Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Manto Ki Nagri Mein

Manto Ki Nagri Mein

منٹو کی نگری میں

آج کل اپنے شہر کراچی کی اخلاقی و جنسی زبوں حالی دیکھ کر سعادت حسن منٹو کے مشہور مقدمات سے منسوب ایک جملے کی بازگشت میرے ذہن میں مسلسل گونج رہی ہے۔

منٹو پر بارہا فحش نگاری (Obscenity) کے الزامات لگے اور اُنہیں برصغیر کے مختلف شہروں کی عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ لاہور، بمبئی اور راولپنڈی کی عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔ ان مقدمات کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ منٹو معاشرتی حقیقتوں کو ننگی اور کھری زبان میں پیش کرتے تھے، جسے اُس وقت کے اخلاقی پیمانوں پر "فحش" کہا جاتا تھا۔

ایک ایسے ہی مقدمے کے دوران جج نے منٹو سے کہا تھا: "منٹو، تم بہت گند لکھتے ہو"۔

جس پر منٹو نے اپنی مخصوص بے باکی اور طنزیہ انداز میں جواب دیا: "جج صاحب! آپ گند صاف کر دیں، میں لکھنا بند کر دوں گا"۔

یہ مکالمہ منٹو کے فن اور اُن کی سوچ کی اصل عکاسی کرتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ "گند" تخلیق نہیں کرتے بلکہ وہ تو صرف اُس "گندے معاشرے" کی تصویر کشی کرتے ہیں جو اُن کے اردگرد موجود ہے۔ منٹو کے نزدیک اگر سماج سے گندگی ختم ہو جائے تو اُنہیں اس پر لکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

یہی وجہ ہے کہ منٹو نے کہا تھا: "میں فحش نگار نہیں، حقیقت نگار ہوں"۔

"میں معاشرے کی گندگی کو دکھاتا ہوں، اگر آپ کو برا لگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گندگی اصل میں معاشرے میں ہے، میری تحریر میں نہیں"۔

"اگر آپ میری تحریروں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے"۔

مختصر یہ کہ یہ مکالمہ کسی ڈرامائی منظر کی طرح نہیں بلکہ ایک حقیقی عدالتی کارروائی میں ہوا تھا، جب منٹو پر فحش نگاری کا مقدمہ زیرِ سماعت تھا۔ اس نے منٹو کو مزید مشہور کیا اور اُن کی بے خوف شخصیت کو اجاگر کیا۔

ان مقدمات نے منٹو کو مزید مشہور کر دیا۔ عدالتیں اُنہیں خاموش نہ کرا سکیں۔ وہ اپنی وفات (1955) تک وہی لکھتے رہے جو اُنہیں سچ لگتا تھا۔ مگر ان مقدمات، جرمانوں اور سماجی دباؤ نے اُن کی ذہنی اور جسمانی صحت کو شدید متاثر کیا۔

منٹو کی نگری میں، تاریخی پس منظر اور سماجی جڑیں۔۔

منٹو اگر آج زندہ ہوتے اور کراچی کی گلیوں، ہوٹلوں اور چوراہوں پر بکھری ہوئی حقیقتوں کو دیکھتے تو شاید اپنے افسانوں کی تلخیاں کم اور حقیقتوں کی شدت زیادہ محسوس کرتے۔ ان کے کردار جو کبھی لاہور کی تنگ گلیوں اور کچی آبادیوں سے اٹھ کر انسانی جبلتوں کے عریاں چہرے سامنے لاتے تھے، آج کے کراچی میں نہ صرف جیتے جاگتے ملتے ہیں بلکہ زیادہ منظم، زیادہ جدید اور کہیں زیادہ ننگے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ یہ دھندہ کیوں اور کہاں سے چلا، سوال یہ ہے کہ یہ ہماری سماجی ساخت میں اس قدر گہرا کیوں اتر گیا کہ قانون، مذہب، اخلاق اور تہذیب سب کی دیواریں بے بس دکھائی دینے لگیں۔

اگر ہم تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو جسم فروشی یا طوائف کا وجود برصغیر کی تہذیب میں نیا نہیں۔ مغلیہ دور سے لے کر برطانوی استعمار تک، طوائفیں محض جسم کی نمائش یا بیوپار کرنے والی عورتیں نہ تھیں، بلکہ موسیقی، رقص اور شاعری کی تربیت گاہیں بھی انہی کے ہاں تھیں۔ ان کے درباروں میں شعرا بیٹھتے، گائک اپنی محفل جماتے اور نوابین اپنے شوق پورے کرتے۔ یہ سلسلہ محض لذت یا خواہش کے گرد نہیں گھومتا تھا، بلکہ ایک طرح کا تہذیبی ادارہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ جب معاشرتی اقدار زوال پذیر ہوئیں، اقتدار بدل گیا اور تہذیب سے زیادہ شہوت غالب آگئی، تو یہ فن محض بازار کی جنس میں بدل گیا۔

برطانوی راج کے دور میں اس کاروبار کو قانونی شکل بھی دی گئی۔ بڑے شہروں میں مخصوص کوٹھے قائم ہوئے، جہاں پولیس اور حکومتی اہلکاروں کی نگرانی میں یہ دھندہ چلتا رہا۔ تقسیم ہند کے بعد نئی ریاست پاکستان میں انگریزی قوانین کا بڑا حصہ منتقل ہوا، مگر معاشرتی و اخلاقی دباؤ نے طوائفوں کو وہ سماجی مقام نہ دیا جو پہلے تھا۔ لاہور کی ہیرا منڈی سے لے کر کراچی کے ناپا (نیپئر روڈ) تک یہ کاروبار دباؤ میں تو آیا مگر ختم نہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی قانون اور مذہبی اخلاقیات نے اسے ممنوع تو قرار دیا، لیکن سماجی حقیقت یہ ہے کہ مرد کی خواہش اور عورت کی مجبوری نے اس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھا۔

کراچی، جو ایک کاسموپولیٹن شہر کی حیثیت اختیار کر گیا، اپنی تیز رفتار زندگی، کثیر آبادی، غربت اور بے روزگاری کے باعث اس کاروبار کا مرکز بن گیا۔ یہاں نہ صرف دیہی علاقوں سے آنے والی مجبور خواتین بلکہ ملک کے مختلف حصوں سے روزگار کی تلاش میں آنے والی لڑکیاں بھی اس دھندے میں دھکیلی گئیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ معاشی تنگی، مردانہ حاکمیت اور سماجی ناانصافی کے ایسے امتزاج سے ہوا جس میں عورت کے پاس بظاہر اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔

آج جب ہم کراچی کی مین شاہراہوں، فائیو اسٹار ہوٹلوں، یا پوش علاقوں کے خفیہ اپارٹمنٹس پر نگاہ ڈالتے ہیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جسم فروشی اب محض ناپا یا مخصوص گلیوں تک محدود نہیں رہی۔ یہ جدید ٹیکنالوجی، موبائل ایپس، سوشل میڈیا اور آن لائن نیٹ ورکس کے ذریعے منظم کاروبار کی صورت اختیار کر چکی ہے"۔ پرائیویٹ ویمن" یا "ایسکارٹ سروسز" کے نام پر یہ دھندہ اب ایک نئی شناخت کے ساتھ موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاشرہ جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، وہاں یہ کھلا تضاد کیسے روا ہے؟

اس تضاد کا جواب تاریخ کے اوراق میں بھی ملتا ہے۔ معاشرے جب اخلاقی زوال کا شکار ہوتے ہیں تو ان کی بنیادیں صرف قانون سے قائم نہیں رہتیں۔ قانون گرفت کرتا ہے مگر خواہشات اپنا راستہ نکال لیتی ہیں۔ پولیس کی ملی بھگت، سماجی خاموشی اور اخلاقی کمزوری اس کاروبار کو پنپنے کا موقع دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ مردانہ سوچ جو عورت کو محض ایک جسم سمجھتی ہے، اس آگ کو مسلسل ایندھن مہیا کرتی ہے۔

