Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Ye Kaisi Siasat Hai?

Ye Kaisi Siasat Hai?

یہ کیسی سیاست ہے؟

عمران خان نے پٹرول سستا کیا تو ن لیگ چیخ اٹھی کہ ہائے ہائے اتنے نازک معاشی حالات میں اس نے پٹرول سستا کیسے کر دیا۔ یہ ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے کہ ہم حکومت میں آئیں تو ہمارے لیے مشکلات ہوں۔ اب ن لیگ پٹرول سستا کرنے جا رہی ہے تو عمران خان نے آ ہ وبکا شروع کر دی ہے کہ ان حالات میں پٹرول کیسے سستا ہوسکتا ہے، پٹرول تو مہنگا ہونا چاہیے۔ یہ ضرور ہمارے خلاف ضمنی انتخابات کے لیے سازش کی جا رہی ہے۔ یہ ہے ان دونوں گروہوں کا مبلغ ویژن، جس سے اس معاشرے کی کمر لال اور ہری کی جا رہی ہے۔

یعنی ان دونوں گروہوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ حکومت اگر دوسرے کی ہوتو عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملنا چاہیے بلکہ ان کی زندگی جہنم بن جانی چاہیے تا کہ ان کی جماعت اور گروہ سرخرو ہو سکے۔ حکومت کسی کی بھی ہو اور حزب اختلاف میں کوئی بھی ہو، صرف کردار بدلتے ہیں۔ کہانی ایک ہی رہتی ہے۔ حکومت اگر پٹرول مہنگا کر دیتی ہے تو شور مچ جاتا ہے کہ یہ تو چور ہے، یہ تو لوٹ کر کھا گئی، یہ تو نا اہل ہے۔ اور حکومت اگر پٹرول سستاکر دیتی ہے تو حزب اختلاف سینہ کوبی شروع کر دیتی ہے کہ ہائے ہائے اتنے مشکل معاشی حالات میں بھلا پٹرول سستا کیسے کر لیا۔ اسے تو مزید مہنگا ہوناچاہیے تھا۔ یہ تو ہمارے خلاف سازش ہو گئی۔ ہم تو لٹ گئے۔ ہم تو مارے گئے۔

ابھی کل جب عمران کی حکومت تھی، مسلم لیگ چیخ و پکار کر رہی تھی کہ پٹرول مہنگا کر کے اس نے ملکی معیشت کا ستیاناس کر دیا، یہ نا اہل ہے۔ اس سے پٹرول کی قیمت نہیں سنبھالی جا رہی، اس نے لوگوں کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ پھر جب ن لیگ کو حکومت ملی تو اس کے شہہ دماغ رہنما قوم کو بتانے لگے کہ عزیز ہم وطنو! " گل وچوں ہور اے" اور وہ یہ ہے کہ پٹرول تو مہنگا ہونا چاہیے تھا، عمران نے بلاوجہ سستا کیے رکھا۔ عمران کے خلاف پورا بیانیہ اس بنیاد پر کھڑا کیا گیا کہ اس کی نا اہلی نے مہنگائی کا عذاب مسلط کر دیا ہے اور جب عمران حکومت ختم ہو گئی تو راتوں رات نئی فرد جرم آ گئی کہ عمران نے تو پٹرولیم مصنوعات سستی کیے رکھیں اور اس سستے پٹرول نے ہماری معیشت برباد کر دی۔

ابھی وہی کام عمران خان نے سنبھال لیا ہے۔ کل تک ان کا مقدمہ یہ تھا کہ ن لیگ حکومت چور ہے، یہ پٹرول کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر چکی ہے۔ ساتھ ہی وہ یاد دلاتے ہیں کہ جب پٹرول مہنگا ہو جائے تو سمجھ جائو حکومت چور ہے۔ لیکن اچانک جب حکومت نے پٹرول سستا کرنے کا عندیہ دیا تو عمران خان کو یاد آیا کہ ملکی معاشی حالات تو پٹرول سستا کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ پٹرول سستا کرنا تو ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ اگر حکومت اسے سستا کر رہی ہے تو یہ یقینا کوئی سازش ہے اور وہ عمران خان کو ضمنی انتخابات میں شکست دینا چاہتی ہے۔

ان دونوں جماعتوں کا یہ رویہ نفسیاتی بحران اور فکری عدم توازن کی خبر دے رہا ہے۔ یہ بتا رہا ہے کہ چیزوں کو جانچنے کے لیے کوئی اصول یا کوئی اخلاق باقی نہیں رہا۔ اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ کسی کے ہاں اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں کوئی حساسیت باقی نہیں رہی۔ ہر گروہ کے ہاں مطلوب و مقصود صرف اپنی گروہی عصبیت ہے اور یہ قومی امور کو بھی اپنی گروہی عصبیت کے پیمانے پر پرکھتے ہیں۔ یہاں کسی کے پاس کوئی پروگرام نہیں۔ یہاں سرخرو ہونے کا ایک ہی راستہ ہے کہ مخالف کو شیطان ثابت کر دیا جائے۔ اپنی کوئی خوبی اور صلاحیت بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔

چنانچہ عمران خان چار سال کے اقتدار کے بعد بھی اپنے نامہ اعمال کی بنیاد پر سیاست نہیں کر رہے۔ ان کے پاس واحد بیانیہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ اب چونکہ باقی سب چور ہیں اس لیے بھائی جان کو اقتدار سونپ دیا جائے۔ یعنی یہ کام اپنی کسی خوبی یا صلاحیت کا انعام نہیں، دوسروں کے چور ہونے کا تاوان ہے جو صاحب وصول کرنا چاہتے ہیں۔

یہی عالم ن لیگ کا ہے۔ اس کے خیال میں پاکستا ن میں کہیں بارشیں زیاہ ہو جاتی ہیں اور سیلاب آ جاتا ہے تو اس کا ذمہ دار بھی عمران خان ہے۔ یہ بالکل وہی رویہ ہے کہ جب عمران خان روپے کی قدر کو سنبھال نہ سکے اور اسے بے توقیر کر دیا اور اس کی خبر بھی عزت مآب کو ٹی وی چینل سے ملی تو بجائے اپنی اس کوتاہی کا اعتراف کرنے کے بجائے انہوں نے نیا بیانیہ جاری فرما دیا کہ اسحاق ڈار نے روپے کو مصنوعی طریقے سے سنبھالا ہوا تھا، ہم نے اسے قدرتی طریقے سے بے توقیر کر دیا۔ یہ بات وہ آج تک نہیں بتا پائے کہ کاغذ کی کرنسی کی مارکیٹ ویلیو کا تعین" حقیقی " کیسے ہو تا ہے اور "مصنوعی"کیسے ہوتا ہے نیز یہ کہ ڈالر کی چکا چوند میں حقیقی چمک کتنی ہے اور مصنوعی گڈ ول کا کتنا کردار ہے۔

ہماری سیاست یہ طے کر چکی ہے کہ اپنی خوبیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ مخالف کی خامیوں کو پرچم بنا کر سیاست کرنی ہے۔ چنانچہ یہ سارا دن ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے ہیں۔ ایک شریف اور نجیب آدمی کا اس ماحول میں دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس بد تمیزی اور بد زبانی میں کہاں جا کر پناہ حاصل کرے۔ کوئی پلاننگ، کوئی تصور حیات اور کوئی حکمت عملی کہیں زیر بحث نہیں ہے، زیر بحث ہے تو بس یہ کہ دوسرے کی کردار کشی کیسے کرنی ہے۔ ردیف قافیے ملا ملا کر سیاسی حلیفوں کی تذلیل کی جاتی ہے اور جو جتنا زیادہ زبان دراز ہو اپنے اپنے گروہ میں وہ خود کو اتنا ہی اہم، سمجھ لیتا ہے۔

سڑکوں، ہوٹلوں اور پارکوں میں سیاسی مخالفین کی تذلیل کرنے کے عمل کو تحریک انصاف نے رواج دیا اور اسے آج تک اس بات کا احساس نہیں کہ اس کے چاہنے والوں میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو اس بدتمیزی کو پسند نہ کرتے ہوں۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ احسن اقبال سے بد تمیزی کرنے والے خاندان نے ان کے گھر جا کر معذرت کی۔ اس معذرت سے اس فیملی کی عزت میں اضافہ ہوا۔ لیکن جواب آں غزل میں جو زبان جناب وزیر داخلہ نے ٹوئٹر پر استعمال کی اس کا شکوہ اب کوئی کس سے کرے؟ آپ جناب وزیر داخلہ اور ن لیگ کے چند سینیٹرز کے ٹویٹ دیکھیں، آپ شرمندہ ہو جائیں گے۔ عمران خان کے خلاف ان ٹویٹس میں وہ زبان استعمال کی گئی ہے کہ پڑھ کر کوفت اور بے زاری ہونے لگتی ہے۔ عمران خان بھی غالب کا دیوان نہیں پڑھتے، ان کا لب و لہجہ بھی ایسا ہی ہے۔

ہر گروہ میں جو چند نجیب لوگ باقی ہیں، وقت آ گیا ہے وہ اپنے اخلاقی وجود کے باب میں حساسیت کا مظاہرہ کریں اور اپنی اپنی جماعت سے سوال کریں کہ یہ کیسی سیاست ہے؟

Check Also

Balcony

By Khansa Saeed