قاتل مودی کا ناقابلِ برداشت بھارت!
نریندر مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا، اس کے بعد امریکہ میں اس کے داخلے پر پابندی تھی مگر مسلمانوں کے خلاف اس کی انتہائی نفرت بھارت میں موجود اسی نفرت کے حامل ہندوئوں کو اس کا یہ قتل عام اتنا پسند آیا کہ اسے اپنا وزیراعظم بنا لیا اور اس کے بعد حالیہ الیکشن میں وہ بہت بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگیا۔ اب بھارت میں صرف مسلمانوں نہیں دوسری اقلیتوں کی زندگی جس طرح اجیرن بنا دی گئی ہے اس کا ذکر آگے چل کر ہوگا مگر اس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیلئے جو اقدامات کئے ہیں وہ کوئی سیاستدان نہیں، کوئی قاتل ذہن کا حامل شخص ہی کر سکتا ہے۔ بھارت کے سیکولرازم اور جمہوریت کا جنازہ نکل چکا ہے، آئین کو پائوں تلے روند دیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں کوڑے کے ڈھیروں میں پھینک دی گئی ہیں اور یہ سارا کچھ ہمارے وزیراعظم اور امریکی صدر سے ملاقات کے فوری بعد کیا گیا ہے۔ امریکی صدر کے اندر کا مودی امریکہ کی کانگریس نے دبا کر رکھا ہوا ہے، اللہ جانے اس نے کس پس منظر میں کہا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کے فرائض انجام دے گا اور یہ کہ خود مودی نے بھی اسے ثالثی کیلئے کہا ہے۔ اب اگر وہ ثالثی کرے گا تو موجودہ صورتحال میں کیا بارگیننگ ہو سکے گی؟ شاید یہ سب کچھ پری پلان تھا!
ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کور کمانڈر کے اجلاس میں ببانگ دہل یہ کہا ہے کہ پاکستان کشمیر کی خود مختاری کیلئے آخری اقدام سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو، میں جنگ کے خلاف ہی نہیں اسے بدترین آپشن سمجھتا ہوں مگر بعض اوقات قیام امن کیلئے بھی دشمن کا بازو مروڑنا پڑتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان بھارت پر حملہ کر دے کہ اسکے نتیجے میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آگے گا۔ دونوں ملکوں کے عوام غربت کی چکی میں بری طرح پسے ہوئے ہیں۔ اس جنگ سے جنازے اٹھانے کے سوا کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا؛ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے، ضروری ہے کہ پاکستان ہر وہ حربہ استعمال کرے جس سے بھارت کو اندازہ ہو کہ اس نے جو حرکت کی ہے وہ اسے مہنگی پڑ رہی ہے۔ ہماری افواج نے اس کا اشارہ بھی دیا ہے۔ اگر ہم نے کشمیر کی آزادی اور اس کی خودمختاری کیلئے عملی طور پر کچھ کیا تو بیرونی دنیا اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوگی ورنہ رات گئی، بات گئی والا معاملہ ہوگا۔ اگر ہمارے خطے میں ایک نیا اسرائیل بنتا ہے تو بھارت کشمیریوں پر بمباری اور ان کی ہلاکتوں کا سلسلہ تیز سے تیز کرکے انہیں پاکستانی کشمیر کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرے گا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں گلیاں ہوون سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے والی صورتحال پیدا ہو سکے!