منٹو نے اپنے افسانوں میں جو عورت دکھائی تھی وہ محض گناہ کی علامت نہیں تھی بلکہ مرد کی ہوس اور سماج کی منافقت کا آئینہ تھی۔ آج کراچی کی حقیقت بھی یہی ہے۔ وہ لڑکیاں جو دن میں کسی اسکول میں پڑھاتی ہیں، کسی دفتر میں کام کرتی ہیں، یا کسی بوتیک پر بیچاری سی سیلز گرل نظر آتی ہیں، رات کے اندھیروں میں مجبوراً یا لالچاً کسی "کسٹمر" کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ اس کے پس پردہ کہانی غربت کی ہے، جبر کی ہے، یا بعض اوقات دولت کی ہوس کی بھی۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ یہ سب ہو کیسے رہا ہے؟

ریاست کے قوانین واضح ہیں۔ جسم فروشی نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ مذہب اسلام کے خلاف بھی ہے۔ مگر قانون اور حقیقت کے درمیان جو خلیج ہے وہی اس کاروبار کو پروان چڑھاتی ہے۔ پولیس جب اپنی ذمہ داری فرض شناسی سے نہیں بلکہ مالی مفاد کے تحت نبھاتی ہے تو کوٹھے آباد رہتے ہیں۔ جب معاشرتی اقدار صرف تقریروں اور کتابوں میں محدود ہو جائیں تو کردار بکتے ہیں۔ جب تعلیم عورت کو بااختیار بنانے میں ناکام رہتی ہے تو وہ اپنی بقا کے لیے جسم کا سودا کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا یہ سب کچھ ختم ہو سکتا ہے؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جسم فروشی کو مکمل طور پر ختم کرنا کبھی ممکن نہ ہوا۔ چاہے وہ قدیم یونان ہو یا برصغیر، چاہے یورپ کی عیسائی ریاستیں ہوں یا جدید مسلم ممالک، یہ کاروبار کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ زندہ رہا۔ مگر فرق یہ ہے کہ کہیں یہ کھلے عام چلتا ہے، کہیں پردے کے پیچھے۔

کراچی کی موجودہ تصویر میں یہ کاروبار زیادہ بھیانک اس لیے لگتا ہے کہ ایک طرف ہم مذہب اور اخلاق کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف وہی سماج اس کاروبار کا سب سے بڑا گاہک بھی ہے۔ یہ دوغلا پن ہی اصل ناسور ہے۔ منٹو نے کہا تھا کہ "معاشرہ طوائف کو برا کہتا ہے مگر اس کے گاہک کو برا نہیں کہتا"۔ آج بھی یہی سچ ہے۔ اگر یہ کاروبار ختم کرنا ہے تو صرف عورت کو الزام دینے سے کچھ نہیں ہوگا، اصل تبدیلی مرد کی سوچ اور سماجی رویے میں لانی ہوگی۔

جسم فروشی کوئی نئی یا اچانک جنم لینے والی لعنت نہیں، بلکہ اس کی جڑیں تاریخ میں گہری پیوست ہیں۔ کراچی کی موجودہ حالت اسی تاریخی سلسلے کی توسیع ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ آگے اس کا انجام کیا ہوگا؟ کیا ہم اس کو محض اخلاقی تنقید سے دبانے کی کوشش کریں گے یا سماجی اصلاح اور حقیقی عدل کے ذریعے اس کے اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے؟

جدید ٹیکنالوجی اور سیکس انڈسٹری۔۔

زمانہ بدلتا ہے تو دھندوں کے طریقے بھی بدل جاتے ہیں۔ کبھی طوائف کے کوٹھے کی گلیوں میں چراغ جلتے تھے، آج وہ چراغ اسمارٹ فون کی اسکرین پر جھلملاتے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے اور تیز رفتار شہر میں جسم فروشی نے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر ایک نیا روپ اختیار کر لیا ہے۔ یہ اب صرف ناپا یا نیپئر روڈ کی تنگ گلیوں میں محدود نہیں رہا، بلکہ ایپس، سوشل میڈیا اور خفیہ آن لائن نیٹ ورکس کے ذریعے ایک منظم "انڈسٹری" بن چکا ہے۔

