ریاست مدینہ کے خدو خال
اعلان کی حدتک ریاستِ مدینہ کا تصور بے شک ایک روحانی نوید دیتا ہے مگر جب ہم عملاً اس راستے پر چلتے ہیں تو حکمرانوں کےلئے یہ بہت کٹھن اور عوام کےلئے آسان ہوجاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے عوام کی سہولت اور ضرورت کے جو اعلانات کئے تھے وہ سارے کے سار ے صحرابہ صحرا ہوگئے ہیں۔ مہنگائی کے جِن نے عوام کو اجتماعی طور پر اس طرح جکڑ لیا ہے کہ وہ اس کے پنجوں میں چیخ اٹھے ہیں اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت مہنگائی کے جِن کو قابوکرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے کےلئے وزیر اعظم عمران خان نے ترجیحی بنیادوں پر ذخیرہ اندوزوں کے خلاف اقدامات تیز تر کر دیئے ہیں اور گندم کی خریداری کا ہدف دوگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان کو اب معلوم ہوگیا ہے کہ عوام کو مہنگائی کے جِن نے اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اپوزیشن کا اختلاف عمران خان سے ہے لہذاوہ عمران خان کو ہی مہنگائی اور عوامی مشکلات کا محرک سمجھتے ہیں۔ وہ ذخیرہ اندوزوں کے ٹھکانوں کو بھی جانتے ہیں اور ہمارے بہت سارے عوام کے بہی خواہ تو ذخیرہ اندوزوں کی منافع خوری میں شریک ہیں۔ میں وزیر اعظم عمران خان کی نیت پر شک نہیں کرتی اور نہ ہی وہ عوام کےلئے مشکلات تخلیق کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت ایک پاکستانی قوم دنیا میں زندہ رہنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان کے علم میں یہ بات لانے کی ضرورت ہے کہ ریاستِ مدینہ میں تجارت کی ترقی کےلئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے مگر آپ نے لنگر خانوں اور مسافر خانوں کے ذریعے عوام کو تن آسان بنا دیا ہے اور کہیں کسی سازش پر عمل تو نہیں ہورہا؟ نوجوانوں کو روزگار، کمزوروں کو طاقتور، بے سہاروں کو سہارا دینا ریاستِ مدینہ کے بنیادی منصوبے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ملک سے غربت و افلاس دور کرکے حقیقی خوشحال معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔
یہ بات بڑی حد تک اطمینان بخش ہے کہ عمران خان کو عوامی مشکلات کا احساس بھی ہے اور اس کے حل کے لیے فکر مندی بھی پائی جاتی ہے جس کا ثبوت انہوں نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے اجلاس میں انقلابی حکمت عملی کے ذریعے اقدامات اٹھائے ہیں۔ اجلاس میں بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام اور ممکنہ حد تک کمی لانے سے متعلق مختلف تجاویز پر غور کیا اور کئی اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ اس اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کو بتایا گیا کہ بجلی گیس کے شعبے میں ماضی کی حکومتوں کی جانب سے کیے گئے معاہدوں کی وجہ سے بجلی اور گیس کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ یہ بوجھ ماضی کی حکومتوں کے برسراقتدار ہوتے ہوئے تو اتنا نہ تھا اب اس کا بوجھ کیسے بڑھ گیا ہے۔ اس میں کمی کیوں کر تخلیق نہیں کی جاسکتی۔ اس وقت لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اور اُن کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔ اس مہنگائی کے جِن سے اگر حکومت نے عوام کو رہائی دلا دی تو میں یہ سمجھوں گی کہ یہ حکومت ایک طویل عرصہ برسرا قتدار رہ سکے گی وگرنہ ایوب دور میں صرف ایک روپیہ چینی کا بڑھنے سے ایوب کی حکومت کا صبر کا بند ٹوٹ گیا تھا اور ایوب کا تخت ٹوٹ کر تخت سے تختہ ہوگیا تھا۔ عوام کی بد دعاﺅں سے ڈرو اور ریاستِ مدینہ کے حقیقی خدو خال سامنے لاﺅ اور ہمارے پاس اس کا عملاً ڈھانچہ موجود ہے۔ قومیں خیرات سے نہیں ہنر سے دنیا میں ابھرتی ہیں اور خیرات تو قومی حمیت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ اس لئے جب قوم کے ہاتھ میں ہنر ہو اور سلیقہ اور قرینہ ہے وہ دنیا میں ہمیشہ کامیاب و با مراد رہتی ہیں :
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
میں یہ کالم تحریر کر رہی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 20 فیصد کمی کر دی اور مصنوعی مہنگائی میں ملوث ذخیرہ اندوزوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ عوام کو ریلیف کی فراہمی ہی تو خان صاحب کی زندگی کا نصب العین تھا، ہے اور انشاءاللہ رہے گا۔ مجھے یقین ہے کہ غیر ملکی سازشیں دم توڑ جائیں گی او رپاکستانی عوام علم و ہنر کے مضبوط ترین ہتھیاروں سے مسلح ہو کر عالمی سازشوں کے تار پود بکھیر دے گی۔ یہ بات بڑی خو ش آئند ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کو10 دنوں کے اندر ذخیرہ کیا ہوا سٹاک اپنے خفیہ گوداموں سے منڈیوں تک لانا ہوگا او راس پر عمل نہ کروانے والے افسروں کےخلاف بھی کارروائی ہوگی۔ 48 گھنٹوں میں ہسپتالوں میں بھی سستی ادویات کی فراہمی کی بھی ہدایت کر دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پاکستانی قوم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ 70 سال سے بڑی قربانیاں دے رہی ہے اور اب ہمت جواب دے رہی ہے۔ اگر اب بھی اس کے ساتھ دھوکا ہوا تو پھر یہ پورا نظام جو اپنی موت مر رہا ہے ایک جدید عوامی ترقیاتی پروگرام جنم لے گا جو خود انحصاری، خود روزگاری اور خود کفالت کی شاہراہ پر چلتے ہوئے منزلِ مرادپر پہنچ کر ہی دم لے گا اور دنیا جان لے گی کہ خوشحال ریاستِ مدینہ کا سورج کیونکر طلوع ہوتا ہے۔