44 سال پہلے!
یک چشم گل
اسمبلی میں کانوں کی نمائندگی بھی ضرور ہونی چاہئے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ آپ اس محاورے سے لگا سکتے ہیں جس کے مطابق اندھوں میں کانا راجا ہوتا ہے۔ کانا وہ ہوتا ہے جس کی صرف ایک آنکھ ہوتی ہے، چنانچہ وہ مناظر ادھورے دیکھتا ہے اگر وہ بائیں ہاتھ سے کانا ہے تو اسے دائیں ہاتھ کی خوبصورتیاں نظر نہیں آتیں اور اگر وہ دائیں ہاتھ سے کانا ہے تو بائیں ہاتھ کا حسن ا س کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ "لیفٹ" اور "رائٹ" دونوں میں جزوی حسن موجود ہے! (19جنوری 1977)
دھوتی پر پابندی
جس چیز نے ہمیں مخمصے میں ڈال رکھا ہے وہ یہ ہے کہ دھوتی پر پابندی کا اطلاق صرف کوچوانوں پر کیوں کیا گیا ہے؟ ممکن ہے عوام کو اس ضمن میں کوچوانوں سے زیادہ سنگین نوعیت کی شکایات ہوں، اگر ایسا ہے تو بھی پابندی کا یہ دائرہ وسیع کیاجاسکتا تھا، مثلاً سائیکل سواروں کے لئے بھی یہ پابندی ہونی چاہئے۔ جو بایاں پائوں پیڈل پر رکھنے کے بعد داہنی ٹانگ کو ایک چکر دیتے ہوئے گدی پر سوار ہوتے ہیں، اس کے بعد سائیکل سے اترتے وقت بھی وہ شارع عام پر یہی حرکت کرتے ہیں۔ اسی طرح اس پابندی کااطلاق پیدل چلنے والوں پر بھی ہونا چاہئے کہ وہ ماتھے کا پسینہ اکثر دھوتی کے پلو سے پونچھتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرمیوں میں وہ اس لباس کو مزید ہوا دار بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام کرتے ہیں، اگر اس نعمت سے لوگوں کو محروم کرنا ہی ہے تو پھر رات کو گلیوں میں سوئے ہوئے عوام پر بھی یہ پابندی عائد ہونی چاہئے کہ صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو وہ دھوتی دھوتی پکارہے ہوتے ہیں۔ (17جولائی 1977)
شعردان
افلاطون نے اپنی مثالی ریاست کے تصور میں سے شاعروں کو خارج کردیا تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ افلاطون کو شاعری سے کوئی کد نہ تھی بلکہ شاعروں کے"عرض کیا ہے" والے رویے سے تنگ آکر اس نے انہیں ایک ناکارہ مخلوق قرار دے دیا تھا، کیونکہ شاعری کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جس سے کسی اہل ذوق کا"اٹ کھڑکا" رہتا ہو، البتہ اس سطح ارضی پر شاعروں کی ایک ایسی قسم ضرور موجود ہے جس کے "شر" سے لوگ پناہ مانگتے ہیں اور یہ قسم وہی ہے جو جہاں بیٹھتی ہے شر اگلنا شروع کردیتی ہے، چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں دیوار و درکو پان کی پچکاریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اگالدان استعمال میں لائے جاتے ہیں وہاں "شعردان" قسم کی کوئی چیز بھی ایجاد ہونا چاہئے تاکہ جہاں کسی شاعر کو شعر اگلنے کی ضرورت محسوس ہو یہ "شعردان" اس کے آگے کردیا جائے۔ (24اگست 1972)
اہل قلم
قلم لکھنے کے کام بھی آتا ہے، چنانچہ ہم نے کئی ایک لوگوں کو اس سے لکھتے ہوئے بھی دیکھا ہے، تاہم کچھ اہل قلم اس سے شلوار میں ازاربند ڈالتے ہیں۔ ویسے یہ اہل قلم وہ ہیں جنہوں نے لمبی لمبی قلمیں رکھی ہوتی ہیں اور یوں "اہلِ قلم" کہلاتے ہیں۔ بہرحال قلم ایک مفید چیز ہے بشرطیکہ اس سے لکھنے کا کام نہ لیا جائے! (22دسمبر 1976)
شناخت پریڈ
زاہد ڈار ان دنوں ٹی ہائوس میں نظر آتے ہیں تو اسکندر کی طرح خالی ہاتھ ہوتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہنگاموں نے ان کے ہاتھ سے کتاب چھین لی ہے۔ شاعری کے بحر الہند فیض احمد فیضؔ غالباً ان دنوں پھر وہاں ہیں جہاں سے اپنی خبر بھی نہیں آتی۔ بحر ظلمات حفیظ جالندھری بھی ان دنوں بھارت میں ہیں۔ اس مہینے شاعری کے بحیرہ عرب عبدالعزیز خالد کا کوئی شعری مجموعہ منظرعام پر نہیں آیا۔ تنقید کے بحر منجمد ڈاکٹر عبادت بریلوی کے بارے میں بھی راوی چین ہی لکھتا ہے اور پھر شاعری کی نہر سویز کشور ناہید واپس لاہور پہنچ چکی ہیں۔ اسلام آباد کے "پیروں فقیروں" نے انہیں غالباً خاصا مایوس کیا ہے! (6مئی 1977)
انتخابی منشور
ہم نے عاشق کی گفتگو سنی تو حیران ہوئے اور پوچھا کہ کامیابی کی صورت میں اس انتخابی منشور کاکیا بنے گا۔ اس پر وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ کچھ بھی نہیں، بس اس منشور کی پہلی شق پوری کرنے کے مطالبے پر محبوب کو سمجھانا ہے کہ آسمان سے تارے توڑ کر لانا کسی بندہ بشر کے بس کا روگ نہیں، یہ وعدہ تو محض جذبات میں آکر کیا گیا تھا اور اس میں تارے کو استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ دوسرے مطالبے کے بارے میں اسے بتانا ہے کہ اگرچہ زمین پر کہکشاں بچھانے کا کام خاصا مشکل ہے لیکن ان شاء اللہ اس کے لئے تمام وسائل استعمال میں لائے جائیں گے۔ یہ کہنا اس لئے ضروری ہے کہ محبوب کے ساتھ رابطہ قائم رہے اور وہ عاشق کے پیچھے پیچھے چلتا رہے۔ تیسرا وعدہ یعنی میں تمہارے لئے جان قربان کردوں گا، یاد دلائے جانے پر محبوب کی گردن میں بانہیں ڈال دی جائیں اور کہا جا ئے۔ جان من! اگر میں ہی نہ رہا تو یہ وعدے کون پورے کرے گا؟(3نومبر 1975)