اسلام میں استاد کے حقوق و فرائض

اسلام نے انسان کی تربیت اور تعلیم کو انتہائی اہمیت دی ہے اور اس تربیت و تعلیم کے عمل میں استاد کا مقام انتہائی بلند اور معزز قرار دیا ہے۔ استاد ایک ایسی شخصیت ہے جو طلبہ کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی، سماجی اور دینی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس مضمون میں ہم اسلام میں استاد کے حقوق و فرائض کا تفصیلی جائزہ لیں گے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ اسلامی تعلیمات میں استاد کا مقام کیا ہے اور ایک استاد پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
اسلام میں استاد کا مقام بہت بلند اور معزز ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ میں کئی مقامات پر علم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور استاد کو علم کے منتقلی کے لیے ایک اہم وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو فرشتوں سے افضل قرار دیتے ہوئے انہیں"علم الاسماء" کی تعلیم دی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم اور تعلیم انسانی فضیلت کا بنیادی عنصر ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "إنما بعثت معلما"۔ (سنن ابن ماجہ)
یعنی "مجھے معلم (استاد) بنا کر بھیجا گیا ہے"۔
اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد انسانوں کو تعلیم دینا اور ان کی تربیت کرنا تھا۔ اس سے اسلام میں استاد کا مقام اور اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
اسلام میں استاد کے فرائض کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے۔ ایک استاد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف علم کی ترسیل کرے بلکہ طلبہ کی اخلاقی، روحانی اور عملی زندگی میں بھی بہتری لانے کی کوشش کرے۔ استاد کے چند اہم فرائض درج ذیل ہیں:
1۔ تعلیم کی فراہمی:
استاد کا بنیادی فرض علم کی ترسیل ہے۔ اسلام میں تعلیم کا مقصد صرف علم کا حصول نہیں بلکہ عمل اور اخلاق کی بہتری بھی ہے۔ استاد کو چاہیے کہ وہ طلبہ کو مفید علم سکھائے جو ان کی دنیاوی اور اخروی زندگی میں کامیابی کا باعث بنے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: "يَرُفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمُ وَالَّذِينَ أُوتُوا الُعِلُمَ دَرَجَاتٍ"۔ (سورۃ المجادلہ: 11)
ترجمہ: "اللہ ان لوگوں کے درجات بلند فرمائے گا جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا"۔
استاد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ علم کی فراہمی ایک ذمہ داری ہے جس کا مقصد طلبہ کی زندگی کو سنوارنا اور ان کی شخصیت کو نکھارنا ہے۔
2۔ طلبہ کی تربیت:
اسلام میں تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔ ایک استاد کو صرف کتابی علم دینے والا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے طلبہ کی کردار سازی اور ان کی تربیت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "بے شک مجھے اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے"۔ (موطا امام مالک)
اس حدیث کی روشنی میں، استاد کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کو اخلاقی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم دے۔
3۔ طلبہ کی راہنمائی:
ایک استاد کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ طلبہ کو زندگی کے مختلف مراحل میں صحیح راہنمائی فراہم کرے۔ جب طلبہ کو مشکلات یا سوالات کا سامنا ہو تو استاد کو ان کی رہنمائی کرنی چاہیے تاکہ وہ صحیح راستے پر چل سکیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "الدین النصیحة" (صحیح مسلم)
ترجمہ: "دین خیرخواہی کا نام ہے"۔
استاد کو چاہیے کہ وہ طلبہ کی ہر ممکن مدد کرے اور انہیں درست راہ پر چلنے کی تلقین کرے۔
4۔ علم میں مزید اضافے کی کوشش:
اسلام نے علم کے حصول اور اس میں اضافہ کرنے کو لازم قرار دیا ہے۔ استاد کو چاہیے کہ وہ خود بھی علم حاصل کرتا رہے اور اپنے علم میں اضافے کی کوشش کرے تاکہ وہ اپنے طلبہ کو نئے اور جدید علوم سے روشناس کرا سکے۔ ایک حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا: "علم حاصل کرو، کیونکہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے"۔ (ابن ماجہ)
اس فرمان کی روشنی میں، استاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے علم میں مسلسل بہتری لائے اور طلبہ کو بہترین علمی مواد فراہم کرے۔
5۔ عدل و انصاف کا مظاہرہ:
استاد پر لازم ہے کہ وہ اپنے تمام طلبہ کے ساتھ عدل و انصاف کا مظاہرہ کرے۔ اسے کسی بھی طالب علم کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور سب کو یکساں اہمیت دینی چاہیے۔ اسلام میں عدل کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور استاد کو بھی عدل کا مظہر بننا چاہیے۔
استاد کے حقوق
اسلام میں استاد کو بلند مقام دینے کے ساتھ ساتھ اس کے حقوق کا بھی تعین کیا گیا ہے۔ طلبہ اور معاشرے پر یہ لازم ہے کہ وہ استاد کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔ استاد کے چند اہم حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ عزت و احترام:
اسلام میں استاد کا احترام بہت زیادہ ضروری ہے۔ استاد کو وہی مقام دیا جاتا ہے جو والدین کا ہوتا ہے کیونکہ استاد ایک روحانی والدین کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَقُلُ رَبِّ زِدُنِي عِلُمًا"۔ (سورۃ طہ: 114)
