Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Maghrabi Fikri Yalghar Ka Hama Geer Challenge

Maghrabi Fikri Yalghar Ka Hama Geer Challenge

مغربی فکری یلغار کا ہمہ گیر چیلنج

موجودہ صدی کا سب سے نمایاں تہذیبی چیلنج مغرب کی فکری یلغار ہے، جو نوآبادیاتی دور کے بعد اب علمی، ثقافتی، تعلیمی، سیاسی اور سائنسی ذرائع سے دنیا بھر پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ یہ چیلنج محض عسکری یا سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ یہ انسانی ذہن، قلب اور روح پر حملہ آور ہے۔ مغربی تہذیب نے اپنی بنیاد خالص انسان پرستی (Humanism)، عقلیت پرستی (Rationalism)، انفرادیت (Individualism) اور مادیت پرستی (Materialism) پر رکھی ہے۔ اس تہذیب نے مذہب کو معاشرت سے کاٹ کر ایک نجی معاملہ بنا دیا ہے اور انسان کو کائنات کا محور قرار دیا ہے۔ چنانچہ "خودمختار انسان" کا یہ نظریہ آج اقوامِ عالم کی فکری ساخت کو مسخ کر رہا ہے۔

مسلم معاشروں کے لیے اس کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ وہ اپنی تہذیبی خودی کھوتے جا رہے ہیں۔ مغربی علوم کی نقالی، مغربی جمہوریت کی اندھی تقلید، فیشن، میڈیا، سوشل نیٹ ورکنگ اور معیشت کے ڈھانچے نے مسلم ذہن کو فکری طور پر مرعوب کر دیا ہے۔ تہذیبی احساسِ کم تری، نوجوانوں کی فکری بے سمتی اور دینی شعور کی سطحی تفہیم اس چیلنج کو اور بھی سنگین بناتی جا رہی ہے۔

اسلام کے پاس اس چیلنج کا صرف دفاعی نہیں، بلکہ تخلیقی اور جامع نظریاتی جواب موجود ہے۔ اسلام کسی مخصوص قوم، خطے یا دور تک محدود تہذیب نہیں، بلکہ یہ الہامی ہدایت پر مبنی عالمگیر نظامِ حیات ہے۔ اسلامی تہذیب میں "عبدیت" اور "خلافت" دو بنیادی اقدار ہیں۔ انسان نہ محض ایک فطری مظہر ہے اور نہ ہی مطلق مختار، بلکہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور زمین پر اس کا نائب ہے۔ اسلام کا تصورِ انسان مادیت پر مبنی نظریات سے یکسر مختلف ہے، یہاں انسان کا مقصد محض نفع اور لذت کا حصول نہیں بلکہ خدا کی رضا، اخلاقِ حسنہ اور عدلِ کامل کا قیام ہے۔

اسلامی نظریاتی جواب کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے، جو نہ صرف عقائد و عبادات کا نظام دیتا ہے بلکہ تمدن، تعلیم، معیشت، سیاست، قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے بھی جامع ہدایات مہیا کرتا ہے۔ اسلام انسانی عقل کو اہمیت دیتا ہے مگر وحی کو اس کا رہنما بناتا ہے، تاکہ عقل سرکش نہ ہو بلکہ فطرت کے مطابق ہو۔ یہی توازن مغربی تہذیب میں مفقود ہے، جہاں عقل اور خواہش نے وحی اور اخلاق کی جگہ لے لی ہے۔

اسلامی تہذیب میں علم کی بنیاد توحید اور اخلاق پر ہے۔ علم کا مقصد محض دنیاوی ترقی یا ٹیکنالوجی کا فروغ نہیں، بلکہ روح کی تطہیر اور انسانی فلاح ہے۔ آج جب مغربی تعلیمی نظام نے انسان کو محض مشین کا پرزہ بنا دیا ہے، اسلام انسان کو کامل انسان بنانے کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ ہمیں ایسے تعلیمی ادارے اور نصاب درکار ہیں جو سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی تزکیہ، دینی شعور اور اخلاقی تربیت پر بھی زور دیں۔

