ایک ’’ہیں‘‘ بیگم سرفراز اقبال!
یہ 1975ء کی بات ہے، میں راولپنڈی گیا تو بیگم سرفراز اقبال کے گھر ہارلے اسٹریٹ جانا ہوا، شام کو میں، بیگم صاحبہ اور ان کے جواں سال صاحبزادے غالب اقبال چہل قدمی کے لئے نکلے، غالب اقبال اس وقت سترہ سال کا تھا اور انتہائی ذہین و فطین یہ نوجوان بعد میں فرانس میں پاکستان کا سفیر بنا اور کینیڈا میں بھی سفارت کے فرائض انجام دیئے۔ غالب اقبال نے دفتر خارجہ میں پروٹوکول چیف کے فرائض بھی انجام دیئے۔ پاکستانی تاریخ کے ایک افسوسناک کردار جنرل یحییٰ خاں کا گھر بھی ہارلے اسٹریٹ میں تھا اور وہ ان دنوں اپنے گھر میں نظر بند تھا۔ چہل قدمی کے دوران ہمارا گزر اس کے گھر کے سامنے سے ہوا تو میں نے دیکھا یحییٰ خان اپنے بنگلے کے ٹیرس پر کرسی پہ بیٹھا ہے۔ چنانچہ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس نے کیا پہنا ہوا ہے۔ میں نے غالب سے کہا لگتا ہے اس نے پینٹ شرٹ پہنی ہوئی ہے۔ غالب نے کہا نہیں انکل وہ سلیپنگ سوٹ میں ہے۔ ہم دونوں میں بحث شروع ہو گئی اور بالآخر یہ شرط طے پائی کہ جو ہار گیا وہ جرمانہ ادا کرے گا۔ حتمی فیصلے کے لئے ضروری تھا کہ خود یحییٰ خاں سے پوچھا جائے کہ اس نے کیا پہن رکھا ہے۔ چنانچہ غالب نے بآواز بلند یحییٰ خاں کو مخاطب کر کے کہا "سر ہم میں شرط لگی ہے، انکل کہہ رہے ہیں کہ آپ نے پینٹ شرٹ اور میں کہہ رہا ہوں کہ آپ نے سلیپنگ سوٹ پہن رکھا ہے اب آپ بذات خود بتائیں کہ آپ نے کیا پہن رکھا ہے؟ یہ سن کر یحییٰ خاں کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور غالب کو مخاطب کر کے بولا "بیٹے تم شرط جیت گئے ہو اور تمہارے انکل ہار گئے ہیں۔ دیکھ لو میں نے سلیپنگ سوٹ پہنا ہوا ہے" چنانچہ اس غریب الدیار کو دس روپے ادا کرنا پڑ گئے، یہ تاریخی سلیپنگ سوٹ تھا کہ سقوط مشرقی پاکستان میں دیگر عوامل کے علاوہ اس سلیپنگ سوٹ اور یحییٰ خاں کے "سلیپنگ پارٹنرز" کا بھی بہت کردار تھا۔
یہ واقعہ مجھے یوں یاد آیا کہ چار روز پیشتر اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں اس خاتون کو یاد کیا گیا جو ہماری ادبی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کی ایک اہم کردار تھیں۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی بڑا ادیب یا شاعر ایسا ہو جو ان کے ہاں مہمان نہ ہوا ہو۔ فیض احمد فیض کا تو آپ سمجھیں کہ یہ دوسرا گھر تھا۔ ان کے علاوہ احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، محمد طفیل، اشفاق احمد، ابن انشاء، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، جمیل الدین عالی اور اس دور کے دوسرے اہم ترین ادباء بیگم سرفراز اقبال کے گھر کے در و بام سے آشنا تھے۔ سرفراز اقبال ایسی خاتون میں نے زندگی میں اور کوئی نہیں دیکھی، ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں۔ ان کی کمپنی میں کسی کے بور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، کھکھلا کا ہنستی تھیں۔ پنجابی میں بات کرتی تھیں اور اپنی مادری زبان بولتے ہوئے انہیں کوئی کمپلیکس محسوس نہیں ہوتا تھا۔ مجھے سکھوں نہیں، سکھنیوں کی مترنم پنجابی بہت اچھی لگتی ہے اور سرفراز اقبال کی پنجابی اتنی ہی مترنم تھی۔ میں نے ان سے زیادہ مہمان نواز بھی کوئی نہیں دیکھا۔ گھر میں نوکر چاکر تھے مگر وہ ان کی موجودگی کے باوجود اپنے مہمانوں کو خود سرو کرتی تھیں۔ مہمان اوپر تلے آتے رہتے تھے مگر ان کے چہرے کی مسکراہٹ اور کھکھلاہٹ میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ صبح ہو، شام ہو، دن ہو، رات ہو، اس گھر کے دروازے مہمانوں کے لئے کھلے رہتے تھے۔ ان کے شوہر ملک اقبال اللہ تعالیٰ ان کو عمر خضر عطا کرے، اگرچہ ادب سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے مگر ادیبوں کی محفل میں خوش رہتے تھے۔ اسلام آباد کی تقریب میں ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ اللہ کا شکر ہے ان کی خوش مزاجی ہو تو واقعی سرفراز اقبال کے بچے بھی مہمانوں کو خوش آمدید کہنے والوں میں شامل ہوتے۔ تمام تر مصروفیات کے باوجود ان کی تعلیم و تربیت سے غفلت نہیں ہوتی، سب کے سب اعلیٰ عہدوں پر سرفراز ہو چکے ہیں۔ اپنی ماں کی طرح ان میں بھی کوئی پھوں پھاں نہیں، کوئی غرور نہیں۔ میں نے ان سب کو بچپن میں بھی دیکھا اور ان کے بال بچے دار ہونے تک کے عرصے میں ہی ان سے رابطہ رہا۔ غالب اقبال کا میں بتا چکا ہوں، مگر یہ بھی تو بتانا ہے کہ جب میں پیرس میں قیام کے دوران اس سے ملنے پاکستانی سفارتخانہ گیا تو اسے ویسا ہی باادب پایا، جیسا نوعمری میں پایا تھا۔ ملاقات کے بعد واپسی پر مجھے نیچے کار تک چھوڑنے آیا۔ پیرس میں میرا میزبان اسد رضوی پاکستانی کمیونٹی میں اس کی بے پناہ مقبولیت کے بارے میں بھی بتا چکا تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر غزالہ جسے ہم "مانو" کہتے تھے اور کہتے ہیں، اس وقت امریکہ کے بڑے نیفرالوجسٹ میں شمار ہوتی ہے۔ واشنگٹن میں ڈاکٹرز کے کنونشن میں اس سے ملاقات ہوئی تو اسے اپنی ماں یاد آ گئی اور وہ بہت دیر تک میرے گلے لگ کر روتی رہی۔ ندیم اقبال کا شمار بھی امریکہ کے بڑے ڈاکٹروں میں ہوتا ہے لیکن اس کے "بڑا" ہونے کے بعد سے اس سے ملاقات نہیں ہوئی اور جہاں تک ثمینہ کا تعلق ہے یہ پی ایچ ڈی اسکالر ہے اور آسٹریلیا میں مقیم ہے۔ محبت تو سب بچوں کو اپنی مرحومہ والدہ اور ضعیف والد سے بے پناہ ہے۔ مگر ثمینہ اقبال نے اپنی ماں کی یاد کو دوسروں کے دِلوں سے بھی بھولنے نہیں دیا۔ وہ ہر سال اپنی عظیم والدہ سرفراز اقبال کی یاد میں تقریب کا اہتمام کرتی ہے اور اسلام آباد کی تقریب کا دعوت نامہ بھی اس کی طرف سے تھا اور اس دھمکی کے ساتھ کہ انکل اگر آپ نہ آئے تو پھر دیکھنا۔
بیگم سرفراز اقبال کے بچوں کا تفصیلی ذکر بھی ضروری تھا کہ یہ پودا جو آج ثمر بار ہو چکا ہے، اس کی آبیاری بھی انہوں نے کی تھی چنانچہ ان کی کامیابیوں اور اعلیٰ درجے کے انسان ہونے کا ذکر ہی سرفراز اقبال ہی کے ٹریبیوٹ میں آتا ہے۔ تقریب میں تنظیم اساتذہ کے صدر (افسوس نام یاد نہیں رہا) ہمیں ان کی سماجی خدمات کے بارے میں بتا رہے تھے اور سچی بات ہے کہ مجھے اس کا علم نہ تھا۔ اللہ جانے وہ غریب طلبہ کے لئے اتنا وقت کب نکالتی تھیں۔ موصوف کی باتوں سے پتا چلا کہ وہ ساری عمر زرِ کثیر غریب طلبہ پر خرچ کرتی تھیں۔ دیگر ضرورت مندوں کی مدد اس کے علاوہ تھی۔ یہ باقاعدہ تقریب نہیں تھی، بلکہ ثمینہ اقبال نے اپنی والدہ کے دیرینہ رفیقوں کو ڈنر پر بلایا تھا۔ یہاں سابق وزیر خارجہ سرتاج عزیز بھی تھے۔ سابق وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید، بہت کم عمری میں میڈیا کی انتہائی اہم شخصیت بننے والے حامد میر بھی یہاں موجود تھے۔ میرے دوست اور کالم نگار مظہر برلاس بھی مہمانوں میں شامل تھے۔ یہاں بہت سے دوستوں نے سرفراز اقبال کی مختصر مگر جامع انداز میں یاد کیا۔ عزیر احمد اور ابرار ندیم لاہور سے میرے ساتھ چلے آئے تھے۔ عزیر نے سرفراز اقبال کی ادبی اور سماجی خدمات کے حوالے سے انہیں منظوم خراج تحسین پیش کیا۔