Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Hayat e Nao Ki Umeed

Hayat e Nao Ki Umeed

حیات نو کی نوید

دنیا بھر میں صحت کا شعبہ نہ صرف انسانی خدمت کا اعلیٰ ترین مظہر ہے بلکہ کسی قوم کی تہذیبی، سائنسی اور انتظامی پختگی کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ طب میں ایسے لمحات آتے ہیں جب محض علم، مہارت اور تجربہ کافی نہیں ہوتے، بلکہ ایک تخلیقی، شفا بخش قوت درکار ہوتی ہے جو صرف جراحی سے نہیں بلکہ اتحاد، ہمدردی اور خدمت کے خالص جذبے سے جنم لیتی ہے۔ اگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، محدود وسائل، سست نظام اور غیر مساوی رسائی کے باوجود کوئی ادارہ کوئی غیر معمولی کارنامہ سرانجام دے، تو وہ بلاشبہ قومی اثاثہ کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔

سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوٹ (SESSI) کے تحت چلنے والا کلثوم بائی سوشل سیکیورٹی (سائٹ) اسپتال ایسا ہی ایک روشن مینار ہے۔ اس کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر ممتاز علی شیخ (دستِ شفا سلامت، دلِ دردمند قائم! ) (اللہ ان کے ہاتھوں کو شفا دے اور ان کے دل کو شفقت و ثبات عطا کرے) محض ایک ماہرِ طب نہیں بلکہ ایک مجسم رحمت ہیں، زخموں کے مرہم، خدمت کا علمبردار اور دکھی دلوں کی امید۔ ان کی شخصیت علم، مہارت، شفقت، خدمت، دیانت اور انکساری کا حسین امتزاج ہے۔ وہ بلاشبہ ایک ایسے طبیبِ حاذق ہیں جنہیں دیکھ کر خدمتِ خلق کی اصل روح مجسم ہوتی نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر ممتاز علی شیخ اُن گنے چنے افراد میں سے ہیں جن کی موجودگی میں صرف علاج نہیں ہوتا بلکہ رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ ان کی مسلسل کاوشوں اور ہمہ جہت قیادت نے کلثوم بائی ولیکا سوشل سیکیورٹی اسپتال کو ایک بار پھر اعتماد، وقار اور روحانی توانائی عطا کی ہے۔

حال ہی میں، ان کی بصیرت افروز قیادت میں اسپتال کے ENT ڈیپارٹمنٹ نے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا: دو نہایت پیچیدہ اور کثیرالجراحی کینسر سرجریاں کامیابی سے مکمل کی گئیں۔ یہ غیر معمولی کامیابیاں نہ صرف طبّی حلقے بلکہ پوری قوم کے لیے باعثِ فخر ہیں۔ دونوں مریض خطرناک اسٹیج کے کینسر میں مبتلا تھے اور ان کا علاج نہ صرف جراحی بلکہ ہمدردی اور مکمل طبی ہم آہنگی کا امتحان تھا۔

پہلا کیس ایک بزرگ خاتون کا تھا جنہیں زبان کے کینسر نے منہ کی تہہ اور جبڑے تک متاثر کر دیا تھا۔ ایسے پیچیدہ کیسز میں بروقت، مکمل اور باریک بینی سے کی گئی سرجری ہی بچاؤ کا واحد راستہ ہوتی ہے۔ ENT ٹیم نے، ڈاکٹر طاہر حسین خان اور ڈاکٹر عبد الوحید کی قیادت میں، یکم جولائی 2025 کو ایک طویل اور نہایت پیچیدہ آپریشن کیا۔ اس میں گردن کے لمف نوڈز، سب مینڈیبیولر گلینڈ، انٹرنل جگولر وین اور اسٹرنوسلیڈوماسٹوئڈ مسل کی سرجیکل کٹائی شامل تھی۔ علاوہ ازیں، ہیماگلوسیکٹومی، فلور آف ماؤتھ ریسیکشن اور سیگمنٹل مینڈیبیولیکٹومی جیسے مہارت طلب اقدامات بھی سرانجام دیے گئے۔

کینسر سے متاثرہ بافتوں کو آنکولوجیکل اصولوں کے مطابق نکالنا ایک سائنسی چالاکی اور جراحی مہارت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ تمام نمونے ہسٹوپیتھالوجیکل تجزیہ کے لیے بھیجے گئے تاکہ کینسر کی نوعیت، گریڈ اور حدود کی توثیق ہو سکے۔ یہ تمام اقدامات عالمی اداروں جیسے NCCN اور ESMO کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔

اس کے فوراً بعد، دوسرا مریض سامنے آیا جسے گال کے دائیں جانب اسکواومس سیل کارسینوما لاحق تھا، جو چہرے کی بافتوں، پٹھوں اور جلد میں سرایت کر چکا تھا۔ اس کے لیے فوری اور جرأتمندانہ اقدامات درکار تھے۔ ایک بار پھر ENT ٹیم نے اپنی مہارت اور ہم آہنگی کا شاندار مظاہرہ کیا۔ موڈیفائیڈ ریڈیکل نیک ڈسیکشن اور وائیڈ لوکل ایکسسیژن کی گئی۔ پلاسٹک سرجن ڈاکٹر بسلط نے PM فلیپ سے دوبارہ تعمیر کا مرحلہ سنبھالا، جبکہ ڈاکٹر سکندر اور ڈاکٹر داؤد نے گسٹراسٹومی ٹیوب کے ذریعے غذائی معاونت فراہم کی۔ یہ آپریشن شام 4 بجے کامیابی سے مکمل ہوا، جو صرف ایک طبی کامیابی ہی نہیں بلکہ ایک مربوط طبی نظام کی جیت تھی۔

