پاکستان، امریکہ اور بدلتا ہوا عالمی منظرنامہ

پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم موڑ پر رہے ہیں۔ حالیہ امریکی دورہ اس تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، جب وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اوول آفس میں تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات نے سفارتی دنیا میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے کیونکہ دو دنوں میں یہ تیسری باضابطہ ملاقات تھی، جو اپنے اندر کئی پہلو لیے ہوئے ہے۔ ملاقات کا دورانیہ اسی منٹ سے زائد رہا اور ماحول میں غیر معمولی گرمجوشی اور باہمی احترام نمایاں نظر آیا۔ صدر ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم کو "شاندار شخصیت" اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو "بہترین انسان" قرار دے کر تعلقات کو ایک نیا رنگ دیا۔ اس طرح کی غیر معمولی تعریفیں عمومی طور پر سفارتی محفلوں میں کم دیکھنے کو ملتی ہیں، لہٰذا یہ جملے محض رسمی نہیں بلکہ ایک نئے دور کی طرف اشارہ معلوم ہوتے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سفر ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات قائم ہوئے اور سرد جنگ کے دور میں پاکستان نے امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1950 کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے پاکستان کو امریکی بلاک کا لازمی حصہ بنا گئے۔ تاہم، 1971 کی جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پہلی بار اس رشتے میں واضح دراڑیں آئیں۔ اس کے برعکس 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف جنگ نے ایک بار پھر امریکہ اور پاکستان کو قریب کر دیا اور یہ دور تعلقات کی نئی بلندیوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن 1990 کی دہائی میں پابندیوں نے پاکستان کو تنہا کر دیا۔ پھر 2001 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے دونوں ملکوں کو دوبارہ قریب کیا، مگر اعتماد کا فقدان ہمیشہ آڑے آتا رہا۔ 2011 میں ایبٹ آباد آپریشن نے خلیج کو مزید بڑھا دیا۔ آج کا دور اسی تاریخی تسلسل کی نئی قسط معلوم ہوتا ہے، جہاں باہمی مفادات ایک بار پھر دونوں کو قریب لانے پر مجبور کر رہے ہیں۔
حالیہ امریکی دورہ کئی محرکات کا حامل ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سلامتی کے نئے خطرات نے امریکہ کو مجبور کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے۔ دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی 2025 کی چار روزہ جنگ نے خطے میں طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔ اس جنگ کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے خود کو ثالثی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور آج کی ملاقات اسی تسلسل کی کڑی سمجھی جا رہی ہے۔ اقتصادی پہلو بھی اس ملاقات میں نمایاں رہے۔ پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور وزیراعظم نے امریکی کمپنیوں کو توانائی، معدنیات اور زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ اس کے بدلے میں امریکہ پاکستان کو چین کے بڑھتے اثر و رسوخ سے الگ رکھنے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی نے ملاقات کو مزید اہم بنا دیا۔ ان کی شمولیت اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان کا فوجی ادارہ اب بھی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسے "ہائبرڈ نظام کی پارٹنرشپ" سے تعبیر کیا، جو پاکستان کے داخلی سیاسی ڈھانچے کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ ماضی میں بھی امریکی حکام ہمیشہ پاکستانی فوجی قیادت سے قریبی تعلقات رکھتے آئے ہیں، لیکن اس بار فیلڈ مارشل کا براہِ راست اور نمایاں کردار مستقبل کی نئی سمت کی نشان دہی کرتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے امور پر بھی اس ملاقات کے دوران اہم گفتگو ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے اور غزہ میں جنگ بندی جلد ممکن ہے۔ انہوں نے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی بھی امید ظاہر کی۔ یہ بیانات امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی میں تبدیلی کے اشارے سمجھے جا رہے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان بھی انہی امن کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ پاکستان نے فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت پر اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا اور وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کے حل میں فعال کردار ادا کریں۔
علاقائی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں یہ ملاقات اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکہ کے گہرے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن پاکستان کے ساتھ اس نئی گرمجوشی کو اس بات کا ثبوت سمجھا جا رہا ہے کہ واشنگٹن جنوبی ایشیا میں توازن قائم رکھنا چاہتا ہے۔ مئی کی جنگ میں پاکستان کی فوجی کارکردگی نے اسے خطے میں ایک مؤثر قوت کے طور پر منوایا ہے اور امریکہ اب اس حقیقت کو تسلیم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کی قربت اور سی پیک جیسے منصوبے امریکہ کے لیے ہمیشہ سے تشویش کا باعث رہے ہیں۔ اس لیے امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لا کر چین کے اثر کو کم کیا جائے۔
مستقبل کے امکانات کا تجزیہ کیا جائے تو امیدیں بھی ہیں اور چیلنجز بھی۔ اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری پاکستان کے لیے نئی راہیں کھول سکتی ہیں۔ دفاعی شعبے میں معلومات کے تبادلے سے خطے میں دہشت گردی کے خطرات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن داخلی سیاسی عدم استحکام، بھارت کے ساتھ کشیدگی اور افغانستان کی غیر یقینی صورتحال ان تعلقات کو کمزور بھی کر سکتی ہے۔ مزید یہ کہ امریکہ کی اندرونی سیاست، خاص طور پر آئندہ انتخابات، بھی ان تعلقات کے مستقبل پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
بالآخر کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ امریکی دورہ پاکستان کے لیے سفارتی طور پر نہایت اہم ثابت ہوا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکی قیادت کے ساتھ روابط کو ایک نئی جہت دی ہے۔ صدر ٹرمپ کی غیر معمولی تعریفیں اور اوول آفس کی گرمجوش فضا اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ دونوں ممالک ایک بار پھر قریبی تعاون کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اس عمل کی کامیابی کا انحصار صرف امریکہ اور پاکستان کی سیاسی قیادت پر نہیں بلکہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات اور عالمی طاقتوں کے باہمی تعلقات پر بھی ہے۔ اگر پاکستان اپنی خود مختاری کو برقرار رکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے میں کامیاب رہا تو یہ نئی سفارتی کاوشیں خطے میں امن اور استحکام کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ بصورت دیگر، یہ ملاقاتیں بھی ماضی کے واقعات کی طرح تاریخ کے اوراق میں محض ایک یادگار بن کر رہ جائیں گی۔