ترجمہ: "اور کہو، اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما"۔
یہ آیت علم کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے اور اس علم کے حاملین یعنی اساتذہ کا احترام لازمی قرار دیتی ہے۔ طلبہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کا ادب کریں اور ان کی عزت و تکریم میں کبھی کوتاہی نہ کریں۔
2۔ طلبہ کا اچھا رویہ:
استاد کا حق ہے کہ طلبہ اس کے ساتھ حسن اخلاق اور ادب کا مظاہرہ کریں۔ استاد کے سامنے ادب سے بات کرنا، اس کی بات کو غور سے سننا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا طلبہ کا فرض ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "جو شخص ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے"۔ (ترمذی)
اس حدیث کی روشنی میں، طلبہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے استاد کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آئیں اور ان کے علم اور تجربے کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔
3۔ استاد کی معاونت:
طلبہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے استاد کی ہر ممکن مدد کریں اور انہیں تدریس کے عمل میں سہولت فراہم کریں۔ استاد کے فرائض کی ادائیگی میں مدد کرنا ایک بڑی نیکی ہے اور اس سے استاد اور طالب علم کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔
4۔ استاد کے علم کا پھیلاؤ:
استاد کا ایک بڑا حق یہ ہے کہ اس کے علم کو پھیلایا جائے اور اس کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ طلبہ کو چاہیے کہ جو علم وہ اپنے استاد سے حاصل کرتے ہیں اسے دوسروں تک پہنچائیں اور اس علم کو عملی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے"۔ (صحیح بخاری)
یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ استاد کا حق ہے کہ اس کے علم کو آگے بڑھایا جائے اور اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔
اسلام میں استاد اور شاگرد کا رشتہ بہت مقدس اور مضبوط ہوتا ہے۔ یہ رشتہ والدین اور اولاد کے رشتے کی طرح ہوتا ہے، جہاں استاد علم کا سرپرست ہوتا ہے اور شاگرد اس سے مستفید ہوتا ہے۔ استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کو محبت، شفقت اور عدل سے تعلیم دے، جبکہ شاگرد کو چاہیے کہ وہ استاد کے ساتھ ادب اور احترام کا رویہ اختیار کرے۔
1۔ شاگرد کا استاد کے ساتھ وفاداری:
اسلامی تعلیمات میں شاگرد کو استاد کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ شاگرد کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد کے علم کی قدر کرے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرے۔
2۔ استاد کا شاگرد پر شفقت:
استاد کو اپنے شاگردوں کے ساتھ شفقت اور محبت کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے"۔ (صحیح مسلم)
استاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی تربیت محبت اور شفقت سے کرے اور ان کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کی مدد کرے۔
اسلام میں استاد کا مقام انتہائی بلند اور معزز ہے۔ استاد نہ صرف علم کی ترسیل کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ طلبہ کی اخلاقی اور روحانی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ استاد کے حقوق و فرائض کا خیال رکھنا طلبہ اور معاشرے کا فرض ہے۔ اسلام میں استاد کو روحانی والدین کا درجہ دیا گیا ہے اور اس کا ادب و احترام لازمی قرار دیا گیا ہے۔ استاد کا حق ہے کہ طلبہ اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیں، اس کی تعلیمات پر عمل کریں اور اس کے علم کو آگے پھیلائیں۔ اسی طرح استاد کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کو مفید علم سکھائے، ان کی تربیت کرے اور انہیں زندگی کی مشکلات میں راہنمائی فراہم کرے۔
اسلام میں تعلیم اور تربیت کا عمل استاد اور شاگرد دونوں کے لیے ایک مشترکہ ذمہ داری ہے۔ استاد کو عدل، محبت اور شفقت سے طلبہ کی رہنمائی کرنی چاہیے، جبکہ طلبہ کو استاد کا احترام اور اس کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر استاد اور شاگرد اپنے اپنے فرائض اور حقوق کو سمجھیں اور ان کی ادائیگی میں مخلص ہوں، تو معاشرے میں علم کا فروغ ہوگا اور اخلاقی و روحانی بہتری آئے گی۔
اس رشتے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں طرف سے اعتماد اور اخلاص ہو۔ استاد کو چاہیے کہ وہ طلبہ کے لیے ایک مثالی کردار پیش کرے، جبکہ طلبہ کو چاہیے کہ وہ استاد کو اپنے علم، تجربے اور کردار کی روشنی میں ایک راہنما سمجھیں اور اس کے علم سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ اسی طرح ایک کامیاب اور باوقار معاشرے کی تعمیر ممکن ہو سکے گی جو علم اور اخلاقیات کے اصولوں پر استوار ہو۔
استاد کا کردار معاشرے میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور اسلام نے استاد کو وہ اہم مقام دیا ہے جس کی بدولت علم، تربیت اور اخلاقیات کو فروغ ملتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، استاد اور شاگرد کا تعلق ایک مقدس اور ذمہ دارانہ رشتہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں بہتری لانے کا سبب بنتا ہے۔ اس رشتے کا احترام، حقوق و فرائض کی پاسداری اور علم کی قدر و قیمت سمجھنے سے ہی ہم ایک بہتر اور کامیاب معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔

