Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  3. Aqwam e Muttahida Mein Pakistan Ki Lalkar

Aqwam e Muttahida Mein Pakistan Ki Lalkar

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی للکار

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے خطاب کے ذریعے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی سیاست کے پیچیدہ منظرنامے پر ایک گہرا اور جامع مؤقف پیش کیا۔ یہ خطاب محض رسمی بیانیہ نہ تھا بلکہ ایک ایسے دور کی آئینہ داری کرتا ہے جہاں طاقت، امن، ماحولیات اور سفارتکاری سب ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم کا خطاب پاکستان کے موجودہ داخلی و خارجی حالات، خطے کی سفارتی بساط اور عالمی طاقتوں کے کردار کا حقیقی عکس ہے۔

وزیراعظم نے اپنی تقریر کا آغاز بھارت پر کڑی تنقید سے کیا اور بتایا کہ جنگی غرور میں لپٹا دشمن کس طرح ذلت کے ساتھ واپس لوٹا۔ یہ جملہ داخلی سیاست کے لیے حوصلہ افزا اور عوامی جذبات کو مجتمع کرنے والا تھا، مگر بین الاقوامی برادری کے لیے یہ پیغام بھی تھا کہ پاکستان محض جنگ کے میدان میں نہیں بلکہ امن کے افق پر بھی سرخرو ہونے کا خواہاں ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو اعلانِ جنگ کے مترادف قرار دینا پانی کے بحران کی سنگینی کو اجاگر کرتا ہے۔ 24 کروڑ آبادی کے حقِ آب کی حفاظت دراصل بقا کے اس سوال کی گواہی ہے جو مستقبل میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم کا دوٹوک اعلان کہ ہم اپنے پانیوں پر ناقابلِ تنسیخ حق کا بھرپور دفاع کریں گے، عالمی ماہرینِ آبیات کے لیے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

خطاب کے ایک اور اہم حصے میں افغانستان اور دہشت گردی کا ذکر ہوا۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ دہشت گرد گروہ اب بھی افغان سرزمین سے آپریٹ کر رہے ہیں اور عبوری حکومت کو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس خطے کی زمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ اس نکتہ پر زور دراصل پاکستان کے داخلی امن، سرحدی سلامتی اور خطے کے وسیع تر استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہاں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تنہا اس جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ افغان حکومت کے ساتھ مشترکہ اقدامات، علاقائی تعاون اور عالمی برادری کی ذمہ داری سبھی اس پیچیدہ مسئلے کے حل میں شامل ہیں۔

وزیراعظم کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو "امن کا علمبردار" قرار دینا اس سفارتی بیانیے کی عکاسی کرتا ہے جس میں طاقتور ممالک کی ثالثی کو تسلیم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کھلے الفاظ میں کہا کہ اگر صدر ٹرمپ بروقت اور فیصلہ کن مداخلت نہ کرتے تو خطہ ایک تباہ کن جنگ میں دھکیل دیا جاتا۔ یہ جملہ اس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کے کردار کو اہم سمجھتا ہے۔ مزید برآں، وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کے نوبل امن ایوارڈ کے لیے نام پیش کرنے کا اعلان کیا جو ایک علامتی مگر سفارتی اشارہ ہے۔ اس قدم کا مقصد نہ صرف امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کرنا بھی ہے جو امن کے لیے سرگرم کردار ادا کررہی ہے۔

وزیراعظم نے فلسطین اور غزہ کی صورتِ حال کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ اسرائیل نے دہشت پھیلا دی ہے، فوری جنگ بندی کے بغیر انسانی المیہ بڑھتا جائے گا۔ یہ مؤقف پاکستان کی روایتی خارجہ پالیسی اور مسلم دنیا کے ساتھ اس کی یکجہتی کا عکاس ہے۔ ساتھ ہی یہ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی ہے کہ تنازعات کی آگ صرف خطۂ مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں بلکہ عالمی امن کے توازن کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے۔

ایک اور اہم پہلو معلوماتی جنگ اور فیک نیوز کا ذکر تھا۔ وزیراعظم نے درست کہا کہ جھوٹی اطلاعات اعتماد کو مجروح کرتی ہیں۔ آج کی دنیا میں ہائبرڈ وار فیئر، سائبر حملے اور میڈیا پروپیگنڈا کسی بھی روایتی ہتھیار سے کم خطرناک نہیں۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی معلوماتی حکمتِ عملی کو جدید تقاضوں کے مطابق استوار کرے تاکہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ مضبوط رہے اور دشمن پروپیگنڈا دیرپا اثرات نہ ڈال سکے۔

خطاب میں سب سے زیادہ پُراثر پہلو ماحولیاتی تبدیلی اور معیشت کا تھا۔ وزیراعظم نے قرضوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث تباہ کن قرار دیا اور بتایا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک موسمیاتی بحران سے شدید متاثر ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ بارشوں کے غیر متوازن نظام، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سیلابی آفات نے گزشتہ برسوں میں جس طرح قومی معیشت کو متاثر کیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری نہ صرف تعاون کرے بلکہ انصاف پر مبنی ماحولیاتی مالیاتی ڈھانچہ قائم کرے۔ وزیراعظم کا یہ مؤقف کہ کثیرالجہتی نظام آج کوئی آپشن نہیں بلکہ ناگزیر ہے، حقیقت میں اسی ضرورت کا اظہار ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس خطاب کے بعد آئندہ امکانات کیا ہیں؟ پاکستان نے اپنے بیانیے میں ایک طرف بھارت کے ساتھ سخت لہجہ اپنایا ہے تو دوسری طرف مذاکرات کی پیشکش بھی کی ہے۔ اس دو رُخی پالیسی میں ایک باریک نکتہ چھپا ہے طاقت کا مظاہرہ بھی اور امن کی جستجو بھی۔ اگر اس کو عملی حکمتِ عملی سے ہم آہنگ کرلیا جائے تو یہ خطہ مستقبل میں کشیدگی سے بچ سکتا ہے۔ تاہم، یہ سب کچھ تبھی ممکن ہوگا جب پاکستان اندرونی طور پر سیاسی استحکام، معاشی اصلاحات اور ادارہ جاتی شفافیت کو یقینی بنائے۔

تاریخ کا سبق ہے کہ سفارتکاری صرف بیانات سے نہیں بلکہ اقدامات سے کامیاب ہوتی ہے۔ پاکستان کے لیے اب یہ وقت ہے کہ وہ پانی، دہشت گردی، معیشت اور ماحولیات کے محاذ پر ٹھوس اور پائیدار حکمتِ عملی اپنائے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی نقشے میں صرف وہی ممالک کامیاب ہوں گے جو اپنے قومی بیانیے کو عالمی قوانین، علاقائی تعاون اور داخلی استحکام کے ساتھ مربوط کر سکیں۔ وزیراعظم کے اس خطاب نے ایک بنیاد رکھ دی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بنیاد پر کس طرح ایک مضبوط اور پائیدار عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔

یہ کالم صرف ایک تقریر کا تجزیہ نہیں بلکہ اس امر کی یاد دہانی بھی ہے کہ پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ محض میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ میدانِ سفارت اور معیشت میں ہوگا۔ امن جیتنے کا سفر مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، بشرطیکہ قیادت بیانیے کو عمل میں ڈھالنے کی جرات رکھے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari