پاکستان فیسٹول ، سفیر پاکستان اور قمر ریاض !
اپنے کان کی" تکلیف کے باوجود میں عمان فیسٹیول مسقط میں شرکت کے بعد بخیروعافیت "واپس پاکستان پہنچ گیا ہوں مگر اپنا دل سفیر پاکستان عزت مآب علی جاوید کے پاس گروی رکھ آیا ہوں، میری ہمیشہ سے یہی خواہش رہی کہ کاش ہمارے سفارتکار گولف کھیلنے کے علاوہ پاکستان کی بھرپور پروجیکشن کیلئے بھی اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کریں اورمیری مختلف ملکوں میں منعقد ہونیوالی تقریبات میں شرکت کے دوران ایسے سفیروں سے میری ملاقات بھی ہوئی جن سے ملکر دل شاد ہوا، مگر یہ جذبہ ہر کہیں نہیں ہے چنانچہ وہ لطیفہ نما واقعہ تو آپ نے سنا ہو گیا کہ واشنگٹن میں ایک پاکستانی سے کسی نے پوچھا کہ تم کیا کام کرتے ہو اس نے کہا میں چھ گھنٹے پاکستانی سفارتخانے، چھ گھنٹے ایک مقامی دفتر، چھ گھنٹے ایک ریستوران اور چھ گھنٹے اپنا ایک ذاتی کاروبار کرتا ہوں، پوچھنے والے نے پوچھا کہ یہ تو چوبیس گھنٹے پورے ہو گئے تم سوتے کس وقت ہو اس نے کہا "میں نے بتایا تو ہے کہ چھ گھنٹے میں پاکستانی سفارتخانے میں کام کرتا ہوں " لیکن علی جاوید کی صورت میں، میں نے ایک انتھک سفارتکار کو دیکھا جس نے عمان میں درجنوں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے جن کی بازگشت انکے واپس پاکستان جانے کے بعد بھی سنائی دیگی وہ ایک ہفتے بعد واپس پاکستان ٹریننگ کیلئے جا رہے ہیں، اللہ کرے انکی جگہ ایک اور علی جاوید یہاں آئے تاکہ انکے کاموں سے تسلسل جاری رہے۔ عمان کا پاکستانی فیسٹیول بھی علی جاوید کی ان کوششوں کا حصہ تھا جس کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے، لیکن اس فیسٹیول کی تاریخ سازکامیابی اس وقت تک ممکن نہیں تھی جب تک ممتاز نوجوان شاعر اور لاجواب آرگنائزر اس ٹیم کی کمان نہ کرتا جو انتظامات کیلئے اس نے ترتیب دی تھی۔ میں قمر ریاض کو برسوں سے جانتا ہوں، وہ ایک انتہائی مخلص اور کام کے حوالے سے جنونی شخص ہے، چنانچہ میں نے عمان میں تین روزہ قیام کے دوران اسے ایک پل کیلئے بھی سوتا نہیں دیکھا۔ پاکستان فیسٹیول دراصل عمان کے سلطان قابوس بن سعید المعظم کو اس بات پر خراج تحسین پیش کرنے کیلئے تھا کہ انہوں نے ڈھائی لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع مہیا کئے۔ عمان میں ڈھائی لاکھ کے قریب پاکستانی آباد ہیں تھوڑے بہت مسائل کے باوجود پاکستانی سلطان عمان سے بہت محبت کرتے ہیں وہ ایک انسان دوست حکمران ہیں۔ میں اپنے بیٹوں جیسے دوست قمر ریاض سے سفیر پاکستان کی مدح سنا کرتا تھا مگر جب میں نے پاکستان ہائوس میں عشائیہ کے موقع پر سفیر پاکستان کی تقریر سنی تو مجھے یقین آ گیا یہ تقریر پاکستان کے عشق کی آئینہ دار تھی دوران تقریر ان کی آنکھوں کیساتھ میری اپنی آنکھیں بھی اشکبار ہو گئیں اور مجھے کہنا پڑ رہا ہے اگر کسی نے زندہ جاوید پاکستان دیکھنا ہو تو وہ علی جاوید سے مل لے۔ ہمیں جہاں ٹھہرایا گیا وہ ایک عمدہ ہوٹل تھا جبکہ جہاں فیسٹول کا اہتمام کیا گیا وہ عمان کا سب سے بڑا کنونشن سینٹر تھا اسکا آڈیٹوریم اپنی نوعیت کا بہترین آڈیٹوریم تھا۔ میرے لئے حیران کن بات یہ بھی تھی کہ عمان فیسٹیول کیلئے حکومت کی طرف سے کوئی فنڈ مختص نہیں تھا بلکہ یہ سب کچھ عمان میں رہنے والے چند کاروباری حضرات کی جانب سے مل جل کر کیا گیا جس میں اپنی بساط کے مطابق کم وبیش 7 سے 8 پاکستانی کمپنیوں نے اشتراک کیا اور سفارتخانہ پاکستان کی ایک پائی بھی اس پورے فیسٹول پر خرچ نہیں ہوئی۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ فیسٹیول کا انتظام و انصرام نامور نوجوان شاعر قمرریاض کی زیر نگرانی ہوا اور اس نے اس کا حق ادا کر دیا، خود بھی نہیں سویا، اپنی ٹیم کے دوستوں کو بھی چین نہیںلینے دیا اور انہیں تمام دنوں میں انتہائی متحرک رکھا۔ اس کا عملی مظاہرہ پاکستان فیسٹول کی تقریب میں دیکھنے کو ملا جس کے مہمان خصوصی عمان کے شاہی خاندان کے رکن فارس فانک السعید تھے جبکہ کئی نامور صحافیوں کو اس فیسٹول میں دیکھ کر حیرت ہوئی اور خوشی بھی کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک جگہ شاذونادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں یہ فن شاید علی جاوید اور قمر ریاض کے پاس ہی ہے کہ وہ آگ اور پانی کو بھی اپنی نیک روح کی بدولت اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)