پطرس بخاری کے بعد راقم کی سائیکل (1)
میں آج آپ کو ایک بہت درد بھری داستان سنانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ رونے دھونے کے شوقین ہیں تو میری یہ تحریر ضرور پڑھیں۔ دراصل سائیکل کے ساتھ میرا رشتہ بہت پرانا ہے لیکن اس کے ساتھ میری کوئی خوشگوار یاد وابستہ نہیں ہے چنانچہ مجھے افسوس ہے کہ میں صبح صبح یہ ناخوشگوار یادیں اپنے قارئین کے ساتھ Shareکر رہا ہوں۔
میرے لئے وہ دن بہت یادگار تھا جس دن میں نے سائیکل خریدی تھی۔ میں اس روز بہت خوش تھا۔ میں نے یہ سائیکل ایک کباڑیئے سے خریدی تھی وہ اس کے بہت قصیدے پڑھتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس پر ایک بڑے جنرل سالہا سال سواری کر چکے ہیں۔ (اس کی مراد اپنے ایک دوست جنرل مرچنٹ سے تھی) بلکہ یہ سائیکل گزشتہ کئی برس سے خود اس کے استعمال میں بھی رہی ہے۔ وہ اس دیرینہ تعلق کی بنا پر اسے بیچنا تو نہیں چاہتا تھا مگر یہ اس کی مجبوری تھی کہ اس کا کام ہی پرانی چیزوں کی خرید و فروخت تھا۔ میں یہ سائیکل جو کباڑیئے کی جان کا ٹکڑا تھی، اپنے گھر لے آیا تو اس پر جمی ہوئی مٹی کو صاف کرنے اور اسے چمکانے کی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ سائیکل پر تہہ در تہہ جمی میل کے باوجود میرے دل میں کوئی میل نہ آئی کہ یہ میری زندگی کی پہلی سواری تھی چنانچہ میں اسے اس حالت میں تھامے شاداں و فرحاں گھر سے باہر نکل آیا۔
میں نے سوچا مجھے سب سے پہلے اپنی اس خوشی میں اپنے بچپن کے دوست شیدے خرادیئے کو شریک کرنا چاہئے۔ چنانچہ میں نے سائیکل کا رخ اس کے گھر کی طرف موڑ دیا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا یہ سائیکل میرے لئے صرف سواری کا کام نہیں دے گی بلکہ ایکسرسائز کے کام بھی آئے گی کیونکہ معمولی سی ناہموار سڑک پر بھی اس کے جھٹکے اتنے زور دار ہوتے تھے کہ چشم زدن میں پائوں سے سفر کر کے دماغ تک جا پہنچتے تھے۔ میں ایک سست الوجود شخص ہوں اور ڈاکٹروں کی ہدایت کے باوجود کسی ورزش پر کبھی آمادہ نہ ہو سکا تھا چنانچہ میں نے سائیکل کو اس کی اسی خوبی کی بنا پر نعمت خداوندی تصور کیا اور اس ٹو اِن ون کے مزے لینے کے لئے مزید زور زور سے پیڈل مارنا شروع کر دیئے۔ شیدے خرادیئے کا گھر صرف چند قدم کے فاصلے پر رہ گیا تھا کہ اچانک میں نے ایک عجیب و غریب تبدیلی محسوس کی۔ مجھے لگا جیسے کوئی میری دھوتی نیچے سے کھینچ رہا ہے۔ میں نے اردگرد، اوپر نیچے ہر جگہ نظر ڈالی مگر مجھے کوئی فرد بے معقول حرکت کرتا دکھائی نہ دیا۔ میں جنوں بھوتوں پر قوی ایمان رکھتا ہوں اور ٹونے ٹوٹکوں کا قائل ہوں مجھے یقین ہو گیا کہ میرے کسی حاسد سے میری خوشی دیکھی نہیں گئی اور یہ ننگِ قوم شخص اپنے کسی زیر اثر بھوت یا کسی دوسرے عامل کے ذریعے مجھے ننگے قوم ثابت کرنا چاہتا ہے چنانچہ میں نے دفعِ بلا کے لئے آیات کا ورد شروع کر دیا۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ دشمن کی کارروائی اخلاق اور خطرے کے آخری نشان تک پہنچ چکی ہے۔ وہ تو خدا کا لاکھ شکر ہے کہ میری نظر شیدے خرادیئے پر جا پڑی جو اپنے گھر کے باہر ٹہل رہا تھا میں نے وہیں پائوں زمین پر گاڑ کر سائیکل کو بریک لگائی۔ کباڑیئے نے مجھے بتایا تھا کہ اس سائیکل کی بریک کے لئے کمپنی نے یہ نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے۔ اس دوران شیدا میرے قریب پہنچ چکا تھا۔ وہ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتا تھا مگر میں نے اسے خوفزدہ آواز میں بتایا کہ کوئی بھوت میری دھوتی کو نیچے کی طرف کھینچ رہا ہے۔ چنانچہ میں نے اسے کہا کہ وہ پہلے کسی عامل کو بلائے۔ شیدا ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا چنانچہ اس نے میری بات پر توجہ دینے کی بجائے سائیکل کا جائزہ لیا پھر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا میں یہ بھوت ابھی نکالتا ہوں یہ کہتے ہوئے اس نے سائیکل کا پیڈل الٹا گھمانا شروع کیا اور اس عمل کے ساتھ میں نے محسوس کیا کہ دشمن اپنی چال میں ناکام ہو رہا ہے اور میری دھوتی کشش ثقل سے نکل آئی ہے۔ میں آج تک شیدے کو صرف خرادیہ ہی سمجھتا تھا مجھے علم نہیں تھا کہ وہ اتنا بڑا عامل بھی ہے مگر اس نے مجھے یہ بتا کر اپنی عزت خود ہی خاک میں ملا دی کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا صرف دھوتی کا پلو سائیکل کے چین میں پھنس گیا تھا۔ ویسے وہ صحیح کہتا تھا کہ دھوتی کا جو حصہ چین میں پھنسا تھا اس کا کچومر یوں نکلا ہوا تھا جیسے کسی مضبوط دانتوں والے نے اسے بہت بری طرح چبایا ہو۔ (جاری ہے)