میں روزانہ سوشل میڈیا پر کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور کشمیریوں کو مردانہ وار ان کا مقابلہ کرتے دیکھتا ہوں۔ بچوں، بوڑھوں، جوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عورتوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے، اب تک بھارت ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کر چکا ہے، بے شمار کو اندھا اور معذور بنا چکا ہے، ان کی قیادت کو پابند سلاسل رکھا ہوا ہے۔ میں سلام بھیجتا ہوں علی گیلانی، یٰسین ملک اور دوسرے کشمیری رہنمائوں کو جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بھارت کی جیلوں میں کاٹا اور بے پناہ تشدد برداشت کیا۔ اب تو محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ نے بھی اپنی زبان بندی ختم کر دی ہے جو بھارت کے فیورٹ رہے ہیں۔ شاید انہیں کشمیری عوام کے لاکھوں کے احتجاجی جلوس اور ان کا غیظ وغضب نظر آ رہا ہے۔ پیشتر اس کے کہ انڈیا یہ آہ وزاری کمزور کر دے، ہمیں آگے بڑھ کر وہ تمام طریقے اختیار کرنا ہوں گے جن سے ظالم کا بازو مروڑا جاسکے!
اس سارے مسئلے میں ایک بہت دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں چند آوازیں اس ظلم کو روکنے کیلئے خود بھارت سے اٹھی ہیں وہاں "ہندو راج" کے قیام اور بھارت کے مسلمانوں کو ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور بھی کیا جا رہا ہے۔ میں نے ایسی کئی وڈیوز دیکھی ہیں جہاں ہندو غنڈے لاٹھیوں سے مسلم عورتوں اور مردوں کا کچومر نکال رہے ہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو ظالمانہ طریقے سے مارا جا رہا ہے۔ میں اپنے آنسوئوں کو آنکھوں کی دہلیز سے باہر نہیں آنے دیتا مگر کچھ مناظر میری یہ کوشش ناکام بنا دیتے ہیں۔ بھارت کی دیدہ دلیری گزشتہ روز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں دیکھنے میں آئی جہاں مرکزی سڑکوں پر راتوں رات را کے ایجنٹوں نے "مہا بھارت" کے بڑے بڑے پوسٹر آویزاں کر دیئے، بھارت ہمارے اندر در آیا ہے اسے پوری قوت سے اس کی حرکتوں کا جواب دینا ہوگا۔
قوت کے دانشمندانہ استعمال کے علاوہ ہمارے سفارتکاروں کو اپنی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال کرکے بیرونی دنیا کو مودی کے بھارت کا اصل چہرہ دکھانا ہوگا۔ اس کیلئے انہیں خصوصی فنڈز جاری کئے جائیں تاکہ وہ اپنا مشن تنگدستی کے بغیر مکمل کر سکیں۔ میں اس تجویز کا حامل نہیں ہوں کہ پاکستان سے مختلف وفود متعلقہ ملکوں کو بھیجیں جائیں، اس حوالے سے عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ سیر سپاٹے اور شاپنگ کرکے یا پاکستانیوں کے جلسوں سے خطاب کرکے یا ایک آدھ اہم شخصیت سے ملاقات کرکے واپس آ جاتے ہیں۔ وفود کے بجائے ہر اہم ملک میں صرف ایک ایسا فرد بھیجا جائے جو وطن کی محبت سے سرشار ہو، ایسے دس بارہ افراد دس بارہ ممالک کا دورہ کریں، گروپ کی صورت میں نہیں بلکہ ایک ملک کیلئے صرف ایک کٹر پاکستانی جو بین الاقوامی صورتحال اور پاکستان اور بھارت کی تاریخ سے پوری طرح آگاہ ہو۔ اپنا نقطہ نظر بہترین طریقے سے پیش کرنا جانتا ہو، صورتحال کی بہتری کیلئے کافی ہوگا۔ ہجوم بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں!
اور آخر میں یہ کہ حکومت اپنا دل بڑا کرے، پاکستانی عوام اس وقت سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اس دھڑے بندی کو ختم کرنے کیلئے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہئے تاکہ باہر کوئی طعنہ نہ دے کہ بھارت اپوزیشن کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے تم لوگ بھی تو وہی کچھ کر رہے ہو۔ یہ اتحاد کا وقت ہے اور اتحاد کیلئے اگر "کڑوی گولی" بھی نگلنا پڑے تو نگل لینا چاہئے۔