اس کامیابی کے پیچھے پورے طبی عملے کی انتھک محنت شامل ہے۔ ڈاکٹر طاہر حسین خان کی قائدانہ مہارت، ڈاکٹر راحیل کی ایئر وے مینجمنٹ، ڈاکٹر عرفان (RMO) کی پری آپریٹو تیاری اور عارف رانا، محمد اویس، موریس صابر، عطا اللہ اور حمزہ احمد کی آپریٹنگ روم میں خدمات قابلِ ستائش ہیں۔ یہ ایک ایسی اجتماعی کامیابی ہے جو صرف جراحی نہیں بلکہ مربوط کلینکل سسٹم کی فعالیت کا مظہر ہے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی رپورٹس کے مطابق جنوبی ایشیا میں منہ کے کینسر کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں تمباکو، گٹکا، نسوار، بیڑی اور دیگر مضر صحت عادات شامل ہیں۔ جب کینسر زبان، جبڑے اور گردن کی گلٹیوں تک پہنچ جائے تو مریض کی تقریر، خوراک اور چہرے کی شناخت تک متاثر ہوتی ہے۔ ایسے میں صرف آنکولوجیکل سرجری کافی نہیں، بلکہ پلاسٹک سرجری اور بحالی کی حکمت عملی بھی لازم ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں کینسر کے جامع علاج کی سہولیات محدود ہیں۔ نیشنل کینسر رجسٹری کے مطابق ہر سال 1.5 لاکھ سے زائد نئے کیسز سامنے آتے ہیں، جن میں منہ کا کینسر نمایاں ہے۔ زیادہ تر مریض غریب اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے لیے کلثوم بائی ولیکا سوشل سیکیورٹی (سائٹ) اسپتال صرف ایک علاج گاہ نہیں، بلکہ امید کا چراغ ہے۔

اس کامیابی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اسپتال غیر تجارتی بنیادوں پر، بغیر کسی تعصب یا منافع کے، مزدوروں اور نادار طبقے کی خدمت کر رہا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز علی شیخ کی ہمدرد قیادت میں ENT ٹیم کو مکمل تعاون، وسائل اور اخلاقی حوصلہ ملا، جو کسی بھی طبی ادارے کی کامیابی کی بنیاد ہے۔ ان کا وژن، ٹیم ورک اور اخلاقی معیار ایک مثالی اسپتال کلچر کا آئینہ دار ہے، جس کی تقلید دیگر سرکاری اداروں کو کرنی چاہیے۔

ان سرجریوں کی کامیابی صرف دو جانیں بچانے کا معاملہ نہیں بلکہ یہ نظام کی بحالی، ٹیم کی طاقت اور طبی ضمیر کی بیداری کا اعلان ہے۔ جب قیادت مخلص ہو، سرجن بااعتماد ہوں اور ٹیم متحد ہو، تو کوئی طبی چیلنج ناقابلِ عبور نہیں رہتا۔

کلثوم بائی ولیکا اسپتال کی ENT ٹیم محض علاج نہیں کر رہی، بلکہ پورے پبلک ہیلتھ سسٹم کے لیے ایک طبی ماڈل قائم کر رہی ہے۔ ان کی کاوشیں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ جب جدید جراحی، سائنسی تحقیق اور انسان دوستی یکجا ہو جائیں تو صرف علاج نہیں، بلکہ زندگی خود دوبارہ جنم لیتی ہے۔

الحمدللہ کہ ENT ٹیم نے طب کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے، جو سوشل سیکیورٹی ہیلتھ کیئر کے پرچم تلے کمال اور خیر کی نوید ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ٹیم کو سلامت رکھے، ان کے علم، ہنر اور خدمت کے جذبے میں اضافہ فرمائے اور دعا ہے کہ ملک کے ہر اسپتال میں ایسی کامیابیاں نصیب ہوں۔

جیسا کہ قرآن مجید، سورہ المائدہ (5: 32) میں فرمایا گیا: مِنُ أَجُلِ ذَٰلِكَ كَتَبُنَا عَلَىٰ بَنِيٓ إِسُرَٰٓءِيلَ أَنَّهُۥ مَن قَتَلَ نَفُسًۭا بِغَيُرِ نَفُسٍ أَوُ فَسَادٍۢ فِى ٱلُأَرُضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ ٱلنَّاسَ جَمِيعًۭا ۖ وَمَنُ أَحُيَاهَا فَكَأَنَّمَآ أَحُيَا ٱلنَّاسَ جَمِيعًۭا ۚ

ترجمہ (مولانا محمود الحسن): "اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم لکھ دیا کہ جس نے کسی ایک جان کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد پھیلانے کے مار ڈالا، تو گویا اُس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے ایک جان کو زندگی دی، تو گویا اُس نے تمام انسانوں کو زندگی بخش دی"۔

یہ آیت ایک جان بچانے کو پوری انسانیت کی نجات کے برابر قرار دیتی ہے اور ENT ٹیم کی کاوشوں سے بہتر اس آیت کا عملی مظہر اور کیا ہو سکتا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam