیت کے عکاس ہیں جس کا مقصد خطے کے امن کو دائمی عدم استحکام میں بدل دینا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ امن، مکالمے اور تحمل کا راستہ اپنایا ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے صبر کو کمزوری سمجھنے کی ہر کوشش کا انجام شکست اور شرمندگی کے سوا کچھ نہیں رہا۔ پاکستان کی افواج نہ صرف دفاعِ وطن کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں بلکہ کسی بھی جارحیت کا "فیصلہ کن اور تباہ کن" جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ جدید میزائل نظام، فضائی برتری، سائبر ڈیفنس اور انٹیلیجنس صلاحیتوں کے امتزاج نے آج کے پاکستان کو دفاعی لحاظ سے ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔
تاہم، اس عسکری تیاری کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جنگیں صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ سفارتی، معاشی اور ابلاغی محاذوں پر بھی لڑی جاتی ہیں۔ لہٰذا پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو زیادہ متحرک، حقائق پر مبنی اور سفارتی طور پر مربوط بنائے۔ اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر عالمی فورمز پر بھارت کے عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے ٹھوس شواہد اور فعال سفارت کاری ناگزیر ہے۔
اقتصادی محاذ پر بھی یہ وقت غیر معمولی احتیاط کا متقاضی ہے۔ جنگی جنون معیشتوں کو برباد کرتا ہے، سرمایہ کاری کو مفلوج کر دیتا ہے اور عام آدمی کو مہنگائی، بیروزگاری اور عدم تحفظ میں دھکیل دیتا ہے۔ پاکستان کو اپنی معاشی اصلاحات، دفاعی پیداوار کی خود کفالت اور خطے کے ساتھ تجارتی روابط کو ترجیح دینی ہوگی تاکہ عسکری استحکام کے ساتھ ساتھ اقتصادی خودمختاری بھی یقینی بن سکے۔
آنے والے مہینوں میں جنوبی ایشیا کی سیاست کا دار و مدار اسی بات پر ہوگا کہ دونوں ایٹمی طاقتیں عقل و تدبر کا مظاہرہ کرتی ہیں یا ایک بار پھر اشتعال اور انا کے بھنور میں الجھ جاتی ہیں۔ پاکستان کا مؤقف واضح ہے ہم امن چاہتے ہیں، مگر کسی جارحیت کا جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اشتعال انگیزی کی راہ پر چلنے والے آخرکار اپنی ہی آگ میں جلتے ہیں۔
خطے کے پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری بھارت کے فاشسٹ رویے کا نوٹس لے اور جنوبی ایشیا کو ایک اور جنگ کی آگ میں جھونکنے سے روکے۔ پاکستان اپنی پالیسی، حکمت اور تدبر سے یہ ثابت کر چکا ہے کہ امن ہماری کمزوری نہیں بلکہ ہمارا ایٹمی اور اخلاقی ہتھیار ہے۔ دشمن اگر سازشوں میں مصروف ہے تو ہم اپنے عزم، حوصلے اور ایمان سے لیس ہیں اور یہی وہ قوت ہے جو پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بناتی ہے۔