اسمارٹ فون نے زندگی آسان بھی کی اور پیچیدہ بھی۔ وہی موبائل جو تعلیم، کاروبار اور رابطے کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا، اب راتوں رات "ایسکارٹ سروس" کا اشتہار بھی بن جاتا ہے۔ انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ اور واٹس ایپ کے نجی گروپس میں تصاویر اور "پیکجز" بانٹے جاتے ہیں، جیسے کوئی عام کاروباری ڈیل چل رہی ہو۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس پورے عمل میں زبان بھی بدل گئی ہے۔ اب لفظ "کال گرل" کے بجائے "پرائیویٹ وومن"، "ایسکارٹ" یا "ماڈل سروس" جیسے اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں، تاکہ دھندے کو "پیشہ" نہیں بلکہ "سروس" کا روپ دیا جا سکے۔

کراچی کے پوش علاقوں میں یہ کاروبار زیادہ ہائی پروفائل انداز میں ہوتا ہے۔ بڑے ہوٹلوں میں"کارپوریٹ کلائنٹس" کے نام پر کمرے بک ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اتنے منظم انداز میں ہوتا ہے کہ عام شخص کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کس کمرے کے پیچھے کون سی داستانیں چل رہی ہیں۔ اپارٹمنٹس اور فلیٹس بھی اس کاروبار کے لیے کرائے پر دیے جاتے ہیں۔ کئی بار یہ فلیٹس مستقل "ڈین" کا روپ دھار لیتے ہیں، جہاں نہ صرف جسم فروشی ہوتی ہے بلکہ منشیات، شراب اور دیگر غیر قانونی سرگرمیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

یہ سب کچھ پولیس اور انتظامیہ کی آنکھوں سے اوجھل نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ کاروبار اب محض چند "عورتوں" کا نہیں رہا بلکہ ایک پوری چین ہے جس میں ایجنٹ، دلال، ہوٹل مالکان اور بعض اوقات قانون کے رکھوالے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کاروبار بند نہیں ہوتا بلکہ دن بہ دن پھیلتا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی نے گاہک کے لیے سہولت پیدا کر دی ہے۔ وہ اب گلی کے اندھیرے میں جا کر دستک دینے کے بجائے چند کلکس میں ملاقات طے کر لیتا ہے۔ ادائیگی بھی "آن لائن ٹرانسفر" یا "ایزی پیسہ" جیسے ذرائع سے ہونے لگی ہے۔ یہ سب کچھ اس کاروبار کو زیادہ محفوظ اور منظم بنا دیتا ہے، کم از کم ان لوگوں کے لیے جو اس دھندے کے اندر ہیں۔ مگر اصل خطرہ یہ ہے کہ اس سہولت کے نتیجے میں یہ دھندہ زیادہ تیزی سے عام ہو رہا ہے۔

ٹیکنالوجی نے اس انڈسٹری کو صرف وسعت ہی نہیں دی بلکہ اس کے اثرات کو زیادہ پیچیدہ بھی کر دیا ہے۔ اب صرف متوسط یا غریب طبقے کی لڑکیاں نہیں، بلکہ اچھی فیملی سے تعلق رکھنے والی، تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی اس طرف راغب ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کی چکاچوند، مہنگی زندگی کے خواب اور دولت کی تیز رفتار کشش ان کے لیے ایسے جال بنتی ہے جس سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔

یہاں ایک پہلو اور بھی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے گاہک کے رویے کو بھی بدل دیا ہے۔ اب وہ زیادہ "ڈیمانڈنگ" ہوگیا ہے۔ وہ صرف جسم نہیں چاہتا، وہ "ماڈل لُک"، "ایجوکیٹڈ کنورسیشن" اور "پریمیئم سروس" کا تقاضا کرتا ہے۔ اس تقاضے نے ایک نئی نسل کو اس کاروبار کی طرف کھینچ لیا ہے، کیونکہ اب یہ دھندہ محض جسم بیچنے تک محدود نہیں رہا بلکہ اسے ایک "پیکیج" کی شکل دی جا رہی ہے، بالکل کسی کارپوریٹ پروڈکٹ کی طرح۔

سوال یہ ہے کہ اس کا سدباب کیسے ممکن ہے؟ ٹیکنالوجی نے جہاں سہولت دی ہے وہاں ریاست کے لیے نگرانی مشکل بھی بنا دی ہے۔ پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اب صرف ناپا کی گلی میں چھاپہ مارنے سے یہ کاروبار ختم نہیں کر سکتے۔ انہیں سائبر نیٹ ورک تک پہنچنا ہوگا، آن لائن ٹریکننگ کرنی ہوگی اور ان خفیہ گروپس کو توڑنا ہوگا۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی منظم پالیسی نظر نہیں آتی۔

منٹو اگر آج اس منظر کو دیکھتے تو شاید کہتے کہ "گلیوں کا دھندہ ختم ہوگیا مگر بیڈ رومز کے پردے اور اسمارٹ فون کی اسکرینیں زیادہ ننگی ہوگئیں"۔ آج کا کراچی اسی ننگے پن کی زندہ مثال ہے۔ یہ صرف عورت کا سوال نہیں، یہ پورے سماج کی منافقت، کمزوری اور بے بسی کا سوال ہے۔

یہ دوسرا حصہ بتاتا ہے کہ کیسے جدید ٹیکنالوجی نے اس کاروبار کو ایک "انڈسٹری" کی شکل دے دی ہے۔ اگلا حصہ اس کے سماجی اور اخلاقی اثرات پر ہوگا، کہ یہ دھندہ صرف جسم تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے معاشرے کے اخلاق، خاندان اور مستقبل کو بھی کھوکھلا کرتا ہے۔

سماجی و اخلاقی زوال۔۔

جسم فروشی محض ایک فرد کی خواہش یا مجبوری کا نام نہیں، یہ پورے معاشرے کے اجتماعی رویے اور اخلاقی معیار کا عکاس ہے۔ جب کسی سماج میں یہ کاروبار کھلے عام پھلنے پھولنے لگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں فرد اور خاندان دونوں اپنی بنیادی اقدار کھو چکے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں اس دھندے کی وسعت اور جڑیں ہمیں اس سچائی سے روبرو کراتی ہیں کہ ہمارا سماجی ڈھانچہ زوال کی ایسی منزل پر کھڑا ہے جہاں قانون کمزور ہے، مذہب محض رسم رہ گیا ہے اور اخلاقیات صرف تقریروں تک محدود ہیں۔

خاندان کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔ مگر جب مرد اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے باہر کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کے رشتے اور اعتماد کمزور ہو چکے ہیں۔ شادی جو ایک مقدس بندھن اور باہمی اعتماد پر قائم ادارہ ہے، وہ اس وقت بکھرنے لگتا ہے جب مرد کو باہر زیادہ کشش دکھائی دیتی ہے یا عورت حالات کی مجبوری کے تحت اپنے جسم کا سودا کرتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچوں کی پرورش متاثر ہوتی ہے، گھر کا سکون غارت ہوتا ہے اور خاندان محض ایک چھت کے نیچے چند افراد کا اجتماع رہ جاتا ہے۔

اخلاقی زوال کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ معاشرہ برائی کو جانتے ہوئے بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ کراچی میں ہوٹلوں، فلیٹس اور سڑک کنارے یہ سب کچھ سب کو نظر آتا ہے، مگر لوگ خاموش رہتے ہیں۔ یہ خاموشی دراصل شراکت ہے۔ ہم برائی کو اس وقت تک برائی نہیں مانتے جب تک وہ ہمارے اپنے گھر کے اندر نہ آ جائے اور جب یہ اندر آتی ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

منٹو نے اپنے افسانوں میں ہمیشہ یہ دکھایا کہ عورت اصل مجرم نہیں بلکہ وہ معاشرہ ہے جو اس کو اس حال پر مجبور کرتا ہے۔ آج بھی یہی حقیقت ہے۔ ایک طرف ہم عورت کو بدکردار کہتے ہیں، دوسری طرف وہی عورت کسی نہ کسی مرد کی خواہش پوری کر رہی ہوتی ہے۔ اصل مجرم وہ سوچ ہے جو مرد کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے لیے دوسروں کی عزت اور جسم خرید سکتا ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو عورت کو محض ایک شے سمجھتی ہے اور اسے استعمال کرکے چھوڑ دیتی ہے۔

سماجی زوال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دولت کی اندھی دوڑ نے ہر رشتے کو کمزور کر دیا ہے۔ جب نوجوان لڑکیاں صرف چند ہزار یا چند لاکھ روپے کے لالچ میں اپنے جسم کا سودا کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اور سماجی ادارے انہیں بہتر راستے دینے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری دینا رہ گیا ہے، کردار سازی اب نصاب کا حصہ نہیں۔ یوں دولت کی خواہش ہر اصول پر غالب آ جاتی ہے۔

اخلاقی زوال صرف ان عورتوں یا مردوں تک محدود نہیں جو اس دھندے میں براہ راست شامل ہیں۔ اصل زوال تو ان لوگوں میں ہے جو بظاہر شریف اور عزت دار کہلاتے ہیں مگر اندر سے وہی خواہشات رکھتے ہیں۔ دن کو مسجد میں نماز پڑھتے ہیں اور رات کو ہوٹل یا فلیٹ میں کسی "پرائیویٹ وومن" کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ یہ منافقت ہی سب سے بڑی بیماری ہے۔ معاشرے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سچ اور جھوٹ کی لکیر دھندلی ہو جاتی ہے۔

یہ دھندہ نسلوں کو متاثر کرتا ہے۔ وہ بچے جو ایسے ماحول میں پلتے ہیں جہاں ماں باپ کے تعلقات کمزور ہوں، جہاں دولت اور شہوت کا غلبہ ہو، وہاں وہی بچے آگے چل کر اسی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ یوں ایک برائی صرف ایک نسل تک محدود نہیں رہتی بلکہ آنے والی نسلوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔

اگر ہم ایمانداری سے دیکھیں تو کراچی کا موجودہ اخلاقی زوال صرف جسم فروشی کے کاروبار کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس سوچ کی وجہ سے ہے جو اسے برداشت کرتی ہے، سہارا دیتی ہے اور بعض اوقات اس کا حصہ بنتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کے خلاف اجتماعی سطح پر کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں یا نہیں؟ جب تک مرد اپنی خواہشات پر قابو نہیں پائے گا، جب تک ریاست اپنے قانون کو سنجیدگی سے نافذ نہیں کرے گی، جب تک معاشرتی اقدار کو عملی زندگی میں نہیں لایا جائے گا، تب تک یہ دھندہ ختم ہونا تو دور کی بات ہے، بلکہ مزید پھیلے گا۔

منٹو اگر آج ہوتے تو شاید کہتے: "یہ نگری اب میری نہیں، یہ تو اس سے بھی زیادہ ننگی ہے جسے میں نے لکھا تھا"۔ آج کے کراچی کا المیہ یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں مگر پھر بھی کچھ نہیں کرتے۔ یہی خاموشی، یہی بے حسی، یہی اصل اخلاقی زوال ہے۔

سدباب اور اصلاحی راستے۔۔

کسی بھی معاشرتی برائی پر بات کرنا آسان ہے مگر اس کا حل تجویز کرنا سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں جسم فروشی نے ایک منظم شکل اختیار کر لی ہے، وہاں یہ سوال اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ اس کا سدباب کیسے کیا جائے؟ کیا محض پولیس کی چھاپہ مار کارروائیاں کافی ہوں گی؟ کیا محض مذہبی تقریریں اور وعظ اس برائی کو ختم کر سکتے ہیں؟ یا اس کے لیے ہمیں سماج کی گہرائی میں اتر کر کوئی مستقل اور جامع حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی؟

سب سے پہلا قدم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ قانون تو موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد کمزور ہے۔ جب تک پولیس خود اس کاروبار میں شریک رہے گی یا مالی فائدے کے لیے آنکھیں بند کرتی رہے گی، یہ دھندہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں احتساب کا سخت نظام قائم ہو۔ اگر کوئی اہلکار اس کاروبار کو سہارا دیتا ہے تو اسے وہی سزا دی جائے جو اصل مجرم کو ملتی ہے۔ قانون کی عملداری کے بغیر اصلاح کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔

دوسرا قدم سماجی سطح پر اٹھانا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عورت محض جسم نہیں بلکہ ایک انسان ہے، جس کے خواب، عزت اور وجود بھی ہے۔ جب تک ہم اپنی اجتماعی سوچ کو تبدیل نہیں کریں گے، یہ کاروبار ختم نہیں ہوگا۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگریاں دینا نہیں بلکہ کردار سازی ہونا چاہیے۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اخلاقیات اور سماجی ذمہ داری کو نصاب کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ نئی نسل صرف پیسے کی دوڑ میں نہ بھاگے بلکہ انسانیت اور اقدار کو بھی اہمیت دے۔

تیسرا قدم معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ اکثر خواتین جو اس دھندے میں آتی ہیں، وہ غربت، بیوگی، یا بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہوتی ہیں۔ اگر ریاست انہیں روزگار، ہنر سکھانے اور باعزت کام فراہم کرنے کے مواقع دے تو وہ کبھی اپنے جسم کا سودا نہ کریں۔ خواتین کے لیے چھوٹے قرضے، کاروباری مواقع اور محفوظ ورک اسپیسز فراہم کرنا اس برائی کو کم کر سکتا ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ جب تک عورت کے پاس متبادل راستے نہیں ہوں گے، وہ اس اندھی گلی سے نکل نہیں سکے گی۔

چوتھا پہلو مذہب اور اخلاقیات سے جڑا ہوا ہے۔ اسلام نے ہمیشہ عورت کو عزت اور تحفظ دیا ہے۔ اگر معاشرہ واقعی اپنی اسلامی شناخت کو اپنانا چاہتا ہے تو اسے صرف وعظ پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ عملی طور پر عورت کو وہ مقام دینا چاہیے جو اسلام نے دیا ہے۔ مساجد، مدارس اور مذہبی قیادت کو چاہیے کہ وہ برائی کو صرف عورت سے منسوب نہ کریں بلکہ مردوں کو بھی جوابدہ ٹھہرائیں۔ خطبوں میں صرف طوائف کو برا کہنے کے بجائے اس گاہک کو بھی برا کہا جائے جو اس برائی کا اصل سہارا ہے۔

پانچواں پہلو میڈیا اور ٹیکنالوجی کا ہے۔ آج جب سوشل میڈیا اس دھندے کو پھیلا رہا ہے تو اسی سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے خلاف آگاہی بھی دی جا سکتی ہے۔ ڈراموں، فلموں اور اشتہارات میں عورت کو صرف ایک دلکش چہرہ یا جسم بنا کر دکھانے کے بجائے ایک باعزت اور باشعور کردار کے طور پر پیش کیا جائے۔ میڈیا جب تک عورت کو صرف "آبجیکٹ" دکھاتا رہے گا، معاشرہ بھی اسی نظر سے دیکھے گا۔

چھٹا پہلو ہم سب کی ذاتی ذمہ داری ہے۔ برائی کو دیکھ کر خاموش رہنا سب سے بڑا جرم ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے حصے کا فرض ادا کرے، اپنے گھر اور خاندان کی تربیت پر توجہ دے، عورت کو عزت دے اور اپنے رویے کو بدلے، تو یہ دھندہ اپنی جڑوں سے کمزور ہو سکتا ہے۔ یہ ایک اجتماعی جدوجہد ہے اور اس میں ہر فرد کا کردار ہے۔

منٹو نے اپنے افسانوں میں ہمیں آئینہ دکھایا تھا۔ آج وہ آئینہ ہمارے سامنے پہلے سے زیادہ شفاف کھڑا ہے۔ ہم اس میں صرف عورت کا بدن نہ دیکھیں، بلکہ اپنی منافقت، اپنی کمزوری اور اپنی بے حسی کو بھی پہچانیں۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

کراچی کا مستقبل اسی پر منحصر ہے کہ ہم اسے "منٹو کی نگری" سے نکال کر ایک ایسے شہر میں بدل سکیں جہاں عورت کو بکاؤ مال نہ سمجھا جائے بلکہ ایک باعزت شہری مانا جائے۔ یہ راستہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ سچائی، انصاف اور عزت کے علمبردار بنیں۔

ہمارا معاشرہ آج جس اخلاقی و جنسی زبوں حالی کے گرداب میں گرفتار ہے، وہ محض چند افراد کی کمزوری یا وقتی لغزش نہیں بلکہ اجتماعی اقدار کے زوال اور روحانی دیوالیہ پن کی غمازی کرتا ہے۔ وہ اقدار جو کبھی معاشرت کی بنیاد سمجھی جاتی تھیں، آج محض کتابوں میں دفن ہو کر رہ گئی ہیں۔ دیانت، حیا، وفاداری اور سچائی کے چراغ بجھتے جا رہے ہیں جبکہ جھوٹ، فریب، ریاکاری اور ہوس نے اپنی جڑیں گہری کر لی ہیں۔

قرآنِ حکیم میں بارہا اخلاقی اصولوں کو معاشرتی سکون کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "إِنَّ اللَّهَ يَأُمُرُ بِالُعَدُلِ وَالُإِحُسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الُقُرُبَىٰ وَيَنُهَىٰ عَنِ الُفَحُشَاءِ وَالُمُنكَرِ وَالُبَغُيِ" (النحل: 90)

یعنی اللہ عدل، احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اخلاقی اور جنسی زبوں حالی سے بچنا محض معاشرتی ضرورت نہیں بلکہ ربانی حکم بھی ہے۔

جنسی بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط آج اس نہج پر جا پہنچا ہے کہ خاندانی نظام متزلزل ہو رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "إنَّ الدُّنيا حُلوةٌ خَضِرةٌ، وإنَّ اللهَ مُستَخلِفُكم فيها فينظُرُ كيفَ تَعمَلونَ، فاتَّقوا الدُّنيا واتَّقوا النِّساءَ" (صحیح مسلم)

یعنی دنیا شیرینی اور سرسبزی سے بھری ہے، اللہ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا تاکہ دیکھے تم کیسے عمل کرتے ہو، پس دنیا کے فتنوں سے بچو اور عورتوں کے فتنے سے بھی بچو۔ اس ارشادِ نبوی سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنسی خواہشات میں بے اعتدالی کو کس قدر خطرناک فتنہ قرار دیا گیا ہے۔

یہی زوال ہے جسے منٹو نے اپنے افسانوں میں شدت سے محسوس کیا اور معاشرے کے سامنے آئینہ رکھ دیا۔ اس کے کردار چیختے ہیں کہ معاشرتی بدنصیبی کا اصل سبب اخلاقی اور جنسی توازن کا بگڑ جانا ہے۔ فیض احمد فیض نے بھی کہا تھا:

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

یہ اشعار محض سیاسی جبر نہیں بلکہ اخلاقی زبوں حالی کی علامت بھی ہیں۔ جب معاشرہ جھوٹ اور ہوس کا غلام بن جائے تو انسان کے سر سے عزت اور وقار کا تاج چھن جاتا ہے۔

آج کے میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی نے اخلاقی و جنسی زبوں حالی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ ایک کلک پر فحاشی، عریانی اور جنسی بے راہ روی کی ایسی دنیا کھلتی ہے جو نئی نسل کے ذہنوں کو مسموم کر رہی ہے۔ حالانکہ قرآن واضح حکم دیتا ہے: "وَلَا تَقُرَبُوا الزِّنَىٰ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا" (بنی اسرائیل: 32)

یعنی بدکاری کے قریب بھی نہ جاؤ، یہ بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔

اس زبوں حالی کا علاج محض نصیحتوں سے ممکن نہیں، بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعلیم میں کردار سازی، میڈیا میں ذمہ داری، قانون میں سختی اور سب سے بڑھ کر خاندان میں تربیت کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ والدین اگر اپنی ذمہ داری کو محض معاشی وسائل تک محدود رکھیں گے تو نئی نسل کا ذہن انٹرنیٹ اور سڑکوں کی تربیت سے تشکیل پائے گا۔

اقبال نے کہا تھا:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

یعنی ہر فرد کا کردار اجتماعی مستقبل کی ضمانت ہے۔ اگر فرد بگڑ جائے تو قوم بکھر جاتی ہے اور اگر فرد سنور جائے تو قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہے۔

آج کے حالات ہمیں پکار پکار کر یاد دلا رہے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی تو تاریخ ہمیں ان تہذیبوں کی صف میں شامل کر دے گی جو اپنی خواہشات اور بے راہ روی کے بوجھ تلے دب کر مٹ گئیں۔ مگر اگر ہم نے قرآن و سنت کی رہنمائی، اپنی ادبی روایت کی بصیرت اور اپنی اجتماعی غیرت کو بیدار کیا تو یہ زوال ہمارے احیاء کا نقطۂ آغاز بھی بن سکتا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam