زمین کس کی؟ مالک کون؟ (1)
اقوام مغرب کے اپنے وضع کر دہ انٹر نیشنل لا کے مطابق فلسطین کی زمینوں کا جائز اور حقیقی مالک کون ہے؟ جنرل اسمبلی نے جب ناجائز طور پر، اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو پامال کرتے ہوئے، فلسطین کا ایک حصہ مجوزہ یہودی ریاست کے لیے مختص کر دیا تو یہ صول طے ہوا کہ اس حصے میں جو عرب آ باد ہیں ان کے کچھ حقوق ہوں گے۔ یہ حقوق تب سے اب تک مسلسل پامال ہو رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی حیثیت تماشائی یا سہولت کار کی بن چکی ہے۔ مقبوضہ فلسطین کا معاملہ تو اپنی جگہ سنگین اور مسلمہ ہے ہی لیکن جو واردات یہاں مجوزہ ناجائز ریاست کی حدود میں عربوں کو دیے گئے حقوق کی مسلسل پامالی کی شکل میں ہو رہی ہے، اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔
جن فلسطینیوں کو جنرل اسمبلی سے یہودی ریاست کی قرارداد منظور ہونے کے بعد مسلح صہیونی جتھوں نے اور بعد میں اسرائیل کی ریاستی قوت نے قتل عام کرتے ہوئے نکالا اور ان کی زمینوں جائیداد پر قبضے کر لیے، ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اقوام متحدہ کے اکانومی سروے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد 7 لاکھ 26 ہزار تھی۔
راجرگر اڈی کے مطابق اسرائیل کے قیام کے صرف پہلے ایک سال میں بے گھر کیے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد پونے 8 لاکھ تھی، بعد میں اس میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ اسرائیل نے نہ صرف ان علاقوں سے فلسطینیوں کو نکالا جو اقوام متحدہ نے مجوزہ یہودی ریاست کو دیے تھے بلکہ ان علاقوں سے بھی بے دخل کرنے کا سلسلہ جاری رہا، اور آج تک ہے، جو علاقے فلسطینی ریاست کے تھے۔ یہ لوگ آج تک بے گھر اور بے وطن ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انٹر نیشنل لا کی روشنی میں ان فلسطینیوں کی کیا حیثیت ہے؟
جنرل اسمبلی کی قرارداد 181 میں چند اصول طے کر دیے گئے تھے۔ ان میں ایک اصول یہ تھا کہ مجوزہ یہودی ریاست میں موجود عربوں کو ان کے علاقوں سے نہیں نکالا جائے گا، ان کی جائیداد ضبط نہیں کی جائے گی، ان کو تمام شہری اور سیاسی حقوق حاصل ہوں گے اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ اسرائیل نے اس اصول پر آج تک عمل نہیں ہونے دیا اور اقوام متحدہ کی بے بسی (یا سہولت کاری) آج تک ختم نہیں ہو سکی۔
اپنی زمینوں اور اپنے گھر بار کی طرف واپسی ہر فلسطینی کا حق ہے۔ جنرل اسمبلی کی 11 دسمبر 1948 کی قرارداد نمبر 194 میں اس حق کو تسلیم کیا گیا۔ قرارداد کے آرٹیکل 11 میں لکھا گیا کہ جو فلسطینی واپس آنا چاہیں ان کی واپسی کو یقینی بنانا جائے اور جو واپس نہ آنا چاہیں ان کو زر تلافی ادا کیا جائے۔ اس قرارداد میں ایک کمیشن بنانے کا بھی کہا گیا جو ان معاملات کو دیکھے اور ان لوگوں کی واپسی کو یقینی بنائے۔
سلامتی کونسل نے 1950 میں اپنی قرارداد نمبر 89 میں اور پھر 1951 میں اپنی قرارداد نمبر93 میں بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کی واپسی کا کہا۔ دونوں قراردادوں کی مخالفت میں کسی ایک ملک نے بھی ووٹ نہیں دیا۔
سلامتی کونسل نے 14 جون 1967 کو اپنی قرارداد نمبر 237 میں بھی اسی اصول کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل سے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے ان کے گھروں اور زمینوں پر واپسی کے عمل میں سہولیات فراہم کرے ا ور اسے یقینی بنائے۔
19 دسمبر 1968 میں جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 2443 مین ایک بار پھر یہ قرار دیا کہ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں پر واپسی کا حاصل ہے اور یہ ناقابل تنسیخ حق ہے۔
اسی روز جنرل اسمبلی نے ایک اور قرارداد بھی منظور کی اور اس قرارداد نمبر 2452 میں اسرائیل سے کہا وہ بغیر کسی تاخیر کے فور ی طور پر موثر اقدامات اٹھائے اور فلسطینیوں کی واپسی کو یقینی بنائے۔ 100 ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا، صرف ایک ملک نے مخالفت کی۔
جنرل اسمبلی نے 1969 میں ایک بار پھر اپنی قرارداد نمبر 2535 میں کہا کہ: 1۔ فلسطینیوں کوواپسی کا حق حاصل ہے۔ 2۔ یہ حق ناقابل تنسیخ ہے۔ 3۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے اس لیے سلامتی کونسل کو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔ 4۔ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں جو پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں ان سے صورت حال تشویش ناک ہو چکی ہے۔ 5۔ اسرائیل جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل نہیں کر رہا۔ 6۔ اس لیے سیکیورٹی کونسل سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ موثر اقدامات اٹھائے۔
جنرل اسمبلی نے1970 میں قرارداد نمبر 2628 میں کہا کہ واپسی کا حق فلسطینیوں کا مسلمہ اور ناقابل تنسیخ حق ہے اور اس کے بغیر علاقے میں امن ممکن نہیں۔ 1971 میں قرارداد نمبر 2792 میں ایک بار پھر اسی اصول کا اعادہ کیا۔ 1972 میں قرارداد نمبر 2449 اور 2063 میں بھی اسی حق کا اعادہ کیا گیا۔
1974 میں قرارداد نمبر 3236 میں ایک بار جنرل اسمبلی کے قرار دیا کہ: 1۔ فلسطینیوں کا حق خود ارادیت مسلمہ ہے۔ 2۔ فلسطینیوں کو واپسی کا حق حاصل ہے۔ 3۔ یہ حق ناقابل تنسیخ ہے۔ 4۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے اس لیے سلامتی کونسل کو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔ 5۔ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں جو پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں ان سے صورت حال تشویش ناک ہو چکی ہے۔ 6۔ اسرائیل جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل نہیں کر رہا۔
اسی سال جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد نمبر 3089 میں ایک بار انہی تمام اصولوں کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو واپسی کا حق ہے اور یہ حق ان سے کسی صورت کوئی نہیں چھین سکتا۔ جنرل اسمبلی نے 1975 میں اپنی قرارداد نمبر 3376 میں بھی یہی اصول دہرائے۔
جنرل اسمبلی نے 11 دسمبر 1948 کی قرارداد نمبر 194 کو بعد میں کم از کم 30 قراردادوں میں بطور حوالہ پیش کیا لیکن آج تک اسرائیل نے جنرل اسمبلی کی ان قراردادوں پر عمل نہیں کیا۔ یاد رہے کہ اسرائیل خود اسی جنرل اسمبلی کی صرف ایک قرارداد کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ قرارداد مسلمہ بین الاقوامی قوانین اور خود اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں سے انحراف تھی۔
دنیا کا یہ مسلمہ قانون ہے کہ کسی شخص کو اس کے گھر، زمین، علاقے سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں استثنی صرف اتنا ہے کہ عوامی مقاصد کے لیے کہیں کوئی قطعہ اراضی لینے کی ضرورت پڑ جائے جیسے سڑک، ہسپتال وغیرہ یا کسی ریاستی مقصد کے لیے زمین کی ضرورت ہو تو معقول معاوضہ دے کر زمین لی جا سکتی ہے لیکن کسی غاصب قوت کو توبالکل یہ حق نہیں کہ وہ لاکھوں لوگوں کو ان کے علاقون سے نکال کر ان پر قبضہ کر لیا ور ان کے سینکڑوں گاؤں ملیا میٹ کرکے ہموار کر دے۔ (جاری ہے)