Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Cervical Cancer Ke Khilaf Ehad

Cervical Cancer Ke Khilaf Ehad

سروائیکل کینسر کے خلاف عہد

ہماری دنیا میں بعض بیماریاں ایسی ہیں جو محض طبّی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی و انسانی چیلنج بھی بن جاتی ہیں۔ سروائیکل کینسر انہی میں سے ایک ہے، جو خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں لاکھوں خواتین کی زندگیوں کو نگل رہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال چھ لاکھ سے زائد خواتین اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں اور تین لاکھ سے زیادہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ ان میں سے نوّے فیصد اموات کم اور اوسط آمدنی والے ملکوں میں ہوتی ہیں، جہاں صحت کے وسائل محدود اور آگاہی کی سطح نہایت پست ہے۔ پاکستان بھی انہی ممالک میں شامل ہے جہاں یہ بیماری خواتین میں کینسر کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہر سال تقریباً پانچ ہزار نئے مریض سامنے آتے ہیں اور دو ہزار سے ڈھائی ہزار خواتین اس مرض کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہ محض ایک عددی رپورٹ نہیں بلکہ ایسے گھروں کی بربادی کی داستان ہے جہاں ماں کی زندگی پورے خاندان کی زندگی کے مترادف ہوتی ہے۔

سروائیکل کینسر کی بنیادی جڑ ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) ہے، جو ایک عام جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن ہے اور تقریباً تمام کیسز کا ذمہ دار ہے۔ اس وائرس کی روک تھام کے لیے HPV ویکسین دنیا بھر میں ایک انقلابی پیش رفت ثابت ہوئی ہے۔ یہ ویکسین ان اقسام کے خلاف مضبوط دفاع فراہم کرتی ہے جو سروائیکل کینسر کا بنیادی سبب بنتی ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان نے 2025 میں اس ویکسین کو قومی حفاظتی ٹیکہ پروگرام کا حصہ بنا کر دنیا کے 151ویں ملک کی حیثیت سے ایک تاریخ رقم کی۔ عالمی ادارۂ صحت کی حکمت عملی یہ ہے کہ 90 فیصد لڑکیوں کو ویکسین لگائی جائے، 90 فیصد خواتین کی بروقت اسکریننگ ہو اور 90 فیصد مریضوں کو علاج تک رسائی حاصل ہو۔ اگر پاکستان اس منزل تک پہنچتا ہے تو یہ ہزاروں زندگیاں بچانے کے مترادف ہوگا۔

تاہم اصل چیلنج ویکسین کے سائنسی فائدے سے زیادہ عوامی اعتماد کا ہے۔ ہمارے ملک میں پولیو مہم کے دوران پھیلائی گئی افواہوں نے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کی گہری جڑیں جما دی ہیں۔ HPV ویکسین کے بارے میں بھی یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ بانجھ پن پیدا کرتی ہے یا یہ مغربی سازش ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے بیس برسوں میں دنیا بھر کی کروڑوں خواتین نے یہ ویکسین لگوائی ہے اور عالمی سطح پر اس کی حفاظت اور مؤثریت ثابت ہو چکی ہے۔ بخار یا انجیکشن کی جگہ پر ہلکا درد جیسے وقتی اثرات کے سوا کوئی نقصان سامنے نہیں آیا۔ یہی وہ سچ ہے جو عوام تک سادہ اور شفاف انداز میں پہنچانا ہوگا، ورنہ خوف اور پروپیگنڈا ترقی کے ہر دروازے کو بند کر دے گا۔

ویکسین کے ساتھ ساتھ اسکریننگ بھی اتنی ہی اہم ہے۔ پیپ سمیر اور HPV ٹیسٹ دنیا بھر میں ابتدائی تشخیص کے مؤثر ذرائع ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ سہولت زیادہ تر شہری علاقوں تک محدود ہے اور دیہی خواتین لاعلمی، شرم یا وسائل کی کمی کے باعث اسکریننگ نہیں کروا پاتیں۔ حالانکہ اگر بیماری ابتدائی مرحلے پر سامنے آجائے تو اس کا علاج سرجری، ریڈی ایشن یا کیموتھراپی سے کامیابی کے ساتھ ممکن ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے کم وسائل والے ممالک کے لیے VIA اور تھرمل ایبلیشن جیسے آسان اور کم خرچ طریقے تجویز کیے ہیں، لیکن انہیں ملک بھر میں پھیلانے کے لیے حکومتی عزم اور عوامی تعاون لازمی ہے۔

دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا میں ویکسینیشن اور اسکریننگ کے امتزاج نے حیرت انگیز نتائج دیے ہیں۔ آسٹریلیا تو یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ 2035 تک وہ دنیا کا پہلا ملک ہوگا جہاں سروائیکل کینسر تقریباً ختم ہو جائے گا۔ یہ مثالیں پاکستان کے لیے امید کا پیغام ہیں کہ اگر سیاسی ارادہ، عوامی شمولیت اور مسلسل جدوجہد ہو تو کوئی منزل ناممکن نہیں۔

پاکستان کے سامنے کئی رکاوٹیں ہیں۔ وسائل کی کمی، صحت عامہ پر کم توجہ، دیہی علاقوں میں سہولیات کی ناپیدی اور سب سے بڑھ کر افواہوں کا زہر۔ ان چیلنجز کا حل صرف حکومت کے بس میں نہیں، بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کی ذمہ داری ہے۔ علما، اساتذہ، سماجی کارکن، میڈیا اور مقامی صحت کے رضاکار اگر یکجا ہو جائیں تو عوامی اعتماد کی بحالی اور ویکسینیشن کے فروغ میں بڑی پیش رفت ممکن ہے۔

ایک اور خوش آئند پیش رفت عالمی تحقیق میں سامنے آئی ہے کہ HPV ویکسین کی ایک خوراک بھی بعض اوقات دو خوراکوں جتنی مؤثر ہو سکتی ہے۔ اگر یہ رہنما اصول حتمی طور پر منظور ہو جائیں تو پاکستان جیسے ملکوں میں ویکسین مہم مزید آسان اور کم خرچ ہو جائے گی۔ اس طرح اگلے پندرہ سے بیس برس میں سروائیکل کینسر کے کیسز نصف تک کم کیے جا سکتے ہیں اور ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔

سروائیکل کینسر سے بچاؤ کے لیے چند بنیادی تدابیر ناگزیر ہیں۔ 9 سے 14 سال کی بچیوں کو HPV ویکسین لگوانا، 21 سال کی عمر کے بعد ہر تین برس بعد پیپ سمیر ٹیسٹ کروانا، جنسی صحت کے اصولوں پر عمل کرنا، تمباکو نوشی سے پرہیز اور صحت مند طرزِ زندگی اپنانا ایسے اقدامات ہیں جو اس موذی مرض کے خلاف مضبوط ڈھال بن سکتے ہیں۔

یہ جنگ دراصل خواتین کی زندگی، وقار اور مساوات کی جنگ ہے۔ ایک صحت مند عورت ہی صحت مند خاندان اور بالآخر صحت مند معاشرے کی بنیاد ڈالتی ہے۔ اگر یہ مہم تعصب، افواہ یا وسائل کی کمی کی نذر ہوگئی تو ہم آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل دینے میں ناکام رہیں گے۔ لیکن اگر ہم نے سچائی اور شفافیت کے ساتھ یہ جدوجہد جاری رکھی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں بھی یہ بیماری ماضی کی داستان بن جائے گی۔

سروائیکل کینسر قابلِ علاج اور قابلِ روک تھام مرض ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم وقت پر قدم اٹھائیں، عوام کو اعتماد میں لیں اور سائنسی حقیقت کو پروپیگنڈے کے شور میں دبنے نہ دیں۔ پاکستان نے HPV ویکسین شامل کرکے پہلا درست قدم اٹھا لیا ہے۔ اب ضرورت صرف تسلسل، ایمانداری اور اجتماعی عزم کی ہے۔ امید ہے کہ آنے والی نسلیں ایک ایسے پاکستان میں سانس لیں گی جہاں ماں کی زندگی کو اس موذی مرض کا خوف نہیں ہوگا اور یہ کامیابی ہماری تاریخ کے روشن باب میں درج ہوگی۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali