نوابزادہ نصراللہ خاں کی یاد میں!
نوابزادہ نصراللہ خاں سے میرا ذہنی رشتہ ایوب خاں کے زمانے میں استوار ہوا تھا جب میں کالج کا طالب علم تھا وہ پاکستان کے اس پہلے فوجی آمر کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے سرخیل تھے اور ان کی پڑھائی ہوئی پٹی کے نتیجے میں ہم پولیس کی ڈانگیں کھاتے رہے اس مار کی ٹیسیں ریڑھ کی ہڈی میں گاہے گاہے آج بھی اٹھتی ہیں بلکہ ماڈل ٹائون کے دو جڑواں وکیل بھائیوں جنہیں لوگ ہم شکل اور ہم لباس کی وجہ سے عین غین کہتے تھے کے جلسے میں میری شدید پٹائی ہوتے ہوتے بچی یہ جلسہ الیکشن کے دوران مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف اور ایوب خاں کی حمایت میں ان وکیل بھائیوں کی کوٹھی کے لان میں منعقد ہو رہا تھا۔ ایوب خاں کے وزیر مسعود صادق نے اپنی تقریر کے دوران جب مادر ملت کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو میں جو ایک تماشائی کے طور پر لان کے آخر میں کھڑا تھا برداشت نہ کر سکا اور وہیں کھڑے کھڑے چیخ کر کہا "تم جھوٹ بولتے ہو" میری اس گستاخی پر مسعود صادق صاحب نے مجھ سے زیادہ چیختے ہوئے ارشاد فرمایا "جو میرے جلسے میں گڑبڑ کرنے کی کوشش کرے میں اس کی گردن" پھر کچھ سوچ کر بولے "میں اس کی انگلی کاٹ دیا کرتا ہوں"۔ اس پر ماڈل ٹائون کا ایک "نامور"شخص جو ایک ٹانگ سے محروم تھا اپنی کمر کے ساتھ پستول لٹکائے بیساکھی کے سہارے چلتا ہوا میرے پاس آیا اور ہولے سے میرے کان میں کہا "میں بندے نوں چک کے لے جاواں، فیر اودا پتا وی نہیں لگدا کہ او گیا کتھے اے" (میں بندے کو اٹھا کر لے جاتا ہوں، پھر اس کا پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ گیا کہاں ہے) اس کے بعد اسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ میں نے کسی کو پتا ہی نہیں چلنے دیا کہ میں وہاں سے چشم زدن میں غائب کیسے ہوا؟
آپ کو لگتا ہو گا کہ شاید میں ٹریک سے اتر گیا ہوں، ایسی کوئی بات نہیں ہیں آپ کو یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ پاکستان کی نئی نسل کے اندر جمہوری روح پھونکنے میں نوابزادہ صاحب کا کتنا حصہ تھا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اس مشن کے لئے وقف کی ہوئی تھی۔ گو وہ اپنی زندگی میں قائداعظم کے جمہوری پاکستان کو قائداعظم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلتا ہوا نہ دیکھ سکے مگر انہوں نے کئی نسلوں کی ذہنی تربیت میں بھرپور کردار ادا کیا اور ان کے دلوں سے آمروں کا خوف نکالنے میں کامیاب رہے۔
نوابزادہ نصراللہ خاں صرف ایک سیاستدان نہیں، ایک بھرپور تہذیب کے بھرپور نمائندہ بھی تھے۔ وہ اپنے بدترین مخالفوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی زبان سے کبھی کوئی ایسا لفظ ادا نہیں کرتے تھے جو تہذیب کے منافی ہو وہ ایک شائستہ انسان تھے اور ان سیاستدانوں میں سے تھے جنہوں نے سیاست کو خدمت کا ذریعہ بنایا۔ نوابزادہ نے سیاست سے کچھ کمایا نہیں بلکہ جائیداد کا ایک بڑا حصہ سیاست کی نذر کیا۔ مذاکرات میں مدمقابل کومات دینے کا فن ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ متحارب گروہوں کو ایک میز پر اکٹھا کرنے کے ہنر سے بھی واقف تھے وہ جن حکمرانوں کے خلاف تحریکیں چلاتے رہے وہی حکمران اپوزیشن میں آنے کے بعد نوابزادہ صاحب کی قیادت میں چلنے والی تحریکوں میں آگے آگے نظر آتے تھے۔ مجھے مولانا حسرت موہانی اور نوابزادہ نصراللہ خاں میں دو ایک مماثلتیں بھی نظر آتی ہیں۔ دونوں سیاستدان تھے۔ دونوں اپنے نظریات میں راسخ تھے دونوں دیانتدار تھے دونوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور دونوں شاعر تھے البتہ مولانا حسرت موہانی کی شاعری عاشقانہ تھی جبکہ نوابزادہ صاحب کی غزل میں سیاست کا تڑکا لگا ہوتا تھا۔ تاہم جو مقام اور مرتبہ مولانا حسرت موہانی کا ہے اس حوالے سے ان کا موازنہ کسی دوسری شخصیت سے نہیں کیا جا سکتا چنانچہ خود نوابزادہ نصراللہ خاں بھی مولانا حسرت موہانی کے بہت بڑے عاشقوں میں سے تھے۔
مجھے یہ افتخار حاصل ہے کہ نوابزادہ صاحب نے میری کتاب" بارہ سنگھے" کی صدارت فرمائی اور میرے بارے میں جو کلمات کہے وہ میری اصل اوقات سے کہیں زیادہ تھے۔ میرے والد ماجد مولانا بہاء الحق قاسمی اور نوابزادہ نصراللہ خاں قیام پاکستان سے قبل مجلس احرار سے وابستہ تھے چنانچہ کشمیر کانفرنس میں شرکت کے لئے نوابزادہ صاحب امرتسر تشریف لائے تو ایک رات انہوں نے ہمارے گھر پر قیام کیا۔ یوں ان سے میرا تعلق دو نسلوں سے تھا اور مجھے اس اعزازپر فخر ہے۔
یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ نوابزادہ نصراللہ خاں کو مختلف ادوار میں جمہوریت کے قیام کے لئے تحریک چلانا پڑی قوم ایسے مواقع پر ان کی ضرورت محسوس کرتی تھی جس سے اور کچھ نہیں تو دلوں کی بھڑاس ہی نکل جاتی تھی۔ آج ان کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت تھی مگر وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔
آخر میں "خانہ پری" کے لئے اپنی غزل:
جو چاہتا تھا اسے میں نے وہ ملال دیا
بٹھا کے دِل میں اسے دِل سے پھر نکال دیا
کہاں رہا ہوں میں محرومِ لذتِ آزاد
کسی نے ہجر، کسی نے مجھے وصال دیا
مجھے یقین نہیں تھا نکل سکے گا کبھی
یہ میں نے کعبۂ دِل سے وہ بت نکال دیا
وہ میری دشت نوردی کو جانے کیا سمجھا
فضا میں دشت کو میں نے یونہی اچھال دیا
وہ مجھ سے حل نہ ہوا جب تو اس کو چھوڑ دیا
خود اپنی ذات سے مشکل مجھے سوال دیا
کتاب عشق میں یہ باب ہے انوکھا سا
جدائیوں نے مجھے نشہ وصال دیا
خدا نے تم کو عطا کیں یہ نعمتیں کیسی
جمال رکھا طبیعت میں اور جلال دیا