Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Doha Ka Sang e Meel, Sifarat, Mazahmat Aur Aalmi Tawazun

Doha Ka Sang e Meel, Sifarat, Mazahmat Aur Aalmi Tawazun

دوحہ کا سنگِ میل: سفارت، مزاحمت اور عالمی توازن

دوحہ میں منعقد ہونے والا ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس محض ایک رسمی اجلاس نہیں تھا، بلکہ اس نے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی و عسکری منظرنامے میں ایک نئے باب کا آغاز کر دیا ہے۔ خلیجی تعاون کونسل کی سپریم کونسل کی ہدایات، رکن ممالک کے سخت بیانات اور اسرائیلی اقدامات کے خلاف اجتماعی مذمت، خطے کے لیے ایک ایسا سنگِ میل ہیں جس کا اثر صرف موجودہ تنازعے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ مستقبل کی تزویراتی حکمتِ عملیوں پر بھی پڑے گا۔

فلسطین کا مسئلہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بین الاقوامی سیاست کا سب سے پیچیدہ اور پائیدار بحران رہا ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی فلسطینی عوام کی بے دخلی اور مہاجرت شروع ہوئی۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ اور غزہ پر قبضہ کرکے مسئلے کو مزید سنگین کر دیا۔ اس کے بعد اقوامِ متحدہ کی قرارداد 242 اور 338 نے "زمین کے بدلے امن" کا اصول پیش کیا، مگر اسرائیلی پالیسیوں اور بستیوں کی مسلسل توسیع نے ان قراردادوں کو محض کاغذی حقیقت بنا دیا۔

1973 کی جنگ، جسے عرب دنیا نے "اکتوبر وار" اور اسرائیل نے "یومِ کِپور وار" کہا، اس حقیقت کی عکاس تھی کہ فلسطینی سوال محض سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ عرب خودداری اور عالمی طاقتوں کی توازن پالیسی کا امتحان ہے۔ مصر اور شام کی مشترکہ کارروائی نے وقتی طور پر اسرائیل کو دھچکا پہنچایا مگر بالآخر امریکہ کی براہِ راست مداخلت نے اسرائیل کو ایک بار پھر عسکری برتری دلائی۔ یہی جنگ بالآخر 1978 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا پیش خیمہ بنی، جس میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اپنی کھوئی ہوئی زمین واپس لی، لیکن فلسطینی مسئلہ جوں کا توں رہا۔

1991 کی خلیجی جنگ اور اس کے بعد میڈرڈ امن کانفرنس نے بظاہر ایک نیا موقع دیا۔ اسی عمل نے 1993 کے اوسلو معاہدے کو جنم دیا جس میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) اور اسرائیل نے دو ریاستی حل پر اصولی اتفاق کیا۔ لیکن یہ اتفاق محض کاغذی وعدہ رہا، کیونکہ اسرائیل نے بستیوں کی توسیع اور فلسطینی علاقوں پر کنٹرول برقرار رکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فلسطینی عوام کے اعتماد کا بحران بڑھتا گیا۔

2020 کے بعد ابراہیم معاہدوں نے ایک نئی صورتِ حال پیدا کی۔ امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ یہ معاہدے اگرچہ اقتصادی اور تزویراتی فوائد پر مبنی تھے مگر فلسطینی عوام اور بیشتر عرب معاشروں میں شدید مخالفت کے ساتھ دیکھے گئے۔ اس پس منظر میں اگر اسرائیل نے واقعی کسی عرب دارالحکومت کو نشانہ بنایا ہے تو یہ نارملائزیشن کی پوری عمارت کو زمین بوس کرنے والا واقعہ ہے۔

دوحہ اجلاس میں شریک ممالک نے واضح طور پر اسرائیلی اقدامات کو نہ صرف جارحیت بلکہ علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ یہ بیانات محض الفاظ نہیں بلکہ ایک مشترکہ شعور کی عکاسی ہیں کہ اگر عرب دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آئندہ کوئی ریاست محفوظ نہیں رہے گی۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں عرب اور اسلامی دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ محض بیانات تک محدود رہتی ہے یا عملی اقدامات کی طرف بڑھتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی ریاست کی رکنیت معطل یا ختم کرنے کا اختیار صرف جنرل اسمبلی کو ہے، مگر اس کے لیے سلامتی کونسل کی سفارش لازمی ہے۔ یہاں مستقل اراکین (امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس) کی سیاست اور ویٹو پاور فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اسرائیل کے خلاف عملی پابندیاں یا رکنیت کی معطلی کا امکان تبھی ممکن ہے جب بڑی طاقتیں اپنی سیاسی ترجیحات میں تبدیلی کریں، جو فی الحال مشکل نظر آتا ہے۔