مغربی تہذیب کے ایک اور مہلک پہلو کا تعلق "خاندانی نظام" سے ہے۔ مغرب میں خاندانی نظام کمزور ہو چکا ہے، ازدواجی بندھن ٹوٹ رہے ہیں، ماں باپ اور اولاد کے تعلقات منقطع ہو رہے ہیں، جنسی آزادی اور ہم جنس پرستی کو قانونی و اخلاقی جواز دیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس، اسلام خاندان کو معاشرتی استحکام کی اکائی قرار دیتا ہے۔ شادی، حیا، والدین کا احترام، اولاد کی تربیت اور وراثت کے احکام یہ سب خاندان کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک مربوط نظام فراہم کرتے ہیں۔

اسلامی معیشت بھی مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل ایک عادلانہ نظام فراہم کرتی ہے۔ سود پر مبنی مالیاتی نظام نے دنیا کو معاشی غلامی، طبقاتی تفریق اور عدم مساوات میں دھکیل دیا ہے۔ اسلام سود کو ظلم قرار دیتا ہے اور زکوٰۃ، صدقہ، وقف، مضاربت، مشارکت جیسے اصولوں پر مبنی فلاحی معیشت پیش کرتا ہے۔ اگر مسلم دنیا اپنی مالیاتی پالیسیوں کو اسلامی اصولوں پر استوار کرے تو نہ صرف اپنے اندرونی معاشی مسائل حل کر سکتی ہے بلکہ عالمی استحصال سے بھی آزاد ہو سکتی ہے۔

اسلامی نظریاتی جواب کا ایک اور لازمی پہلو "نظامِ حکومت" ہے۔ مغرب نے سیکولر جمہوریت کو حکومت کی مثالی شکل بنا کر پیش کیا، جہاں دین کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام حکومت کو محض طاقت یا عوامی خواہش کی بنیاد پر نہیں بلکہ شریعت کی اطاعت، عدل کے قیام اور امانت و مشاورت پر قائم دیکھنا چاہتا ہے۔ خلافتِ راشدہ کا نظام اس کی بہترین عملی مثال ہے، جہاں حکمران خود کو خادمِ امت سمجھتا تھا اور شریعت کو قانونِ اعلیٰ کا درجہ حاصل تھا۔

اسلامی نظریاتی جواب کو کامیاب بنانے کے لیے سب سے پہلے خود مسلمانوں کو اپنی فکری خودی کو پہچاننا ہوگا۔ ہمیں اسلام کو محض عبادات یا چند رسومات تک محدود رکھنے کے بجائے ایک ہمہ گیر تہذیبی نظریے کے طور پر سمجھنا اور اپنانا ہوگا۔ ہمیں مغربی فکری غلامی سے نکل کر اپنے اصل مآخذ قرآن، سنت، سیرت، اسلامی تاریخ اور مسلم مفکرین کی فکر کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اقبال نے درست کہا تھا:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

یہ خودی، یہ اعتماد، یہ ایمان اور یہ عمل ہی مغرب کے تہذیبی طوفان کا اصل جواب ہیں۔ ہمیں اپنے علمی و فکری محاذوں کو مضبوط بنانا ہوگا، اسلامی اسکالرز، مفکرین، معلمین، صحافی، تاجر اور حکمران سب کو اس نظریاتی جدوجہد میں شریک کرنا ہوگا۔ اسلامی تہذیب کی بازیافت کا سفر طویل اور کٹھن ضرور ہے، مگر ممکن اور ناگزیر بھی۔

خلاصہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کا چیلنج ہمارے دروازے پر دستک نہیں دے رہا، بلکہ اندر داخل ہو چکا ہے۔ اس کا مقابلہ صرف نعروں سے نہیں بلکہ شعور، فہم، حکمت اور عمل سے کیا جا سکتا ہے۔ اسلام ایک زندہ، مربوط اور الہامی نظریۂ حیات ہے، جو ہر دور، ہر خطے اور ہر انسان کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم اسے جانیں، مانیں اور اپنی زندگی میں نافذ کریں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan