پاکستان 2025، سفارتی عروج اور معاشی مستقبل کے نئے افق

پاکستان نے 2025ء میں بین الاقوامی سطح پر اپنے سفارتی اثر و رسوخ میں قابلِ ذکر اضافہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں خطے اور عالمی برادری میں اس کی حیثیت تبدیل ہوئی ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف حکمتِ عملی پر مبنی سفارتی اقدامات کا ثمر ہے بلکہ اس کے پیچھے وسیع تر اقتصادی مفادات اور علاقائی استحکام کے نظریات کارفرما ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ مثبت تبدیلی اس کے اندرونی استحکام اور اقتصادی اصلاحات سے بھی جڑی ہوئی ہے، جس کے باعث ملک ایک نئے دور میں داخل ہوا ہے۔
پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کی بنیاد کئی ستونوں پر قائم ہے، جن میں فوجی قوت، اقتصادی شراکت داروں کے ساتھ مضبوط تعلقات اور اصولوں پر مبنی خارجہ پالیسی شامل ہیں۔ اس سال کے دوران پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے کردار کا عالمی سطح پر اعتراف حاصل کیا، نیز تجارتی معاہدوں اور علاقائی امن Initiatives میں بھی نمایاں کامیابیاں سمیٹیں۔ امریکہ نے بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) اور Majeed Brigade کو Foreign Terrorist Organizations قرار دے کر پاکستان کی سلامتی کے خدشات کو تسلیم کیا، جو ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
اس کے علاوہ، پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے طے کیے ہیں جن میں ترجیحی ٹیرف شرائط شامل ہیں، جس سے پاکستانی برآمدات کو بڑا فائدہ پہنچا ہے۔ ان معاہدوں کے تحت پاکستان کو 15-20 فیصد کی ترجیحی شرحیں حاصل ہوئی ہیں، جبکہ بھارت کو 25 فیصد ٹیرف ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ معاشی سفارت کاری کی ایک کامیاب مثال ہے، جس میں پاکستان نے اپنے مفادات کو مؤثر طریقے سے عالمی سطح پر پیش کیا ہے۔
پاکستان نے علاقائی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بیجنگ میں چین اور افغانستان کے ساتھ trilateral meeting میں پاکستان نے ثالثی کا کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے افغانستان تک توسیع پر اتفاق ہوا۔ یہ اقدام نہ صرف خطے میں اقتصادی تعاون کو بڑھانے کے لیے اہم ہے بلکہ پاکستان کے سفارتی کردار کو بھی مضبوط کرتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) میں پاکستان کی فعال شرکت نے اسے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان ایک اہم Regional Connector کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ اس طرح کی کامیابیاں پاکستان کی سفارت کاری کی بدولت ہی ممکن ہوئی ہیں، جس میں نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر اس کے کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔ معاشی اعتبار سے پاکستان نے 2025ء میں اہم پیشرفت حاصل کی ہے۔ اقتصادی ترقی کی شرح 2.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں بہتر ہے۔ اگرچہ یہ شرح حکومت کے ابتدائی ہدف (3.6 فیصد) سے کم ہے، لیکن یہ معیشت میں استحکام کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
عالمی بینک کے مطابق، پاکستان کی معیشت میں استحکام آرہا ہے، جس میں افراطِ زر میں کمی، مالیاتی حالات میں بہتری اور تجارتی خسارے میں کمی جیسے مثبت عوامل شامل ہیں۔ معاشی چیلنجز اب بھی موجود ہیں، جن میں آبادی میں تیزی سے اضافہ، غیر مستحکم سیاسی صورتحال اور زرمبادلہ کے مسائل شامل ہیں۔ تاہم، حکومت نے ساختی اصلاحات پر توجہ مرکوز کی ہے، جس میں ٹیکس نظام میں بہتری، زر مبادلہ کی شرح کو مارکیٹ کے مطابق بنانا اور درآمدی ٹیرف میں کمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ان اقدامات سے سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔
بلاول بھٹو زرداری کی سفارت کاری نے پاکستان کی عالمی تصویر کو نئی شکل دی ہے۔ انہوں نے جنوری 2023ء میں جنیوا ڈونر کانفرنس میں $9 بلین کی بین الاقوامی امداد حاصل کی، جس میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کا شکار ملک کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان کی کوششوں سے پاکستان کی شناخت ایک پرامن اور ذمہ دار ملک کے طور پر ہوئی ہے، جس نے علاقائی تنازعات میں ثالثی کی کوششیں کی ہیں۔ امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے، جس میں پاکستان نے نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے بلکہ عالمی برادری میں اپنا کردار بھی مضبوط کیا ہے۔ امریکہ کی فوجی قیادت نے پاکستان کے پرامن اقدامات کی تعریف کی ہے، جس سے خطے میں اس کے کردار کو تقویت ملی ہے۔
پاکستان کے اقتصادی مستقبل کے حوالے سے عالمی بینک نے تجویز پیش کی ہے کہ اصلاحات پر عمل درآمد سے ترقی کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اقتصادی ترقی 2026ء میں 3.1 فیصد اور 2027ء میں 3.4 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ تاہم، یہ ترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ حکومت ساختی اصلاحات کو مؤثر طریقے سے نافذ نہ کرے۔ غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے مستقل اقتصادی ترقی ضروری ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی معیشت کے لیے چیلنج ہیں۔ ان مسائل کے باوجود، پاکستان کے پاس ترقی کے بڑے مواقع موجود ہیں، خاص طور پر ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبوں میں۔
پاکستان کی سفارتی کامیابیاں اور اقتصادی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اقتصادی ترقی کے بغیر سفارتی اثر و رسوخ محدود ہو سکتا ہے اور سفارتی کامیابیاں اقتصادی مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ پاکستان نے اس نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو اقتصادی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) جیسے منصوبوں نے نہ صرف اقتصادی ترقی میں مدد دی ہے بلکہ علاقائی رابطے بھی مضبوط کیے ہیں۔ مستقبل میں، پاکستان کو اپنے اقتصادی اور سفارتی اقدامات میں ہم آہنگی برقرار رکھنی ہوگی، تاکہ دونوں شعبوں میں حاصل ہونے والی کامیابیاں مستقل بنیادوں پر جاری رہ سکیں۔
پاکستان نے 2025ء میں سفارتی اور اقتصادی محاذ پر قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری، علاقائی تعاون میں اضافہ اور معیشت میں استحکام اس کے اہم کارنامے ہیں۔ تاہم، اب بھی بہت سے چیلنجز موجود ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے مستقل حکمتِ عملی اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان اپنی سفارتی اور اقتصادی پالیسیوں کو مؤثر طریقے سے برقرار رکھتا ہے، تو آنے والے سالوں میں اس کے لیے ترقی اور خوشحالی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ پاکستان کی کامیابیوں کا یہ سفر نہ صرف اس کے عوام کے لیے فائدہ مند ہے، بلکہ خطے اور عالمی برادری کے لیے بھی ایک مثبت قدم ہے۔