اسی لیے عرب و مسلم ممالک کے پاس متبادل راستے ہیں:

جنرل اسمبلی میں"Uniting for Peace Resolution" کے تحت مؤثر اکثریت حاصل کرنا۔

انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ICJ) میں باضابطہ مقدمات درج کرانا۔

اقتصادی و سفارتی بائیکاٹ کو مربوط انداز میں آگے بڑھانا۔

یہ اقدامات وقتی طور پر شاید محدود اثر ڈالیں مگر عالمی رائے عامہ اور قانونی دباؤ کے ذریعے اسرائیل کو دفاعی پوزیشن پر ضرور لا سکتے ہیں۔

خلیجی تعاون کونسل کی دفاعی کونسل کا عندیہ کہ وہ مشترکہ ڈیٹرنس فورس قائم کرے گی، ایک طاقتور پیغام ضرور ہے، مگر عملی طور پر اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ ہر ریاست کی اپنی داخلی ترجیحات ہیں، کچھ ریاستیں امریکہ کے دفاعی نیٹ ورک پر زیادہ انحصار کرتی ہیں، تو کچھ ایران کے خلاف تزویراتی پالیسی کو اولین ترجیح دیتی ہیں۔ ان حالات میں اسرائیل کے خلاف براہِ راست عسکری اتحاد تشکیل دینا فی الحال مشکل دکھائی دیتا ہے۔

اسی لیے دانشمندانہ راستہ یہ ہے کہ:

1۔ قانونی کمیشن تشکیل دیا جائے جو اسرائیلی حملوں اور خلاف ورزیوں کو عالمی معیار پر ریکارڈ کرے۔

2۔ سفارتی دباؤ کو مربوط کرکے جنرل اسمبلی اور یورپی یونین جیسے فورمز پر اسرائیل کو دفاعی پوزیشن پر لایا جائے۔

3۔ انسانی امداد اور جنگ بندی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ دنیا دیکھے کہ عرب و مسلم ممالک کا موقف صرف جنگ نہیں بلکہ امن اور انسانی ہمدردی پر مبنی ہے۔

4۔ عوامی سفارتکاری اور میڈیا بیانیہ کے ذریعے دنیا کو بتایا جائے کہ دوہرے معیار کب تک جاری رہیں گے۔

پاکستان کے لیے یہ صورتحال ایک نازک توازن کا تقاضا کرتی ہے۔ ایک طرف قطر اور عرب دنیا کے ساتھ مذہبی و تاریخی اخوت ہے، دوسری طرف امریکہ، چین اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ گہرے معاشی و تزویراتی تعلقات بھی ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ:

اقوامِ متحدہ اور او آئی سی میں فعال سفارت کاری کرے۔

انسانی بنیادوں پر امداد اور جنگ بندی کی کوششوں کو آگے بڑھائے۔

عسکری محاذ پر جلد بازی سے گریز کرے اور سفارت کو اولین ترجیح دے۔

یہی کردار پاکستان کو مسلم امہ میں ایک معتبر مقام بھی دلوائے گا اور عالمی برادری میں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش بھی کرے گا۔

دوحہ اجلاس محض ایک وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایک سنگِ میل ہے۔ یہاں سے عرب دنیا دو راستوں پر کھڑی ہے:

یا تو قانون، انصاف اور سفارت پر مبنی حکمتِ عملی اپنائے جس سے خطے میں امن اور عالمی سطح پر وقار بڑھے۔

یا پھر جذباتی اور عسکری ردعمل کے راستے پر چلے جو خطے کو ایک وسیع تر جنگ میں دھکیل دے گا۔

تاریخ نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطین کا سوال صرف مشرقِ وسطیٰ کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی انصاف، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کا امتحان ہے۔ اس وقت ضرورت ہے بصیرت، ضبط اور مشترکہ حکمتِ عملی کی، ورنہ یہ سنگِ میل بھی ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائے گا۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali