مسلم اقتدار کے زوال کی تاریخ

مسلم اقتدار کے زوال کی داستان ایک ایسی المناک حقیقت ہے جو صرف ماضی کا نوحہ نہیں بلکہ حال کی بے سمتی اور مستقبل کے چیلنجز کا بھی ایک گہرا اشاریہ ہے۔ اس زوال کو صرف تخت و تاج، قلعوں اور سلطنتوں کے چھن جانے تک محدود سمجھنا محض تاریخی نادانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ زوال دراصل ایک ہمہ گیر اخلاقی، روحانی، فکری، تہذیبی اور ادارہ جاتی انہدام کا نام ہے، جس کا آغاز تو سلطنتوں کی شکست سے ہوا لیکن اس کی گہرائیاں دل و دماغ، اداروں اور افکار تک اتر چکی ہیں۔ جو امت کبھی اقوامِ عالم کی رہنما اور مظلوموں کی پناہ گاہ تھی، وہ آج خود محتاج، منتشر اور مغلوب ہو چکی ہے۔
اسلامی تاریخ کا آغاز ہجرتِ مدینہ سے نہیں بلکہ ایک فکری انقلاب سے ہوا تھا، جس نے فرد کی روحانی ساخت، سماجی کردار اور اجتماعی نصب العین کو یکجا کرکے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جو صدیوں تک دنیا میں علم و عدل کا چراغ بن کر چمکتی رہی۔ خلفائے راشدین کا عدل، بنو عباس کا علمی مرکز بغداد، اندلس کی علمی و تمدنی ترقی اور عثمانی خلافت کا سیاسی استحکام، سب ایک نظریاتی وحدت اور دینی بصیرت کا مظہر تھے۔ مگر یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوا جب امت نے قرآن کو فقط تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ ایک زندہ ضابطۂ حیات کے طور پر اپنایا اور جب یہی امت اپنے اصل ماخذ سے کٹ گئی اور دین رسم، عقیدہ تعصب، یا طبقاتی اجارہ داری کی شکل اختیار کر گیا، تو زوال نے دھیرے دھیرے اپنے پنجے گاڑنے شروع کیے۔
مسلمانوں کے زوال کا سب سے پہلا، بنیادی اور داخلی سبب ان کی اخلاقی پستی ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا جوہر فرد کی باطنی تربیت پر مرکوز ہے تقدس، سچائی، عدل، صبر، حلم، ایثار اور انفاق جیسے اوصاف ایک صالح معاشرے کی روح ہیں۔ مگر افسوس کہ جیسے جیسے مسلم معاشرے اقتدار کی حرص اور دنیاوی جاہ و حشمت کے پیچھے بھاگنے لگے، ان کے اندر سے یہ صفات ختم ہوتی چلی گئیں۔ دیانت کا تصور محض زبان تک محدود ہوگیا، امانتداری سیاست دانوں اور حکمرانوں کے قاموس سے مفقود ہوگئی اور برادری، نسل، علاقہ اور فرقہ پرستی نے اخوتِ اسلامی کی جڑیں کاٹ ڈالیں۔
دوسرا بڑا سبب فکری زوال ہے۔ جب امت نے فہمِ قرآن کو محدود کرکے اسے محض تلاوت، نعت اور تقریبات تک محدود کر دیا اور جب اجتہاد کا دروازہ بند کرکے تقلید کو مطلق بنا دیا گیا، تو دین ایک جمود زدہ مکتب فکر میں بدل گیا۔ علمائے حق کی جگہ درباری ملا، محققین کی جگہ مناظرے باز اور اصلاح پسندوں کی جگہ فتوہ فروش آ گئے۔ مدارس وہیں کے وہیں کھڑے رہ گئے جہاں وہ صدیوں پہلے تھے اور جدید جامعات میں دینی فکر کو بے دخلی کا سامنا رہا۔ اس فکری خلا کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف شدت پسند گروہ پیدا ہوئے جنہوں نے دین کو دہشت، تعصب اور تنگ نظری سے جوڑ دیا اور دوسری طرف وہ طبقہ پروان چڑھا جو مغرب کی ہر بات کو دلیل اور ہر فکر کو معیار سمجھ بیٹھا۔
اس فکری انتشار نے مسلم اقوام کے اندر سیاسی زوال کو جنم دیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے انہدام کے بعد جو خلا پیدا ہوا وہ آج تک پر نہیں ہو سکا۔ برطانوی و فرانسیسی سامراج نے مسلم دنیا کو مصنوعی سرحدوں، عارضی ریاستوں اور نوآبادیاتی اداروں میں بانٹ دیا۔ ان کے ذریعہ اقتدار میں ایسے طبقات کو داخل کیا گیا جو فکری و روحانی طور پر مغرب کے غلام تھے۔ آج بھی مسلم ممالک کی قیادتیں عوامی امنگوں سے زیادہ بیرونی طاقتوں کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔ ان کی خارجہ پالیسیاں قومی مفادات کی بجائے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یا جی سی سی کے مفادات سے جڑی ہوئی ہیں۔ بیشتر مسلم ممالک میں جمہوریت ایک نمائشی شعار، میڈیا ایک کنٹرولڈ ادارہ اور پارلیمان محض مہر تصدیق بن چکی ہے۔
اسی سیاسی بدحالی نے معاشی زوال کی بنیاد رکھی۔ مسلم دنیا کے پاس قدرتی وسائل کی کثرت ہے تیل، گیس، سونا، کوئلہ، زراعت، ماہی گیری اور افرادی قوت جیسے شعبوں میں خود کفالت ممکن ہے۔ لیکن چونکہ اقتدار اہل لوگوں کے بجائے طبقہء اشرافیہ کے ہاتھوں میں رہا، اس لیے یہ وسائل قومی ترقی کے بجائے مخصوص خاندانوں اور بین الاقوامی کمپنیوں کے مفادات کی نذر ہو گئے۔ کرپشن، اقرباپروری اور بیوروکریٹک رکاوٹوں نے ترقی کے دروازے بند کیے۔ آج اسلامی دنیا کی بڑی اکثریت غربت، بیروزگاری، تعلیم و صحت کی محرومی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
مسئلہ صرف اتنا نہیں کہ زوال آیا، مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اس زوال کی وجوہات کو نہ علمی سطح پر سمجھنے کی کوشش کی، نہ اصلاحی منصوبہ بندی کی، نہ نسلِ نو کی فکری تربیت پر توجہ دی اور نہ ہی اتحادِ امت کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا۔ ہم آج بھی اسی بیانیے میں گرفتار ہیں کہ "سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا"، یا "دشمنوں کی سازشیں ہیں"، حالانکہ قرآن کہتا ہے: "قُلُ هُوَ مِنُ عِندِ أَنفُسِكُمُ" (آل عمران: 165)۔ زوال ہم پر مسلط نہیں کیا گیا، ہم نے خود اسے دعوت دی ہے۔
اس پس منظر میں اب سوال پیدا ہوتا ہے: کیا کوئی راستہ نجات ہے؟ کیا امت دوبارہ کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے؟ اس کا جواب نہ صرف "ہاں" ہے بلکہ "یقینی ہاں" ہے۔ بشرطیکہ ہم سنجیدہ، علمی اور ہمہ گیر تجدیدِ فکر و عمل کی طرف بڑھیں۔ اس کے لیے چند نکات کلیدی اہمیت رکھتے ہیں:
1۔ قرآن سے زندہ تعلق پیدا کیا جائے محض تلاوت، تراویح اور جزدان میں لپیٹنے کی بجائے قرآن کو فکری رہنما بنایا جائے۔
2۔ فکرِ اسلامی کی تجدید ہو جدید علوم، سوشل سائنسز، ٹیکنالوجی، قانون، بین الاقوامی تعلقات وغیرہ میں اسلامی اصولوں کی تطبیق کی جائے۔
3۔ تعلیم کا انقلابی اصلاحی ماڈل متعارف ہو، جو روحانی، فکری، تحقیقی اور عملی پہلوؤں کو یکجا کرے۔
4۔ قیادت کی اصلاح کی جائے علم، تقویٰ، وژن، اخلاص اور اصول پسندی پر مبنی سیاسی و سماجی قیادت کو فروغ دیا جائے۔
5۔ اتحادِ امت کا عملی ایجنڈا بنایا جائے جو مسلک، نسل، جغرافیہ اور زبان سے بالاتر ہو۔
یہ سب کچھ راتوں رات ممکن نہیں، مگر اس کا آغاز ضرور ہو سکتا ہے۔ اسلامی تحریکات، دینی جامعات، فکری مراکز، اسلامی بین الاقوامی تنظیمیں اور مخلص افراد اگر مل کر ایک فکری، اخلاقی اور ادارہ جاتی تجدید کا بیڑہ اٹھائیں، تو 21، ویں صدی امت کے لیے نئی روحِ بلالی، نیا عزمِ صلاح الدینی اور نئی حکمتِ فاروقی کا پیغام بن سکتی ہے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ "إِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوُمٍ حَتّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمُ" (الرعد: 11)۔ تبدیلی باہر سے نہیں آتی، یہ اندر سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اس زوال کو سمجھا، قبول کیا اور اپنے رویوں، نظاموں اور افکار کو بدلنے کی جدوجہد کی، تو یقیناََ تاریخ ایک بار پھر امت کو عظمت و قیادت کے مقام پر فائز کرے گی۔

